غزل برائے اصلاح

اعوان جی

محفلین
احباب، میں ایک غزل کے ساتھ حاضر ہوا ہوں۔ استاد محترم الف عین سر اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
مانا کے میں غریب ھوں میرا لباس نہ دیکھ
دولت تو آذمائی ھوئی چیز ھے کبھی دل آذما کے دیکھ
لگا کر دل ہٹا لینا وفا اسکو نہیں کہتے
دکھا کر منہ چھپا لینا حیاء اسکو نہیں کہتے
لگی ٹھوکر گرا نیچے اٹھا دیتے تو کیا ھوتا
اپنی چھاتی میرا سینہ ملا دیتے تو کیا ھوتا
لکھا پردیس قسمت میں وطن کو یاد کیا کرنا
جہاں بے درد حاکم ھوں وہاں فریاد کیا کرنا
کاغذ ھو ذمین ساری سمندر ھو سیاہی کا
لکھتے لکھتے ختم نہ ھو قصہ تیری جدائی کا
نہ تم اتنے حسین ھوتے نہ ہم تم پہ فدا ھوتے
نہ تم روتے نہ ہم روتے نہ دل سے دل جدا ھوتے
 

اعوان جی

محفلین
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں !
جو برس گئیں‌تو بہار ہیں
جو ٹھہر گئیں تو قرار ہیں

کبھی آ گئیں ‌یونہی بے سبب !
کبھی چھا گیئں یونہی روزوشب

کبھی شور ہیں کبھی چپ سی ہیں
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں

کسی یاد میں، کسی رات کو
اک دبی ہوئی سی راکھ کو

کبھی یوں ہوا کے بجھا دیا
کبھی خود سے خود کو جلا دیا

کہیں‌بوند بوند میں گم سی ہیں
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں ..!
 

اعوان جی

محفلین
احباب میں ایک نئ غزل کے ساتھ حاضر ہوا ہوں استادِمحترم الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ھے (شکریہ)
________غزل________
یہاں خلوص بکتا ھے یہاں پیار بکتا ھے
یہاں دشمن کے ہاتھوں یار بکتا ھے
یہاں انسان کا قاتل انسان ملتا ھے
یہاں اونچے لوگوں کا مزار بکتا ھے
یہاں لگتے ہیں بازاروں میں شراب کے ٹھیلے
یہاں خدا کی خدائی کا اختیار بکتا ھے
یہاں کھا کے بھی سب سے پیٹ نہیں بھرتے
یہاں انسانیت بکتی ھے عاشر یہاں معیار بکتا ھے
 
Top