غزل برائے اصلاح

شہنواز نور

محفلین
السلام علیکم ۔۔۔محفلین ۔۔۔۔ایک غزل پیش ہے اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے ۔۔۔شکر گزار رہوں گا

میرے دل میں کسی کا نام نہیں
اب یہاں حسن کا قیام نہیں
چاندنی کے حسیں اجالے ہوں
اپنی تقدیر میں وہ شام نہیں
تو جو چاہے کرے ستم ہم پر
تجھ سے لیں گے ہم انتقام نہیں
اس نئ نسل میں بہت کچھ ہے
پر بزرگوں کا احترام نہیں
یہاں سیتا بھی اور راون بھی
ہند میں صرف ایک رام نہیں
جھوٹ کو سچ بنا رہا ہے تو
اور زباں پر تری لگام نہیں
تیری ہر بات کو قبول کروں
میں ترے باپ کا غلام نہیں
چند پیسے میں جو خریدو تم
اتنا سستا مرا کلام نہیں
لاکھ تارے ہیں آسمانوں میں
نور بس ایک ہے تمام نہیں
 

الف عین

لائبریرین
ٹھیک ہے غزل۔
چاندنی کے حسیں اجالے ہوں
اپنی تقدیر میں وہ شام نہیں
کو اگر
چاندنی کے جہاں اجالے ہوں
اپنی تقدیر میں وہ شام نہیں
کر دیا جائے تو مطلب زیادہ واضح ہو جاتا ہے
اسی طرح
تجھ سے لیں گے ہم انتقام نہیں
کی یہ شکل بہتر ہے
لینے والے ہم انتقام نہیں

یہ مصرع
یہاں سیتا بھی اور راون بھی
'ہے' کی کمی کی وجہ سے نا مکمل لگتا ہے۔
آخری شعر واضح نہیں
 
تو جو چاہے کرے ستم ہم پر
تجھ سے لیں گے ہم انتقام نہیں
اس نئ نسل میں بہت کچھ ہے
پر بزرگوں کا احترام نہیں

عام سا خیال ہے۔ غزل میں شامل نہ کریں تو بہتر ہے۔

یہاں سیتا بھی اور راون بھی
ہند میں صرف ایک رام نہیں
تینوں ہندؤں کے خدا؟ مطلب؟



تیری ہر بات کو قبول کروں
میں ترے باپ کا غلام نہیں
مجھے یہ شعر اچھا لگا۔
 
Top