غزل برائے اصلاح "فاعلاتن فاعلاتن فاعلن"

چھوڑ سب ہی دھیان تُو بھی عشق کر
بات لے دل مان تُو بھی عشق کر

جسم کی ضد ہے تو بس کارِ ہوس
روح کی لے مان تُو بھی عشق کر

میں بھی تجھ سے کرتا ہوں تو بھی تو کر
رب کا ہے فرمان تُو بھی عشق کر

چھوڑ دے واعظ جنت دوزخ کو اب
سن لے اے نادان تُو بھی عشق کر

اُس خدا کی ذات بھی مل جائے گی
پہلے میری جان تُو بھی عشق کر

ذات تیری ہے اسی میں پوشدہ
خود کو لے پہچان ،تُو بھی عشق کر

مجنوں کی باتیں بہت ہو چکی ہیں
اب تو اے فرحان تُو بھی عشق کر
سر الف عین
 

الف عین

لائبریرین
چھوڑ سب ہی دھیان تُو بھی عشق کر
بات لے دل مان تُو بھی عشق کر
÷÷اظہار بیان پسند نہیں آیا، وزن درست ہے۔

جسم کی ضد ہے تو بس کارِ ہوس
روح کی لے مان تُو بھی عشق کر
÷÷ تو بس کارِ ہوس‘ سے بات سمجھ میں نہیں آتی
یوں ہو تو
جزم کی ضد ہے ہوس میں ڈوب جا
ایک متبادل

میں بھی تجھ سے کرتا ہوں تو بھی تو کر
رب کا ہے فرمان تُو بھی عشق کر
÷÷کرتا ہوں‘ صوتی طور پر ناگوار تاثر دیتا ہے۔
یوں کیسا رہے گا
میں تو کرتا ہی ہوں، تو بھی کر کے دیکھ

چھوڑ دے واعظ جنت دوزخ کو اب
سن لے اے نادان تُو بھی عشق کر
۔۔جنت مشدد تقطیع نہیں ہوتا۔ غلط باندھا گیا ہے۔ محج یوں کر دو
چھوڑ دے جنت کی باتیں واعظا

اُس خدا کی ذات بھی مل جائے گی
پہلے میری جان تُو بھی عشق کر
۔۔ واضح نہیں ہوا۔

ذات تیری ہے اسی میں پوشدہ
خود کو لے پہچان ،تُو بھی عشق کر
۔۔پوشدہ؟
یہ صاف سا مصرع تم کو کیوں نہیں سوجھا
ذات ہوشیدہ اسی میں ہے تری

مجنوں کی باتیں بہت ہو چکی ہیں
اب تو اے فرحان تُو بھی عشق کر
۔۔پہلا مصرع خارج از بحر
 
چھوڑ سب ہی دھیان تُو بھی عشق کر
بات لے دل مان تُو بھی عشق کر
÷÷اظہار بیان پسند نہیں آیا، وزن درست ہے۔

جسم کی ضد ہے تو بس کارِ ہوس
روح کی لے مان تُو بھی عشق کر
÷÷ تو بس کارِ ہوس‘ سے بات سمجھ میں نہیں آتی
یوں ہو تو
جزم کی ضد ہے ہوس میں ڈوب جا
ایک متبادل

میں بھی تجھ سے کرتا ہوں تو بھی تو کر
رب کا ہے فرمان تُو بھی عشق کر
÷÷کرتا ہوں‘ صوتی طور پر ناگوار تاثر دیتا ہے۔
یوں کیسا رہے گا
میں تو کرتا ہی ہوں، تو بھی کر کے دیکھ

چھوڑ دے واعظ جنت دوزخ کو اب
سن لے اے نادان تُو بھی عشق کر
۔۔جنت مشدد تقطیع نہیں ہوتا۔ غلط باندھا گیا ہے۔ محج یوں کر دو
چھوڑ دے جنت کی باتیں واعظا

اُس خدا کی ذات بھی مل جائے گی
پہلے میری جان تُو بھی عشق کر
۔۔ واضح نہیں ہوا۔

ذات تیری ہے اسی میں پوشدہ
خود کو لے پہچان ،تُو بھی عشق کر
۔۔پوشدہ؟
یہ صاف سا مصرع تم کو کیوں نہیں سوجھا
ذات ہوشیدہ اسی میں ہے تری

مجنوں کی باتیں بہت ہو چکی ہیں
اب تو اے فرحان تُو بھی عشق کر
۔۔پہلا مصرع خارج از بحر
شکریہ سر آپ نے وقت دیا باقی میں تبدیلیاں کرنے کی کوشش کرتا ہوں
 
چھوڑ سب ہی دھیان تُو بھی عشق کر
بات لے دل مان تُو بھی عشق کر
÷÷اظہار بیان پسند نہیں آیا، وزن درست ہے۔
سر اگر اس کو یوں کر لیا جائے تو
چھوڑ ہر اک دھیان تُو بھی عشق کر
بات میری مان تُو بھی عشق کر
یا
بات دل کی مان تُو بھی عشق کر

جزم کی ضد ہے ہوس میں ڈوب جا
خوبصورت مصرعہ عطا ہو گیا

میں تو کرتا ہی ہوں، تو بھی کر کے دیکھ
سر بہت ہی خوب مصرعہ عطا کیا ہے

۔۔جنت مشدد تقطیع نہیں ہوتا۔ غلط باندھا گیا ہے۔ محج یوں کر دو

علمی کمزوری کی وجہ سے ہوا
ذات ہوشیدہ اسی میں ہے تری
دماغ میں نہ آ سکا

مجنوں کی باتیں بہت ہو چکی ہیں
۔۔پہلا مصرع خارج از بحر

اگر یوں کر لیا جائے تو سر
میں ھوں تیرے اندرونے کی صدا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
میری ٹائپو
ذات پوشیدہ۔۔۔

چھوڑ ہر اک دھیان تُو بھی عشق کر
بات میری مان تُو بھی عشق کر
بہتر ہے
 
Top