غزل برائے اصلاح و تنقید ۔ دیوانِ میر کہہ رہا تھا خوش لسان سے

مبشر ڈاہر

محفلین
دیوانِ ؔمیر کہہ رہا تھا خوش لسان سے
اردو کے فیض دیدنی ہیں قدر دان سے

کشمیری النسب ہوں میں اقبال کی طرح
اردو کی لو لگی ہے مجھے خاندان سے

کتنے الگ مزاج ہیں کانٹوں سے پھول کے
شجرے ہیں نکلے دونوں کےاک خاندان سے

سوبرس خاک چھان لو سو صدیاں کھوج لو
منزل ہے کس نے پائی رہِ بے نشان سے?

مقصود گر ہے انتہا یکجائی کی تمہیں
پھر عشق بھی نکال دے تو درمیان سے

ہم ساتھ جینے مرنے کی قسمیں نبھائیں گے
اب جینا مرنا ہم کریں گے آن بان سے

انکاری ایک شب کو تھا سورج طلوع سے
اس کو نکلنا پڑ گیا پھر اک اذان سے
 
Top