غزل برائے اصلاح

فیضان قیصر

محفلین
اب تو سبھی سے اپنا دل بھر گیا کروں کیا؟
لوگوں کے درمیاں بھی تنہا رہا کروں کیا؟


کتنے تھے خواب جن کی تعبیر ڈھونڈنی تھی
اکثر تو مر چکے ہیں۔ اب تذکرہ کروں کیا؟


دورِ رواں میں صاحب سچ کا چلن نہیں ہے
چپ نہ رہوں اگر تو پھر میں کِیا کروں کیا؟


جوبھی رفیقِ جاں ہیں سب خیریت سے ہیں پر
ناصح میں ان سے مل کے باتیں بھلا کروں کیا؟


دل میں جو خواہشیں تھیں سب مر چکی ہیں زاہد
مسجد تو آگیا ہوں اب تو بتا کروں کیا؟؟


فیضان مشورہ دے میں بھی منافقوں سے
جب بھی ملا کروں تو، ہنس کے ملا کروں کیا؟
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ اچھی غزل ہے
'مل کے' اور' ہنس کے' کو مل کر اور ہنس کر کر دیں، مجھے زیادہ فصیح لگتا ہے
چپ نہ رہوں اگر تو پھر میں کِیا کروں کیا؟
... نہ بطور 'نا' آ رہا ہے جو مجھے درست نہیں لگتا

جوبھی رفیقِ جاں ہیں سب خیریت سے ہیں پر
.. پر؟ لیکن ہی استعمال کریں جیسے
جو بھی رفیق جاں ہیں، ہیں خیریت سے لیکن
ایک متبادل
 
Top