غزل برائے اصلاح :- وہیں دریا کے پانی میں لگی تھی آگ

سر الف عین و دیگر اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے۔
افاعیل
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

ہماری زندگانی میں لگی تھی آگ
عمارت اس پرانی میں لگی تھی آگ

بڑھاپے ہی کے بارے سوچتا تھا میں
سلگتے اس جوانی میں لگی تھی آگ

یہ چولہے میں ہمارے جل رہے تھے خط
محبت کی نشانی میں لگی تھی آگ

مرے پہلو میں آ کر چاند بیٹھا تھا
وہیں دریا کے پانی میں لگی تھی آگ

تمہارے پیار کو تو آگ لگ جائے
اسی سے جسمِ فانی میں لگی تھی آگ

کہ تنکا تنکا میرا جل گیا تھا گھر
اسے اک بدگمانی میں لگی تھی آگ

لگا ڈالی دلوں میں آگ سی میں نے
جو لفظوں کی روانی میں لگی تھی آگ

محبت کا تو پورا جل گیا تھا جسم
کسی کی بےدھیانی میں لگی تھی آگ

کہیں عمران میں تھا اس کہانی میں؟
تمہاری جس کہانی میں لگی تھی آگ
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ہماری زندگانی میں لگی تھی آگ
عمارت اس پرانی میں لگی تھی آگ
***مطلع میں کوئی خاص بات نظر نہیں آ رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ صرف دو مصرعے جوڑ دئے گئے ہیں۔ اگر کوئی مطلب ہے تو شاید میں اس تک پہنچ نہیں پایا۔

بڑھاپے ہی کے بارے سوچتا تھا میں
سلگتے اس جوانی میں لگی تھی آگ
***'بارے میں' سوچنا زیادہ فصیح ہو گا۔ اور 'سلگتے' یا 'سلگتی' جوانی؟

یہ چولہے میں ہمارے جل رہے تھے خط
محبت کی نشانی میں لگی تھی آگ
***'یہ' ایسا لگ رہا ہے جیسے بھرتی کا ہو۔ یوں کہیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔
کسی چولہے میں اپنے جل رہے تھے خط
محبت کی نشانی کو لگی تھی آگ

مرے پہلو میں آ کر چاند بیٹھا تھا
وہیں دریا کے پانی میں لگی تھی آگ
***درست

تمہارے پیار کو تو آگ لگ جائے
اسی سے جسمِ فانی میں لگی تھی آگ
***یہ شعر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ اس کے علاوہ پہلے مصرع میں'کو' اور 'تو' دونوں کو طویل کھینچا گیا ہے ان دونوں الفاظ میں'و' کا گرا دینا اچھا رہتا ہے۔ اور پہلے مصرع میں 'ہی' کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ جیسے
تمہارے پیار کو تو لگ ہی جائے آگ
مگر 'کو' اور 'تو' کو یہاں بھی طویل ہی باندھا گیا ہے کسی اور طرح سے کہنے کی کوشش کریں۔

کہ تنکا تنکا میرا جل گیا تھا گھر
اسے اک بدگمانی میں لگی تھی آگ
***میرے خیال میں'کہ' سے مصرع یا شعر کا آغاز درست نہیں ہوتا۔

لگا ڈالی دلوں میں آگ سی میں نے
جو لفظوں کی روانی میں لگی تھی آگ
***'لفظوں کی روانی' تھوڑا عجیب لگ رہا ہے۔ دوسرا مصرع کسی اور طرح کہہ کر دیکھیں۔

محبت کا تو پورا جل گیا تھا جسم
کسی کی بےدھیانی میں لگی تھی آگ
***'دھیانی' صرف 'دھانی' تقطیع ہو گا

کہیں عمران میں تھا اس کہانی میں؟
تمہاری جس کہانی میں لگی تھی آگ
***درست
 
ہماری زندگانی میں لگی تھی آگ
عمارت اس پرانی میں لگی تھی آگ
***مطلع میں کوئی خاص بات نظر نہیں آ رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ صرف دو مصرعے جوڑ دئے گئے ہیں۔ اگر کوئی مطلب ہے تو شاید میں اس تک پہنچ نہیں پایا۔

بڑھاپے ہی کے بارے سوچتا تھا میں
سلگتے اس جوانی میں لگی تھی آگ
***'بارے میں' سوچنا زیادہ فصیح ہو گا۔ اور 'سلگتے' یا 'سلگتی' جوانی؟

یہ چولہے میں ہمارے جل رہے تھے خط
محبت کی نشانی میں لگی تھی آگ
***'یہ' ایسا لگ رہا ہے جیسے بھرتی کا ہو۔ یوں کہیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔
کسی چولہے میں اپنے جل رہے تھے خط
محبت کی نشانی کو لگی تھی آگ

مرے پہلو میں آ کر چاند بیٹھا تھا
وہیں دریا کے پانی میں لگی تھی آگ
***درست

تمہارے پیار کو تو آگ لگ جائے
اسی سے جسمِ فانی میں لگی تھی آگ
***یہ شعر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ اس کے علاوہ پہلے مصرع میں'کو' اور 'تو' دونوں کو طویل کھینچا گیا ہے ان دونوں الفاظ میں'و' کا گرا دینا اچھا رہتا ہے۔ اور پہلے مصرع میں 'ہی' کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ جیسے
تمہارے پیار کو تو لگ ہی جائے آگ
مگر 'کو' اور 'تو' کو یہاں بھی طویل ہی باندھا گیا ہے کسی اور طرح سے کہنے کی کوشش کریں۔

کہ تنکا تنکا میرا جل گیا تھا گھر
اسے اک بدگمانی میں لگی تھی آگ
***میرے خیال میں'کہ' سے مصرع یا شعر کا آغاز درست نہیں ہوتا۔

لگا ڈالی دلوں میں آگ سی میں نے
جو لفظوں کی روانی میں لگی تھی آگ
***'لفظوں کی روانی' تھوڑا عجیب لگ رہا ہے۔ دوسرا مصرع کسی اور طرح کہہ کر دیکھیں۔

محبت کا تو پورا جل گیا تھا جسم
کسی کی بےدھیانی میں لگی تھی آگ
***'دھیانی' صرف 'دھانی' تقطیع ہو گا

کہیں عمران میں تھا اس کہانی میں؟
تمہاری جس کہانی میں لگی تھی آگ
***درست
بہت شکریہ سر۔۔۔
نعمان امام نے اس شعر میں بےدھیانی کو فاعلاتن کے وزن میں باندھا ہے۔ میں نے بھی انہی کی پیروی کی ہے۔
عکس آنکھوں میں بے دھیانی کا تھا

یا سبب دل کی بد گمانی کا تھا
ظفر اقبال نے بھی اپنے اس شعر میں بے دھیانی کا وزن مندرجہ بالا طریقے سے کیا ہے۔
تم اپنی مستی میں آن ٹکرائے مجھ سے یک دم

ادھر سے میں بھی تو بے دھیانی میں جا رہا تھا
باقی اشعار کو مزید بہتر کرنے کی کوشش کرنا ہے۔
 
آخری تدوین:
ہماری زندگانی میں لگی تھی آگ
عمارت اس پرانی میں لگی تھی آگ
***مطلع میں کوئی خاص بات نظر نہیں آ رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ صرف دو مصرعے جوڑ دئے گئے ہیں۔ اگر کوئی مطلب ہے تو شاید میں اس تک پہنچ نہیں پایا۔

بڑھاپے ہی کے بارے سوچتا تھا میں
سلگتے اس جوانی میں لگی تھی آگ
***'بارے میں' سوچنا زیادہ فصیح ہو گا۔ اور 'سلگتے' یا 'سلگتی' جوانی؟

یہ چولہے میں ہمارے جل رہے تھے خط
محبت کی نشانی میں لگی تھی آگ
***'یہ' ایسا لگ رہا ہے جیسے بھرتی کا ہو۔ یوں کہیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔
کسی چولہے میں اپنے جل رہے تھے خط
محبت کی نشانی کو لگی تھی آگ

مرے پہلو میں آ کر چاند بیٹھا تھا
وہیں دریا کے پانی میں لگی تھی آگ
***درست

تمہارے پیار کو تو آگ لگ جائے
اسی سے جسمِ فانی میں لگی تھی آگ
***یہ شعر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ اس کے علاوہ پہلے مصرع میں'کو' اور 'تو' دونوں کو طویل کھینچا گیا ہے ان دونوں الفاظ میں'و' کا گرا دینا اچھا رہتا ہے۔ اور پہلے مصرع میں 'ہی' کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ جیسے
تمہارے پیار کو تو لگ ہی جائے آگ
مگر 'کو' اور 'تو' کو یہاں بھی طویل ہی باندھا گیا ہے کسی اور طرح سے کہنے کی کوشش کریں۔

کہ تنکا تنکا میرا جل گیا تھا گھر
اسے اک بدگمانی میں لگی تھی آگ
***میرے خیال میں'کہ' سے مصرع یا شعر کا آغاز درست نہیں ہوتا۔

لگا ڈالی دلوں میں آگ سی میں نے
جو لفظوں کی روانی میں لگی تھی آگ
***'لفظوں کی روانی' تھوڑا عجیب لگ رہا ہے۔ دوسرا مصرع کسی اور طرح کہہ کر دیکھیں۔

محبت کا تو پورا جل گیا تھا جسم
کسی کی بےدھیانی میں لگی تھی آگ
***'دھیانی' صرف 'دھانی' تقطیع ہو گا

کہیں عمران میں تھا اس کہانی میں؟
تمہاری جس کہانی میں لگی تھی آگ
***درست
سر عظیم کچھ ممکنہ ان اشعار میں تبدیلیاں کی ہیں۔ نظر ثانی فرمائیے۔ شکریہ

ہماری زندگانی میں لگی تھی آگ
کسی کی بد گمانی میں لگی تھی آگ

کسی لڑکی نے جل کر خودکشی کی تھی
عمارت اس پرانی میں لگی تھی آگ

مرے پہلو میں آ کر چاند بیٹھا تھا
وہیں دریا کے پانی میں لگی تھی آگ

جو تنکا تنکا میرا جل گیا تھا گھر
اسے اک بدگمانی میں لگی تھی آگ

محبت کا تو پورا جل گیا تھا جسم
کسی کی بےدھیانی میں لگی تھی آگ

کہیں عمران میں تھا اس کہانی میں؟
تمہاری جس کہانی میں لگی تھی آگ
 

الف عین

لائبریرین
محض دھیان کو تو ہندی کی طرح ہی 'دان' باندھنا چاہئے، لیکن بے دھیانی بذات خود غلط لفظ ہے لیکن غلط العوام اور عام ہے۔ (بے۔ فارسی، دھیان۔ہندی) اس لیے بے دھیانی کی اجازت ہو سکتی ہے۔
اب بہتر ہو گئی ہے غزل۔ لیکن 'اس پرانی عمارت' کو 'عمارت اس پرانی' کہنا بھی درست نہیں۔
 
محض دھیان کو تو ہندی کی طرح ہی 'دان' باندھنا چاہئے، لیکن بے دھیانی بذات خود غلط لفظ ہے لیکن غلط العوام اور عام ہے۔ (بے۔ فارسی، دھیان۔ہندی) اس لیے بے دھیانی کی اجازت ہو سکتی ہے۔
اب بہتر ہو گئی ہے غزل۔ لیکن 'اس پرانی عمارت' کو 'عمارت اس پرانی' کہنا بھی درست نہیں۔
بہت شکریہ سر الف عین
'عمارت اس پرانی ' قافیہ کی قید ہے کیا کیا جائے۔
مزید ایک دو اشعار کہنا چاہتا ہوں جلد پوسٹ کروں گا۔
 
سر الف عین نئے شعر کہے ہیں۔

ابھی تک جو سلگتا ہوں محبت میں
مجھے بھی نوجوانی میں لگی تھی آگ
یا (مجھے کچی جوانی میں لگی تھی آگ)

لگا ڈالی دلوں میں آگ سی میں نے
جو میری خوش بیانی میں لگی تھی آگ
 

الف عین

لائبریرین
کچی جوانی والا شعر بہتر ہے۔ 'بھی' کے غیر ضروری لفظ سے اس طرح بچا جا سکتا ہے۔
خوش بیانی 'سے' یا 'میں' آگ لگنا درست ہے؟
 
Top