غزل برائے اصلاح

الف عین
عظیم،فلسفی ،وارث یاسر شاہ
--------------
افاعیل---فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
---------------------
یاد آتی ہیں تیری وفاداریاں
بھول سکتا نہیں وہ دلداریاں
--------------
جانتا ہوں بہت تھی وہ مشکل گھڑی
جب محبّت میں آئی تھیں دشواریاں
------------
وہ ترا آ کے ملنا بھی برسات میں
یاد ہیں وہ تری نازبرداریاں
----------------
جوش تیری محبّت کا پھیکا پڑا
بڑھ گئی تھیں وہ میری بھی بے کاریاں
------------
بھول جانا خطاؤں کو میری صنم
یاد رکھنا نہ میری مکّاریاں
------------
لوٹ آنا بُلاتا ہے ارشد تمہیں
اب نہیں ہیں محبّت میں دشواریاں
---------------
 

عظیم

محفلین
یاد آتی ہیں تیری وفاداریاں
بھول سکتا نہیں وہ دلداریاں
--------------دوسرا مصرع بحر میں نہیں، 'نہیں' کے بعد 'میں' ہونا چاہیے تھا
دوسرا ایطا بھی آ گیا ہے مطلع میں۔ 'داریاں' دونوں قوافی میں مشترک ہو گیا ہے

جانتا ہوں بہت تھی وہ مشکل گھڑی
جب محبّت میں آئی تھیں دشواریاں
------------جانتا ہوں وہ مشکل گھڑی تھی بہت
اور دوسرے مصرع میں 'آئی' کی جگہ 'آئیں' کا محل معلوم ہوتا ہے

وہ ترا آ کے ملنا بھی برسات میں
یاد ہیں وہ تری نازبرداریاں
----------------اس شعر کو دوبارہ کہنے کی کوشش کریں، دونوں مصرعے بیان کے اعتبار سے نا مکمل لگ رہے ہیں

جوش تیری محبّت کا پھیکا پڑا
بڑھ گئی تھیں وہ میری بھی بے کاریاں
------------انداز بیان اچھا نہیں لگ رہا 'پھیکا پڑا' کی جگہ 'ہلکا ہوا' استعمال کیا جا سکتا ہے
اور 'بے کاریاں' بھی کچھ عجیب لگ رہا ہے

بھول جانا خطاؤں کو میری صنم
یاد رکھنا نہ میری مکّاریاں
------------'صنم' کی جگہ 'سبھی' آ سکتا ہے اور دوسرا مصرع بحر میں نہیں۔ ایک رکن کی کمی ہے

لوٹ آنا بُلاتا ہے ارشد تمہیں
اب نہیں ہیں محبّت میں دشواریاں
---------------'آنا' بہت دور کی بات ہو گئی ہے۔ 'لوٹ آؤ' کر لیں
 
Top