غزل برائے اصلاح

منزل قریب راہ بھی آساں ہو ڈر نہ ہو
کیا لطف اس سفر میں کہ جو پر خطر نہ ہو

میں بس یہ چاہتا ہوں کہ اسکی نگاہ میں
کوئی بھی شخص میرے سوا معتبر نہ ہو

میں ہوں سیاہئ شبِ ہجراں میں پرسکوں
اے وقت تھم خیال رہے کہ سحر نہ ہو

اک سمت بے وفائی تری اک طرف ہے تو
دل کشمکش میں ہے کہ کدھر ہو کدھر نہ ہو

تیری دعا کہ ترک تعلق ہو عنقریب
میری دعا کہ تیری دعا میں اثر نہ ہو

دور بہار جائے تو پھر زندگی بھی جائے
میرے چمن سے دودِ خزاں کا گزر نہ ہو

کیوں زندگی میں نذر کروں انتظار میں
ہو انتظارِ یار مگر اس قدر نہ ہو

سینچا ہے اس کو میر و غالب نے عمر بھر
ممکن نہیں زمینِ سخن بارور نہ ہو

تنویر اور مشق سخن کر نہ ہار مان
اہل سخن میں اب بھی اگر نامور نہ ہو


محترم
سر الف عین
 

فلسفی

محفلین
بہت خوب تنویر صاحب، اصلاح سے قبل داد قبول فرمائیں۔ کچھ گذارشات اپنی طرف سے لکھ دیتا ہوں۔ اساتذہ سے معذرت کے ساتھ۔

میں ہوں سیاہئ شبِ ہجراں میں پرسکوں
اے وقت تھم خیال رہے کہ سحر نہ ہو
دوسرے مصرعے میں "کہ" کو یک حرفی باندھا ہے جو مناسب نہیں۔

دور بہار جائے تو پھر زندگی بھی جائے
میرے چمن سے دودِ خزاں کا گزر نہ ہو
پہلا مصرعہ شاید بحر سے خارج ہے۔

کیوں زندگی میں نذر کروں انتظار میں
ہو انتظارِ یار مگر اس قدر نہ ہو

نذر میں کے بجائے نذر کے یعنی "کیوں زندگی میں نذر کروں انتظار کے" شاید مناسب لگے گا۔
 
آخری تدوین:
بہت خوب تنویر صاحب، اصلاح سے قبل داد قبول فرمائیں۔ کچھ گذارشات اپنی طرف سے لکھ دیتا ہوں۔ اساتذہ سے معذرت کے ساتھ۔


دوسرے مصرعے میں "کہ" کو یک حرفی باندھا ہے جو مناسب نہیں۔


پہلا مصرعہ شاید بحر سے خارج ہے۔



نذر میں کے بجائے نذر کے یعنی "کیوں زندگی میں نذر کروں انتظار کے" شاید مناسب لگے گا۔

حوصلہ افزائ کے لیے شکریہ

دوربہار جائے تو پھر زندگی بھی جائے
میرے چمن سے دورِخزاں کا گزر نہ ہو

پہلے مصرع کے آخر میں میں نے جائے کا تلفظ, جاے, باندھا ہے, پھر بھی آپ رہنمائی فرمائے.


میں ہوں سیاہئ شبِ ہجراں میں پرسکوں
اے وقت تھم خیال رہے کہ سحر نہ ہو

اگر اس شعر کو ایسا کردیا جائے

میں ہوں سیاہئ شبِ ہجراں میں پرسکوں
اے وقت تھم خیال رہے یہ! سحر نہ ہو


کیوں زندگی میں نذر کروں انتظار کے
ہو انتظارِ یار مگر اس قدر نہ ہو
 

فلسفی

محفلین
محترم میری گذارشات کو سنجیدہ لینے سے پہلے یہ ضرور ذہن میں رکھیے گا کہ میں خود ایک طالب علم ہوں۔ جو کچھ اساتذہ سے اس فورم پر سیکھا ہے اس کے حساب سے اپنی رائے پیش کروں گا جو غلط بھی ہو سکتی ہے جب تک کسی استاد کی سند نہ مل جائے۔ خیر

دوربہار جائے تو پھر زندگی بھی جائے
میرے چمن سے دورِخزاں کا گزر نہ ہو

پہلے مصرع کے آخر میں میں نے جائے کا تلفظ, جاے, باندھا ہے, پھر بھی آپ رہنمائی فرمائے.

جائے میں الفاظ کا اسقاط روانی متاثر کرتا ہے۔ آپ باقی اشعار کو گنا گنا کر دیکھیے اور پھر اس مصرعے کو پڑھیے فرق خود معلوم ہو جائے گا۔ الفاظ کی نشت بدلیے یا کچھ اور کہیے۔ سر الف عین کے مطابق یہ کوشش خود شاعر کرے تو زیادہ بہتر ہے چہ جائیکہ کوئی اور مصرعہ عطا کردے۔

اگر اس شعر کو ایسا کردیا جائے

میں ہوں سیاہئ شبِ ہجراں میں پرسکوں
اے وقت تھم خیال رہے یہ! سحر نہ ہو
میرے خیال میں "یہ" کی جگہ "اب" زیادہ اچھا لگے گا۔

کیوں زندگی میں نذر کروں انتظار کے
ہو انتظارِ یار مگر اس قدر نہ ہو
(y)
 

الف عین

لائبریرین
دور بہار جائے تو پھر زندگی بھی جائے
میرے چمن سے دودِ خزاں کا گزر نہ ہو
میرے خیال میں فلسفی 'دورِ' کو ' دوٗر' سمجھ رہے ہیں۔ مصرعہ درست ہے
البتہ دودِ خزاں تکنیکی طور پر درست نہیں، بادِ خزاں بہتر ہے
' اب سحر نہ ہو' بھی پسند آیا۔ البتہ یہ شعر
سینچا ہے اس کو میر و غالب نے عمر بھر
ممکن نہیں زمینِ سخن بارور نہ ہو
پہلا مصرع بحر سے خارج ہے'مومن و غالب' کر دیں
باقی اشعار درست ہیں
 
دورِبہار جائے تو پھر زندگی بھی جائے
میرےچمن سے بادِ خزاں کا گزر نہ ہو


اگر اس مصرع کو ایسے کردیاجائے تو مناسب رہےگا؟
سینچا ہے اس کو میر نے غالب نے عمربھر
ممکن نہیں زمینِ سخن بارور نہ ہو
 

الف عین

لائبریرین
میر نے غالب نے بھی اچھا نہیں لگتا ہاں، تین نام ہوں تو بہتر ہے جیسے
غالب نے میر و داغ نے سینچا ہے عمر بھر
 
Top