غزل برائے اصلاح

مہر و وفا میں جان بھی قربان کر گئے
عاقل سے ہو سکے نہ جو نادان کر گئے
پرویوں سی ناز لے کے مرے گھر وہ آئے تھے
اک خطہ زمیں کو پرستان کر گئے
مہمان بن کے دو لمحوں کے واسطے
یادوں کو اپنی مستقل مہمان کر گئے
جاتے ہوئے نگاہ جو محفل پہ کر گئے
مہنگی سے مہنگی مے کو بھی ارزان کر گئے
جینے کی وجہ ڈھونڈ رہا تھا یہ دل مرا
مشکل وہ آ کے یہ مری آسان کر گئے
کل شب کو بن سنور کے وہ آئے تھے خواب میں
کافر کے دل کو قائلِ حوران کر گئے
نہ حسن اور زن سے کبھی دشمنی کرو
یوسف کو دونوں داخلِ زندان کر گئے
پردہ اٹھا دیا جو سرِ بزم آپ نے
حوروں سمیت منفعل غلمان کر گئے
یہ حسن اور عشق جو باہم ہوئے کبھی
غالبؔ کے آدمی کو بھی انسان کر گئے
 

الف عین

لائبریرین
مہر و وفا میں جان بھی قربان کر گئے
عاقل سے ہو سکے نہ جو نادان کر گئے
/// ہو سکا' کا محل ہے

پرویوں سی ناز لے کے مرے گھر وہ آئے تھے
اک خطہ زمیں کو پرستان کر گئے
///شاید 'پریوں' لکھنا تھا لیکن پریاں ناز کی وجہ سے تو مشہور نہیں
یوں کہو
پریوں کی طرح اترے تھے آنگن میں وہ مرے

مہمان بن کے دو لمحوں کے واسطے
یادوں کو اپنی مستقل مہمان کر گئے
/// دونوں مصرعے بحر سے خارج
مہمان بن کے چند ہی لمحوں کے واسطے
یادوں کو مستقل مرا مہمان کر گئے

جاتے ہوئے نگاہ جو محفل پہ کر گئے
مہنگی سے مہنگی مے کو بھی ارزان کر گئے
ارزان اچھا نہیں لگتا کہ ارزاں زیادہ مستعمل ہے لیکن چل سکتا ہے

جینے کی وجہ ڈھونڈ رہا تھا یہ دل مرا
مشکل وہ آ کے یہ مری آسان کر گئے
درست بلکہ عمدہ شعر ہے

کل شب کو بن سنور کے وہ آئے تھے خواب میں
کافر کے دل کو قائلِ حوران کر گئے
///حوران؟ حور کی جمع عربی میں حورین ہوتی ہے

نہ حسن اور زن سے کبھی دشمنی کرو
یوسف کو دونوں داخلِ زندان کر گئے
///تلمیح درست نہیں لگتی یوسف کے حسن اور زن سے عزیز مصر کی بیوی مراد ہے تو۔ لیکن دشمنی تو حضرت یوسف کو اپنے حسن سے تھی نہ ملکہ مصر سے!

پردہ اٹھا دیا جو سرِ بزم آپ نے
حوروں سمیت منفعل غلمان کر گئے
دوسرا مصرع بحر سے خارج بھی ہے اور بے معنی بھی لگتا ہے

یہ حسن اور عشق جو باہم ہوئے کبھی
غالبؔ کے آدمی کو بھی انسان کر گئے
درست
 
تلمیح درست نہیں لگتی یوسف کے حسن اور زن سے عزیز مصر کی بیوی مراد ہے تو۔ لیکن دشمنی تو حضرت یوسف کو اپنے حسن سے تھی نہ ملکہ مصر سے!
گو اپنے حسن سے ہی دشمنی کی تھی لیکن کی تو حسن سے تھی۔ یعنی حضرت یوسفؑ نے اپنے حسن سے بھی دشمنی کی اور زن یعنی زلیخہ سے بھی دشمنی کر لی۔
 

الف عین

لائبریرین
گو اپنے حسن سے ہی دشمنی کی تھی لیکن کی تو حسن سے تھی۔ یعنی حضرت یوسفؑ نے اپنے حسن سے بھی دشمنی کی اور زن یعنی زلیخہ سے بھی دشمنی کر لی۔
یوسف کو دشمنی تو بالکل نہیں تھی اپنے حسن سے
اس شعر کو نکال ہی دیں زندان بھی مستعمل نہیں زنداں ہی استعمال کیا جاتا ہے
 
Top