غزل برائے اصلاح

شہنواز نور

محفلین
السلام علیکم
محفلین ایک غزل پیش کرتا ہوں اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے

دل میں نفرت تھی لب پہ نعرہ تھا
ہم نے وہ دور بھی گزارا تھا
ہم نے آواز رام کو دی تھی
کبھی اللہ کو پکارا تھا
تم نے اپنا مکان توڑا ہے
دل ہمارا بھی گھر تمہارا تھا
عشق میں تھا قصور دونوں کا
کچھ تمہارا تھا کچھ ہمارا تھا
ہم بھی کچھ دور جا کے لوٹ آئے
راہِ الفت میں بس خسارہ تھا
ناز ہم کو بھی تھا مقدر پر
جب وہ تقدیر کا ستارہ تھا
تم ہمیں یاد بھی نہیں آتے
اک یہی زیست کا سہارا تھا
رات کے ساتھ دل ہوا روشن
چاند نے پیرہن اتارا تھا
پاک بازی بھی کچھ نہ کام آئی
تھا وہ چہرا کہ ماہ پارہ تھا
اس پہ دل اس قدر فدا کیوں تھا ؟
وہ جو پیارا تھا کتنا پیارا تھا ؟
نور دنیا سے ہو گیا رخصت
دل جو تاریکیوں کا مارا تھا
 

الف عین

لائبریرین
کچھ ہی اشعار توجہ چاہتے ہیں
تم نے اپنا مکان توڑا ہے
دل ہمارا بھی گھر تمہارا تھا
عجز بیان کا شکار ہو گیا۔ خیال شاید یہ ہے کہ تم نے اپنا 'ہی' مکان توڑا ہے کیونکہ ہمارا دل تمہارا گھر 'بھی تو' تھا۔ محض تمہارا تھا سے مکمل نہیں ہو پاتا یہ تخیل!

تم ہمیں یاد بھی نہیں آتے
اک یہی زیست کا سہارا تھا
... یہ شعر
تم تو اب یاد بھی نہیں آتے/ اب تو تم یاد بھی نہیں آتے
بس یہی زیست......
ہوتا تو مزا آتا!
مقطع دو لخت لگتا ہے
باقی اشعار درست ہیں
 
Top