غزل برائے اصلاح : کرتا ہے انتظار بھلا کس کے کال کا

اشرف علی

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم سید عاطف علی صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح کی درخواست ہے ۔

غزل

پھر چھڑ گیا ہے تذکرہ حسن و جمال کا
یعنی کسی کے چشم و لب و خدّ و خال کا

خوش ہوں کہ میرے پیار کا احساس انہیں ہوا
دکھ ہے مگر کہ عرصہ لگا سات سال کا

چل کر نہیں وہ دوڑ کے آئے گا میرے پاس
جس دن پتا چلے گا اسے میرے حال کا

نظروں سے دور ہو کے بھی وہ دل کے پاس ہے
گویا فراق میں بھی مزا ہے وصال کا

حسنِ قمر پہ ناز ہے جس کو وہ ایک بار
تجھ سے کرے مقابلہ بدر و ہلال کا

جا پوچھ جا کے اس سے کب آئیں گے اچھے دن
ممکن نہیں جواب دے وہ اس سوال کا
یا
پوچھا جب اس سے میں نے کب آئیں گے اچھے دن
اس نے مذاق اڑا دیا میرے سوال کا

فردا کی فکر مجھ کو نہ ماضی کا رنج ہے
رکھتا ہوں میں خیال فقط اپنے حال کا

دَم ہے اگر ، تو سنیے ، بتاتا ہوں آج سچ
ہیں آپ ہی سبب ، مِرے رنج و ملال کا

پہنچا ہوں غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر
باعث ہے خود عروج ہی اپنے زوال کا

جینے کے لالے پڑ گئے ہیں ان دنوں ندیم
مت پوچھ بھاؤ کیا ہے اب آٹے کا دال کا

نظریں ٹکائے فون پہ اکثر وہ رات بھر
یا
نظریں ٹکائے فون پہ اشرف وہ رات بھر
کرتا ہے انتظار بھلا کس کے کال کا

غالبؔ نے مجھ سے خواب میں اشرف کہا یہ کل
یا
غالبؔ نے مجھ سے خواب میں کل رات یہ کہا
تو بھی مری طرح ہے سخن ور کمال کا
 

الف عین

لائبریرین
درست لگ رہی ہے غزل، بس، "کس کے کال" میں تنافر ہے، لیکن شاید اس سے مفر نہیں
اگر مقطع بھی رکھنا ہے تو یہ متبادل بھی تو ہے
غالب نے رات خواب میں اشرف سے یہ کہا
ویسے تمہارے متبادلات میں بغیر تخلص والا بہتر ہے روانی میں
اچھے دن والے بھی دونوں متبادل درست ہیں، کوئی سا بھی رکھو
 

اشرف علی

محفلین
الحمد للّٰہ
حوصلہ افزائی کے لیے شکر گزار ہوں سر

اچھے دن والے بھی دونوں متبادل درست ہیں، کوئی سا بھی رکھو
ٹھیک ہے سر
دوسرے شعر میں "دیا" کی الف گر رہی تھی اسی میں ڈاؤٹ تھا کہ قابلِ قبول ہوگی یا نہیں ...

اگر مقطع بھی رکھنا ہے تو یہ متبادل بھی تو ہے
غالب نے رات خواب میں اشرف سے یہ کہا
جی سر بہت بہت شکریہ ...
اتنا بہترین مصرع دینے کے لیے
جزاک اللّٰہ خیراً


ویسے تمہارے متبادلات میں بغیر تخلص والا بہتر ہے روانی میں
جی

، بس، "کس کے کال" میں تنافر ہے، لیکن شاید اس سے مفر نہیں
اب دیکھیں سر ..!

نظریں ٹکائے فون پہ اکثر وہ رات بھر
کرتا ہے انتظار فقط میری کال کا

سر ! پچھلا شعر میں" کس کی کال" ہونا چاہیے تھا کیا ؟

اور یہ ...

غالبؔ نے رات خواب میں اشرف سے یہ کہا
تو بھی مِری طرح ہے سخن ور کمال کا

اصلاح و رہنمائی کے لیے بہت بہت شکریہ سر
اللّٰہ آپ کو شاد رکھے ، آمین ۔
 

اشرف علی

محفلین
غزل ( اصلاح کے بعد )

پھر چھڑ گیا ہے تذکرہ حسن و جمال کا
یعنی کسی کے چشم و لب و خدّ و خال کا

خوش ہوں کہ میرے پیار کا احساس انہیں ہوا
دکھ ہے مگر کہ عرصہ لگا سات سال کا

چل کر نہیں وہ دوڑ کے آئے گا میرے پاس
جس دن پتا چلے گا اسے میرے حال کا

نظروں سے دور ہو کے بھی وہ دل کے پاس ہے
گویا فراق میں بھی مزا ہے وصال کا

حسنِ قمر پہ ناز ہے جس کو وہ ایک بار
تجھ سے کرے مقابلہ بدر و ہلال کا

پوچھا جب اس سے میں نے کب آئیں گے اچھے دن
اس نے مذاق اڑا دیا میرے سوال کا

فردا کی فکر مجھ کو نہ ماضی کا رنج ہے
رکھتا ہوں میں خیال فقط اپنے حال کا

دَم ہے اگر ، تو سنیے ، بتاتا ہوں آج سچ
ہیں آپ ہی سبب ، مِرے رنج و ملال کا

پہنچا ہوں غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر
باعث ہے خود عروج ہی اپنے زوال کا

جینے کے لالے پڑ گئے ہیں ان دنوں ندیم
مت پوچھ بھاؤ کیا ہے اب آٹے کا دال کا

نظریں ٹکائے فون پہ اکثر وہ رات بھر
کرتا ہے انتظار بھلا کس کی کال کا

غالبؔ نے رات خواب میں اشرف سے یہ کہا
تو بھی مری طرح ہے سخن ور کمال کا
 

اشرف علی

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم سید عاطف علی صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح کی درخواست ہے ۔

غزل

پھر چھڑ گیا ہے تذکرہ حسن و جمال کا
یعنی کسی کے چشم و لب و خدّ و خال کا

خوش ہوں کہ میرے پیار کا احساس انہیں ہوا
دکھ ہے مگر کہ عرصہ لگا سات سال کا

چل کر نہیں وہ دوڑ کے آئے گا میرے پاس
جس دن پتا چلے گا اسے میرے حال کا

نظروں سے دور ہو کے بھی وہ دل کے پاس ہے
گویا فراق میں بھی مزا ہے وصال کا

حسنِ قمر پہ ناز ہے جس کو وہ ایک بار
تجھ سے کرے مقابلہ بدر و ہلال کا

جا پوچھ جا کے اس سے کب آئیں گے اچھے دن
ممکن نہیں جواب دے وہ اس سوال کا
یا
پوچھا جب اس سے میں نے کب آئیں گے اچھے دن
اس نے مذاق اڑا دیا میرے سوال کا

فردا کی فکر مجھ کو نہ ماضی کا رنج ہے
رکھتا ہوں میں خیال فقط اپنے حال کا

دَم ہے اگر ، تو سنیے ، بتاتا ہوں آج سچ
ہیں آپ ہی سبب ، مِرے رنج و ملال کا

پہنچا ہوں غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر
باعث ہے خود عروج ہی اپنے زوال کا

جینے کے لالے پڑ گئے ہیں ان دنوں ندیم
مت پوچھ بھاؤ کیا ہے اب آٹے کا دال کا

نظریں ٹکائے فون پہ اکثر وہ رات بھر
یا
نظریں ٹکائے فون پہ اشرف وہ رات بھر
کرتا ہے انتظار بھلا کس کے کال کا

غالبؔ نے مجھ سے خواب میں اشرف کہا یہ کل
یا
غالبؔ نے مجھ سے خواب میں کل رات یہ کہا
تو بھی مری طرح ہے سخن ور کمال کا
پسندیدگی کے لیے شکر گزار ہوں محترم صریر صاحب
اللّٰہ آپ کو شاد رکھے ، آمین ۔
 
Top