غزل برائے اصلاح ( فعولن فعولن فعولن فعولن)

نوید ناظم

محفلین
دیا آخری بھی بجھا کر گئی ہے
ہوا دیکھ لو اب یہ کیا کر گئی ہے

کہاں جا کے ڈھونڈیں ہم اس زندگی کو
سنو کیا کسی کو بتا کر گئی ہے؟

ملی ہے جو اک لاش یوں دن نکلتے
شبِ ہجر بھی حق ادا کر گئی ہے

مرے گھر بھی آئی تھی کل یہ اداسی
لو پھر کیا مجھے بھی رُلا کر گئی ہے

ستم گر کو میں نے ستم گر کہا تھا
یہی بات اس کو خفا کر گئی ہے

ترے وصل کی ایک حسرت تھی دل میں
مگر وہ بھی خوں میں نہا کر گئی ہے

یہ غم ہے جو آ کے مرے پاس بیٹھا
خوشی مجھ سے نظریں چرا کر گئی ہے

ہَوا اُس سے سرگوشیاں اب کرے گی
یہ ہونٹوں میں باتیں دبا کر گئی ہے

نوید آ کے سورج نگلنے لگی تھی
یہ تاریک شب انتہا کر گئی ہے
 

الف عین

لائبریرین
باقی اشعار درست ہیں۔
ملی ہے جو اک لاش یوں دن نکلتے
شبِ ہجر بھی حق ادا کر گئی ہے
۔۔ یہ سمجھ میں نہیں آیا۔

مرے گھر بھی آئی تھی کل یہ اداسی
لو پھر کیا مجھے بھی رُلا کر گئی ہے
۔۔۔مزید روانی چاہتا ہے۔
 

نوید ناظم

محفلین
باقی اشعار درست ہیں۔
ملی ہے جو اک لاش یوں دن نکلتے
شبِ ہجر بھی حق ادا کر گئی ہے
۔۔ یہ سمجھ میں نہیں آیا۔
سر ہجر کی شب ہو اور بندہ بچ جائے تو مطلب شبِ ہجر نے اپنا کام ادھورا چھوڑا۔۔۔ اس شعر میں شاعر نے یہ کہنا چاہا کہ جو صبح صبح ہم ایک لاش دکھ رہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ شبِ ہجر نے اپنا حق ادا کر دیا ہے ( اسے قتل کر کے)۔

مرے گھر بھی آئی تھی کل یہ اداسی
لو پھر کیا مجھے بھی رُلا کر گئی ہے
۔۔۔مزید روانی چاہتا ہے۔
اسے یوں کر دیا ہے' دیکھیے گا۔۔۔

اداسی مرے گھر بھی آئی تھی یارو
لو پھر کیا مجھے بھی رُلا کر گئی ہے
 

الف عین

لائبریرین
اسے یوں کر دیا ہے' دیکھیے گا۔۔۔

اداسی مرے گھر بھی آئی تھی یارو
لو پھر کیا مجھے بھی رُلا کر گئی ہے
دوسرا مصرع ابھی بھی رواں نہیں، ’کیا‘ کے بغیر کوشش کرو
مجھے آج پھر سے رلا کر۔۔۔
یا
مجھے آج کیسا رلا کر ۔۔۔۔
 

نوید ناظم

محفلین
تاہم اس صورت یہ علم نہیں کی ' پھر' کی 'ر' لازمی طور پر الف میں شامل ہو کر اسے وزن سے باہر کر دے گی یا پھر ایسی صورت میں یہ اختیار شاعر کے پاس ہوتا ہے کہ چاہے توایسے الفاظ الف میں شامل کرے چاہے تو نہ کرے؟
سر الف عین
 

الف عین

لائبریرین
تاہم اس صورت یہ علم نہیں کی ' پھر' کی 'ر' لازمی طور پر الف میں شامل ہو کر اسے وزن سے باہر کر دے گی یا پھر ایسی صورت میں یہ اختیار شاعر کے پاس ہوتا ہے کہ چاہے توایسے الفاظ الف میں شامل کرے چاہے تو نہ کرے؟
سر الف عین
’ر‘ الف میں شامل نہیں ہو رہی، دونوں الگ الگ آواز دے رہے ہیں اور تقطیع ہو رہے ہیں۔ اگر الف کا اسقاط ہوتا بھی تو درست تھا۔
 
بہت ہی عمدہ، نوید بھائی۔ ما شاء اللہ!
نوید آ کے سورج نگلنے لگی تھی
یہ تاریک شب انتہا کر گئی ہے
یہ شعر سمجھ میں نہیں آیا۔ اگر مراد یہ ہے کہ شب آ کر سورج کو نگلنے لگی تھی تو شعر بے معنیٰ ہے۔ لگی تھی سے گمان ہوتا ہے کہ شاید ایسا نہ ہوا ہو۔ مگر شب تو سورج کو نگل ہی جاتی ہے۔ پھر لگی تھی کا ٹکڑا چہ معنیٰ دارد؟
آ کے کا ٹکڑا بھی حشو ہے۔ یعنی اس کی ضرورت شعر میں نہیں۔ وزن پورا کرنے کے لیے ڈالا گیا ہے۔
باقی غزل کے کیا ہی کہنے!
تاہم اس صورت یہ علم نہیں کی ' پھر' کی 'ر' لازمی طور پر الف میں شامل ہو کر اسے وزن سے باہر کر دے گی یا پھر ایسی صورت میں یہ اختیار شاعر کے پاس ہوتا ہے کہ چاہے توایسے الفاظ الف میں شامل کرے چاہے تو نہ کرے؟
اختیاری ہے۔
 

نوید ناظم

محفلین
:):):)
یہ شعر سمجھ میں نہیں آیا۔ اگر مراد یہ ہے کہ شب آ کر سورج کو نگلنے لگی تھی تو شعر بے معنیٰ ہے۔ لگی تھی سے گمان ہوتا ہے کہ شاید ایسا نہ ہوا ہو۔ مگر شب تو سورج کو نگل ہی جاتی ہے۔ پھر لگی تھی کا ٹکڑا چہ معنیٰ دارد؟
راحیل بھائی ہم تو اسے سورج نہیں مانتے جسے شب نگل جائے۔۔۔ سورج کو حق اور تاریک شب کو باطل کہہ لیں تو پھر بات کچھ ایسے ہو گی جس کا مفہوم یہ ہے کہ حق آن پہنچا' باطل مٹ گیا' بے شک باطل مٹنے کے لیے ہے۔ ویسے سورج اور تاریک شب کے استعاروں کی کئی جہتیں ہو سکتی ہیں اب ممکن ہے کہ کچھ احباب انھیں قبول کر لیں اور کچھ رد کر دیں۔۔۔راحیل بھائی دل بھی تو سورج کی مانند ہوتا ہے اور 'خواہش' تاریک شب کی طرح ہے اور 'خواہش' ہمشہ دل پر حملہ آور ہوتی ہے مگر ایسا نہیں کہ یہ ہر بار اس سورج کو نگل ہی جائے بلکہ کئی خوش نصیب ہم نے دیکھے کہ جن کے پاس 'خواہش' کا منہ زور گھوڑا آیا اور ان لوگوں نے اسے سدھا کراپنی سواری کے لیے اپنے پاس رکھ لیا۔ درخواست ہو گی کہ یہاں پر آپ شاعر کو رعایت دیں تا کہ یہ بھی آپ کے اس احسان کے مزے لوٹے :)
 

فاخر رضا

محفلین
دیا آخری بھی بجھا کر گئی ہے
ہوا دیکھ لو اب یہ کیا کر گئی ہے

کہاں جا کے ڈھونڈیں ہم اس زندگی کو
سنو کیا کسی کو بتا کر گئی ہے؟

ملی ہے جو اک لاش یوں دن نکلتے
شبِ ہجر بھی حق ادا کر گئی ہے

مرے گھر بھی آئی تھی کل یہ اداسی
لو پھر کیا مجھے بھی رُلا کر گئی ہے

ستم گر کو میں نے ستم گر کہا تھا
یہی بات اس کو خفا کر گئی ہے

ترے وصل کی ایک حسرت تھی دل میں
مگر وہ بھی خوں میں نہا کر گئی ہے

یہ غم ہے جو آ کے مرے پاس بیٹھا
خوشی مجھ سے نظریں چرا کر گئی ہے

ہَوا اُس سے سرگوشیاں اب کرے گی
یہ ہونٹوں میں باتیں دبا کر گئی ہے

نوید آ کے سورج نگلنے لگی تھی
یہ تاریک شب انتہا کر گئی ہے
آپ بہت اچھا لکھتے ہیں جس کے گواہ اساتذہ کے کمنٹس ہیں. کہاں جائے ڈھونڈیں.... بہت اچھا شعر ہے
 
Top