غزل برائے اصلاح ٰ(جنت سے بے سبب تو نکالا نہیں گیا)

جنت سے بے سبب تو نکالا نہیں گیا
مجھ سے ہی اپنا آپ سنبھالا نہیں گیا
کہتے ہیں زندگی میں مری کچھ کمی نہیں
ان تک ابھی تمہارا حوالہ نہیں گیا
تجھ کو جھلک دکھا کے گئے، عمر ہو گئی
آنکھوں سے تیرے نور کا ہالہ نہیں گیا
ہم تو بیان کرتے ہیں اپنی ہی سر گزشت
ہم سے کسی کا درد اچھالا نہیں گیا
معلوم تھا یہ قرض بھی جائے گا رائیگاں
مانگا تھا اس ادا سے کہ ٹالا نہیں گیا۔
 

یاسر شاہ

محفلین
جنت سے بے سبب تو نکالا نہیں گیا
مجھ سے ہی اپنا آپ سنبھالا نہیں گیا
واہ بہت خوب۔
کہتے ہیں زندگی میں مری کچھ کمی نہیں
ان تک ابھی تمہارا حوالہ نہیں گیا
یہ کچھ واضح نہیں لگ رہا۔
تجھ کو جھلک دکھا کے گئے، عمر ہو گئی
آنکھوں سے تیرے نور کا ہالہ نہیں گیا
واہ جی واہ۔
ہم تو بیان کرتے ہیں اپنی ہی سر گزشت
ہم سے کسی کا درد اچھالا نہیں گیا
یہ بھی خوب۔
معلوم تھا یہ قرض بھی جائے گا رائیگاں
مانگا تھا اس ادا سے کہ ٹالا نہیں گیا
مبہم سا لگ رہا ہے ۔"یہ قرض " سے مراد کونسا قرض ہے ۔
 
Top