غزل برائے اصلاح

الف عین
----------------
فلسفی ، عظیم ، خلیل الر حمن
------------------
افاعیل--فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
------------------
یار مجھ سے پوچھتا ہے اب ملیں گے کس جگہ
پھول ایسے پیار کے یہ اب کھلیں گے کس جگہ
------------------
مِل کے دونوں کر رہے ہیں ،ہم جو دنیا سے گلہ
زخم ہم کو جو ملے ہیں ، وہ سِلیں گے کس جگہ
----------------------
جامِ الفت پی رہے ہیں دونوں مل کر اب یہاں
سوچ لینا چاہئے اب پئیں گے کس جگہ
--------------------
لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیں پیار کرنا چھوڑ دے
پیار مجھ سے پوچھتا ہے اب ملیں گے کس جگہ
--------------------
بُجھ نہ پائیں گے کبھی بھی پیار کے روشن دیئے
لوگ سب ہی سوچتے ہیں اب جلیں گے کس جگہ
-------------------
عقل ارشد جسم ہے تو عشق تیری جان ہے
سوچنے کی بات ہے دونوں ملیں گے کس جگہ
--------------------
 

عظیم

محفلین
یار مجھ سے پوچھتا ہے اب ملیں گے کس جگہ
پھول ایسے پیار کے یہ اب کھلیں گے کس جگہ
------------------اس ردیف کے بارے میں بابا بہتر بتا سکتے ہیں کہ قوسین میں ہونی چاہیے کہ نہیں
میرے خیال میں 'پوچھتا ہے' کے بعد 'کہ' کی کمی ہے، اگر اس کمی کو پورا نہیں کیا جاتا تو ردیف کو یوں لکھنا پڑے گا
"اب ملیں گے کس جگہ"
دوسرے مصرع میں 'ایسے' کی بجائے 'اپنے' لایا جایا تو واضح صورت بن سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ 'یہ' اضافی لگ رہا ہے 'یہ اب' کی جگہ 'اب کے' استعمال میں لایا جا سکتا ہے، یا اس طرح کے کچھ اور الفاظ۔

مِل کے دونوں کر رہے ہیں ،ہم جو دنیا سے گلہ
زخم ہم کو جو ملے ہیں ، وہ سِلیں گے کس جگہ
----------------------میرے خیال میں آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم دونوں دنیا سے گلہ کر تو رہے ہیں لیکن جو زخم ہمیں مل چکے ہیں وہ تو نہیں بھرنے 'سلنے' والے۔
'زخم کے ساتھ 'سلنا' مجھے کچھ عجیب لگ رہا ہے لیکن میرے خیال میں چل سکتا ہے۔ صرف کسی اور طریقے سے اس خیال کو بیان کرنے کی ضرورت ہے جس سے بات واضح ہو جائے۔

جامِ الفت پی رہے ہیں دونوں مل کر اب یہاں
سوچ لینا چاہئے اب پئیں گے کس جگہ
--------------------دوسرے مصرع میں شاید کچھ ٹائپ ہونے سے رہ گیا ہے، اس کے علاوہ اس شعر میں بھی پچھلے شعر کی طرح بیان ادھورا لگ رہا ہے، یعنی جو بات آپ کہنا چاہتے ہیں وہ واضح نہیں ہوئی یا پڑھنے والا اس تک نہیں پہنچ پاتا۔

لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیں پیار کرنا چھوڑ دے
پیار مجھ سے پوچھتا ہے اب ملیں گے کس جگہ
--------------------'اب' کی بجائے میرے خیال میں 'پھر' ہونا چاہیے تھا

بُجھ نہ پائیں گے کبھی بھی پیار کے روشن دیئے
لوگ سب ہی سوچتے ہیں اب جلیں گے کس جگہ
-------------------آپ کی ردیف میں 'کس جگہ' کے الفاظ ہیں جو کہ کسی مقام وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں، اسی لیے پہلے مصرع میں بھی کسی جگہ یا ایسے الفاظ کا استعمال کریں جو جگہ وغیرہ سے تعلق رکھتے ہوں مثلاً
'کبھی بھی' کی بجائے 'کہیں بھی' کہیں تو بات بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے مصرع میں 'سب ہی' اضافی ہے اس کی جگہ 'لیکن' استعمال کیا جائے تو شعر واضح اور بہتر ہو سکتا ہے

عقل ارشد جسم ہے تو عشق تیری جان ہے
سوچنے کی بات ہے دونوں ملیں گے کس جگہ
--------------------تکنیکی اعتبار سے صرف 'تو' طویل کھنچ رہا ہے ۔ لیکن معنوی اعتبار سے میں مطلب نہیں سمجھ پایا۔
 

الف عین

لائبریرین
عظیم نے ماشاء اللہ بہت اچھے مشورے دیے ہیں
ایک بات اور جو وہ بھول گئے ہیں
دو قوافی بھی درست نہیں ہیں ۔ 'پئیں گے' اور' جلیں گے' ۔ دوسرے قوافی میں زیر کے بعد 'لیں' مشترک ہے۔ 'جلیں' میں زبر آ گیا ہے اور 'پئیں' میں 'لیں' ہی مشترک نہیں
 

عظیم

محفلین
عظیم نے ماشاء اللہ بہت اچھے مشورے دیے ہیں
ایک بات اور جو وہ بھول گئے ہیں
دو قوافی بھی درست نہیں ہیں ۔ 'پئیں گے' اور' جلیں گے' ۔ دوسرے قوافی میں زیر کے بعد 'لیں' مشترک ہے۔ 'جلیں' میں زبر آ گیا ہے اور 'پئیں' میں 'لیں' ہی مشترک نہیں
الحمد للہ بابا، اس بات کا احساس مجھے بعد میں ہوا تھا لیکن میں نے لکھنا مناسب نہیں سمجھا۔
 
عظیم
عظیم بھائی میں نے بہت کوشش کی مگر مسعلہ حل نہ ہوا۔مِلیں، کھلیں ، سِلیں،، یہ تین الفاظ ہیں ۔ اس کے علاوہ ایسے الفاظ نہیں مل رہے لن میں لیں بھی مشترک ہو اور لیں سے پہلے لفظ پر زیر بھی ہو۔۔اگر کچھ الفاظ ذہن میں آئیں تو بتا دیجئے۔۔ یا وہ الفاظ جو ان کے ہم قافیہ بن سکیں ۔
اُن کو استمال میں خود کر لوں گا
 

عظیم

محفلین
اس وقت تو میرے ذہن میں لفظ 'ہلیں' ہی ہے جو ان الفاظ کا ہم قافیہ لفظ بن سکتا ہے
 
@عظیم،محترم الف عین
---------------------
عظیم بھائی -- میں نے اس غزل میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں ، دوبارا چیک کر لیجئے
------------------------
یار مجھ سے کہہ رہا ہے ہم کو ڈرنا چاہئے ( لوگ دشمن پیار کے ہیں ہم کو ڈرنا چاہئے )
یار سے میں کہہ رہا ہوں پیار کرنا چاہئے
---------------------
چھوڑ دنیا کی شکایت ، دل جلانا ہے بُرا
اب تو نغمہ پیار کا کوئی بھی چِھرنا چاہئے
-------------------
مل کے خالی کر رہے ہیں جامِ الفت ہم یہاں
جام ایسا پیار کا تو روز بھرنا چاہئے
-------------------
لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیں پیار کرنا چھوڑ دے
لوگ دشمن پیار کے ہیں ہم کو ڈرنا چاہئے
--------------
بُجھ نہ پائیں گے کبھی بھی پیار کے روشن دیئے
پیار میں ہی پیار والوں کو تو مرنا چاہئے
------------------
بات تھی یہ سوچنے کی یار پہلے پیار سے
پیار اب تو ہو گیا ہے اب نہ ڈرنا چاہئے
----------------
دور جا کے بس گیا ہے یار مجھ سے ہے خفا
میں منانے جا رہا ہوں کچھ تو کرنا چاہئے
------------------
تم چُھپانا چاہتے ہو پیار چُھپتا ہی نہی
جو بنائے بات کوئی ہاتھ جڑنا چاہئے ( جو بھی دشمن پیار کا ہو ہاتھ جڑنا چاہئے )
--------------------
یاد ارشد آ رہا ہے ، بات کرتا تھا بھلی
پیار کرتا تھا سبھی سے یاد کرنا چاہئے
------------------
 

عظیم

محفلین
یار مجھ سے کہہ رہا ہے ہم کو ڈرنا چاہئے ( لوگ دشمن پیار کے ہیں ہم کو ڈرنا چاہئے )
یار سے میں کہہ رہا ہوں پیار کرنا چاہئے
---------------------یہ ردیف پہلی کے مقابلے میں اچھی لگی، شعر اچھا بن سکتا ہے صرف تھوڑی سی محنت کے ساتھ۔ پہلے مصرع میں کسی طرح اس چی کا ذکر کر دیں جس سے ڈرنا چاہیے اور دوسرے مصرع کو 'میں اسے یہ کہہ رہا ہوں پیار کرنا چاہیے' کر لیں
دونوں مصرعوں میں 'یار' کا دوہرایا جانا بھی ختم ہو جائے گا

چھوڑ دنیا کی شکایت ، دل جلانا ہے بُرا
اب تو نغمہ پیار کا کوئی بھی چِھرنا چاہئے
-------------------اس کا قافیہ غلط ہو گیا ہے، ابھی اسی لڑی میں ہی بات ہوئی تھی کہ سلیں کھلیں قوافی جلیں کے ساتھ درست نہیں کہ جلیں میں ج پر زبر ہے اور کھلیں سلیں وغیرہ میں س اور کھ کے نیچے زیر ہے جب کہ 'لیں' سب میں مشترک ہے

مل کے خالی کر رہے ہیں جامِ الفت ہم یہاں
جام ایسا پیار کا تو روز بھرنا چاہئے
-------------------یہ شعر صرف بیان لگ رہا ہے، کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آ رہا۔ دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے

لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیں پیار کرنا چھوڑ دے
لوگ دشمن پیار کے ہیں ہم کو ڈرنا چاہئے
--------------یہ تو ہار ماننے والی بات ہو گئی! اس سے الٹا کچھ ہونا تھا ۔ یعنی 'کیا ہم کو ڈرنا چاہیے؟' یا کیوں ڈرنا چاہیے ؟ اور لوگ بھی دو بار استعمال ہوا ہے، وہ بھی مصرعوں کے شروع میں۔ جو اچھا نہیں لگتا

بُجھ نہ پائیں گے کبھی بھی پیار کے روشن دیئے
پیار میں ہی پیار والوں کو تو مرنا چاہئے
------------------دو لخت ہے، دونوں مصرعے الگ الگ مضمون لیے ہوئے ہیں

بات تھی یہ سوچنے کی یار پہلے پیار سے
پیار اب تو ہو گیا ہے اب نہ ڈرنا چاہئے
----------------کیا 'بات یہ تھی سوچنے کی' زیادہ رواں نہیں رہے گا؟

دور جا کے بس گیا ہے یار مجھ سے ہے خفا
میں منانے جا رہا ہوں کچھ تو کرنا چاہئے
------------------یہ شعر درست لگ رہا ہے، بس 'کچھ تو کرنا چاہیے' کا ٹکڑا تھوڑا عجیب لگ رہا ہے۔ منانے تو پہلے ہی جا رہے ہیں پھر 'کچھ تو کرنا چاہیے' کی کیا ضرورت ؟ میرے خیال میں 'یہ سوچ کر منانے جا رہا ہوں کہ کچھ تو کرنا چاہیے' اس بات کو مصرع میں بیان کرنے کی ضرورت ہے

تم چُھپانا چاہتے ہو پیار چُھپتا ہی نہی
جو بنائے بات کوئی ہاتھ جڑنا چاہئے ( جو بھی دشمن پیار کا ہو ہاتھ جڑنا چاہئے )
--------------------باقی سب قافیوں میں 'رنا' ہے تو یہ قافیہ 'ڑنا' کیسے استعمال میں آ سکتا ہے؟ اس کے علاوہ ہاتھ جڑنا بھی سمجھ میں نہیں آیا

یاد ارشد آ رہا ہے ، بات کرتا تھا بھلی
پیار کرتا تھا سبھی سے یاد کرنا چاہئے
------------------اچھا ہے

بابا
 

الف عین

لائبریرین
عظیم نے درست کہا ہے سب کچھ۔ میں محض دو باتیں اور کہنا چاہوں گا
پیار اب تو ہو گیا ہے اب نہ ڈرنا چاہئے
دوسرا ٹکڑا نا مکمل لگتا ہے 'اب کیوں ڈرنا چاہیے' یا 'اب تو ڈرنا نہیں چاہیے' کا محل ہے

یاد ارشد آ رہا ہے ، بات کرتا تھا بھلی
پیار کرتا تھا سبھی سے یاد کرنا چاہئے
... 'اس کو' یاد کرنا چاہیے ہوتا تو بات مکمل درست ہوتی۔ اس کو اس طرح کہیں تو شاید
پیار کرتا تھا سبھی سے، بات کرتا تھا بھلی
یاد جب آ جائے ارشد، یاد کرنا چاہیے
 
عظیم ، الف عین
--------------------
ایک بار پھر
-------------
سب جو کرتے ہیں جہاں میں وہ ہی کرنا چاہئے
ہے محبّت جرم تو پھر ہم کو ڈرنا چاہئے
------------
چھوڑ دنیا سے شکایت ، دل جلانا ہے بُرا
پیار ہم کو سُن کے باتیں کم نہ کرنا چاہئے
-------------
جو یہ دنیا چاہتی ہے وہ تو ہونے سے رہا
پیار ہم سے یہ چُھڑائیں ، ان کو قرنا چاہئے
---------یا -------
پیار ہم سے یہ چُھڑا دیں ، ان کو قرنا چاہئے
---------------
یہ لڑانا چاہتے ہیں ہم کو دشمن پیار کے
--یا ------
یہ ہیں دشمن پیار کے جو چاہتے ہیں ہم لڑیں
پیار سچا ہے اگر تو پھر نہ ڈرنا چاہئے
--------------
راستے میں چھوڑ دینا یہ نہیں رسمِ وفا
پیار میں ہی پیار والوں کو تو مرنا چاہئے -
--------- یا ---
پیار کے ہی راستے میں اُن کو مرنا چاہئے
-----------------
پیار کرنا چاہئے، سب سوچنے کے بعد ہی
کر لیا ہے پیار تو پھر اب نہ ڈرنا چاہئے
------------
دور جا کے بس گیا ہے ، یار مجھ سے ہے خفا
مان لے گا بات میری کچھ تو کرنا چاہئے
-------------------
تم چھپانا چاہتے ہو پیار چھپتا ہی نہیں
پیار سچا گر نہیں تو پھر نہ کرنا چاہئے
-------------
پیار کرتا تھا سبھی سے ، بات کرتا تھا بھلی
یاد جب آ جائے ارشد ، یاد کرنا چاہئے
----------------------
 

الف عین

لائبریرین
سب جو کرتے ہیں جہاں میں وہ ہی کرنا چاہئے
ہے محبّت جرم تو پھر ہم کو ڈرنا چاہئے
------------ وہ ہی... ہی بھرتی کا نہیں؟ 'وہی' درست ہوتا
دونوں مصرعوں میں ربط مضبوط نہیں بن سکا
روانی بھی متاثر ہے

چھوڑ دنیا سے شکایت ، دل جلانا ہے بُرا
پیار ہم کو سُن کے باتیں کم نہ کرنا چاہئے
------------- شتر گربہ، دو لخت

جو یہ دنیا چاہتی ہے وہ تو ہونے سے رہا
پیار ہم سے یہ چُھڑائیں ، ان کو قرنا چاہئے
---------یا -------
پیار ہم سے یہ چُھڑا دیں ، ان کو قرنا چاہئے
---------------
قرنا کیا ہوتا ہے؟ میں نہیں جانتا

یہ لڑانا چاہتے ہیں ہم کو دشمن پیار کے
--یا ------
یہ ہیں دشمن پیار کے جو چاہتے ہیں ہم لڑیں
پیار سچا ہے اگر تو پھر نہ ڈرنا چاہئے
-------------- 'اگر تو پھر' کی وجہ سے روانی متاثر ہو گئی ہے
پیار سچا ہے اگر، ہم کو نہ ڈرنا...
کر سکتے ہیں

راستے میں چھوڑ دینا یہ نہیں رسمِ وفا
پیار میں ہی پیار والوں کو تو مرنا چاہئے -
--------- یا ---
پیار کے ہی راستے میں اُن کو مرنا چاہئے
----------------- ان کو؟ کس کی بات کر رہے ہو؟ میرے خیال میں یوں بہتر ہو گا
راہ میں ہی چھوڑ دینا...
عاشقوں کو عشق کے رستے میں.....

پیار کرنا چاہئے، سب سوچنے کے بعد ہی
کر لیا ہے پیار تو پھر اب نہ ڈرنا چاہئے
------------'تو پھر اب' میں کچھ بھرتی کے الفاظ ہیں
پیار جب کر ہی لیا ہے، پھر نہ ڈرنا...

دور جا کے بس گیا ہے ، یار مجھ سے ہے خفا
مان لے گا بات میری کچھ تو کرنا چاہئے
------------------- دور جا 'کر'......
عظیم کی بات پر دھیان نہیں دیا!

تم چھپانا چاہتے ہو پیار چھپتا ہی نہیں
پیار سچا گر نہیں تو پھر نہ کرنا چاہئے
------------ دو لخت ہو گیا

پیار کرتا تھا سبھی سے ، بات کرتا تھا بھلی
یاد جب آ جائے ارشد ، یاد کرنا چاہئے
---------------------- درست
 
الف عین
( پیار ہم سے یہ چُھڑا دیں ، ان کو قرنا چاہئے) یہاں دراصل میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ یہ اگر ہم سے پیار چُھرانا چاہتے ہیں تو انہیں قرنا یعنی صور پھونکے جانے کا انتظار کرنا پڑے گا، (قرنا) صور کے معانی میں استعمال ہوتا ہے (فرہنگِ امیرہ )
 

الف عین

لائبریرین
عربی کے قرن ہا سے مختصر شدہ قرنا تو درست ہے لیکن لفظ جس پوزیشن میں استعمال کیا گیا ہے اس میں متوقع فعل ہی ہوتا ہے، کرنا بھرنا مرنا جیسے۔ قرنا جیسا مشکل لفظ کا استعمال عجیب ہی لگتا ہے۔ صور کے معنی میں دیکھنے کے لیے گوگل کو زحمت دی تو ایک بائبل کا لنک ملا۔ البتہ زمانے کے لیے یہ لفظ یہاں استعمال ہو سکتا ہے
 
الف عین
--------------
معذرت کے ساتھ ایک بار پھر
---------------------
ہم تو کہتے ہیں سبھی سے پیار کرنا چاہئے
ہے محبّت جرم تو پھر ہم کو ڈرنا چاہئے
----------
چھوڑ دنیا سے شکایت ، دل جلانا ہے بُرا
بھول جاؤ ان کی باتیں ، غم نہ کرنا چاہئے
---------------------
ان کی خاطر پیار چھوڑیں ، یہ تو ہونے سے رہا
یہ ہیں دشمن پیار کے تو ہم کو لڑنا چاہئے
----------- یا ---------
ان کی خاطر پیار چھوڑیں یہ تو ہونے سے رہا
پیار میں جو جان جائے تو نہ ڈرنا چاہئے (جن کو جاں پیاری ہے ، ان کو ڈرنا چاہئے
-----------------
یہ ہیں دشمن پیار کے جو چاہتے ہیں ہم لڑیں
پیار سچا ہے اگر ہم کو نہ لڑنا چاہئے
-------------------
راہ میں ہی چھوڑ دینا یہ نہیں رسمِ وفا
عاشقوں کو عشق کے رستے میں مرنا چاہئے
------------
پیار کرنا چاہئے ، سب سوچنے کے بعد ہی
پیار جب کر ہی لیا ہے ، پھر نہ ڈرنا چاہئے
---------------
دور جا کر بس گیا ہے ، یار مجھ سے ہے خفا
مان لے گا بات میری ، کچھ تو کرنا چاہئے
-------------------
پیار کرتا تھا سبھی سے ، بات کرتا تھا بھلی
یاد جب آ جائے ارشد ، یاد کرنا چاہئے
-------------------

---------------
 

عظیم

محفلین
ہم تو کہتے ہیں سبھی سے پیار کرنا چاہئے
ہے محبّت جرم تو پھر ہم کو ڈرنا چاہئے
----------دونوں مصرعوں میں دو الگ الگ باتیں ہیں
پہلے میں پیار کرنا چاہیے اور دوسرے میں ڈرنا چاہیے
شاید یوں کچھ بات بنے
ہے محبت جرم تو پھر ہم کو ڈرنا چاہیے
ورنہ ہم کہتے ہیں سب سے پیار کرنا چاہیے
لیکن اس صورت میں بھی 'تو' طویل کھنچ رہا ہے، اور شاید 'تو پھر' میں 'پھر' بھی اضافی ہے

چھوڑ دنیا سے شکایت ، دل جلانا ہے بُرا
بھول جاؤ ان کی باتیں ، غم نہ کرنا چاہئے
---------------------شتر گربہ

ان کی خاطر پیار چھوڑیں ، یہ تو ہونے سے رہا
یہ ہیں دشمن پیار کے تو ہم کو لڑنا چاہئے
----------- یا ---------
ان کی خاطر پیار چھوڑیں یہ تو ہونے سے رہا
پیار میں جو جان جائے تو نہ ڈرنا چاہئے (جن کو جاں پیاری ہے ، ان کو ڈرنا چاہئے
-----------------اگر اس شعر کا تعلق پچھلے شعر سے ہے تو آپ یہ دو اشعار قطعہ ہوں گے ۔ جس کا ذکر آپ کو پچھلے شعر سے پہلے 'ق' کے حرف سے کرنا ہو گا
اگر ایسا نہیں ہے تو کس کی خاطر پیار چھوڑیں اس بات کی وضاحت نہیں ہے، اور 'لڑنا' قافیہ ان قوافی کے ساتھ غلط ہے۔

یہ ہیں دشمن پیار کے جو چاہتے ہیں ہم لڑیں
پیار سچا ہے اگر ہم کو نہ لڑنا چاہئے
-------------------اس شعرکا تعلق بھی پچھلے دو اشعار کے ساتھ لگتا ہے
قافیہ بھی غلط

راہ میں ہی چھوڑ دینا یہ نہیں رسمِ وفا
عاشقوں کو عشق کے رستے میں مرنا چاہئے
------------یہ ٹھیک ہو گیا ہے

پیار کرنا چاہئے ، سب سوچنے کے بعد ہی
پیار جب کر ہی لیا ہے ، پھر نہ ڈرنا چاہئے
---------------مجھے ذاتی طور پر یہ لگتا ہے کہ 'پیار' کی تقطیع میں جو آپ کو مشکلات تھیں اس کو دور کرنے کے لیے آپ اس لفظ کا استعمال مشق کے طور پر کرتے ہیں، مگر ایسا کرنے سے آپ کی پوری غزل میں پیار پیار ہی ہو جاتا ہے جو پڑھنے والے کو اچھا نہیں لگتا
اس شعر میں بھی دونوں مصرعوں کا آغاز ایک ہی لفظ سے ہو رہا ہے


دور جا کر بس گیا ہے ، یار مجھ سے ہے خفا
مان لے گا بات میری ، کچھ تو کرنا چاہئے
-------------------کسی طرح دوسرے مصرع میں یہ بات کہنے کی کوشش کریں کہ اس کو منانے کے لیے کچھ تو کرنا چاہیے ۔ تب جا کر یہ شعر درست ہو پائے گا

پیار کرتا تھا سبھی سے ، بات کرتا تھا بھلی
یاد جب آ جائے ارشد ، یاد کرنا چاہئے
-------------------یہ بھی درست ہو گیا ہے
 
Top