غزل برائے اصلاح

شہنواز نور

محفلین
السلام علیکم ۔ محفلین ایک غزل پیش ہے اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے
دل ہمارا عجیب ہے صاحب
خود ہی اپنا رقیب ہے صاحب
زخم جو بے شمار دیتا ہے
وہ ہمارا طبیب ہے صاحب
قتل ہونے لگا فرشتوں کا
اب قیامت قریب ہے صاحب
دھڑکنوں پر اسی کی قدرت ہے
درد دل کا نقیب ہے صاحب
تنگ دستی بیان کرتی ہے
کون کتنا حبیب ہے صاحب
وقت اچھا برا نہیں ہوتا
اپنا اپنا نصیب ہے صاحب
اس کو دولت خدا نے بخشی ہے
پر وہ دل کا غریب ہے صاحب
تذکرہ ہے چمن چمن جس کا
رنگ اس کا ذہیب ہے صاحب
نور لہجے سے جان جاتا ہے
کون کتنا ادیب ہے صاحب
 

عظیم

محفلین
دل ہمارا عجیب ہے صاحب
خود ہی اپنا رقیب ہے صاحب
۔۔۔درست

زخم جو بے شمار دیتا ہے
وہ ہمارا طبیب ہے صاحب
۔۔۔۔زخم دیتا ہے بے شمار جو شخص
بہتر ہو گا

قتل ہونے لگا فرشتوں کا
اب قیامت قریب ہے صاحب
۔۔۔۔۔ٹھیک

دھڑکنوں پر اسی کی قدرت ہے
درد دل کا نقیب ہے صاحب
۔۔۔۔یہ بھی ٹھیک لگ رہا ہے

تنگ دستی بیان کرتی ہے
کون کتنا حبیب ہے صاحب
۔۔۔۔'بیان کرتی' سے وہ مطلب راست ادا نہیں ہو رہا جو آپ کا ہے
یوں کیا جا سکتا ہے
تنگ دستی یہ صاف کرتی ہے

وقت اچھا برا نہیں ہوتا
اپنا اپنا نصیب ہے صاحب
۔۔۔۔۔ٹھیک لگ رہا ہے

اس کو دولت خدا نے بخشی ہے
پر وہ دل کا غریب ہے صاحب
۔۔۔۔'پر' اچھا نہیں لگ رہا
پہلے مصرع میں کسی طرح 'مگر' لے آئیں تو دوسرے سے 'پر' کو ہٹایا جا سکتا ہے۔

تذکرہ ہے چمن چمن جس کا
رنگ اس کا ذہیب ہے صاحب
۔۔۔۔یہ بھی درست لگ رہا ہے

نور لہجے سے جان جاتا ہے
کون کتنا ادیب ہے صاحب
۔۔۔۔یہ بھی درست معلوم ہو رہا ہے
 
Top