غزل برائے اصلاح شاعر یوسف جمیل یوسف

md waliullah qasmi

محفلین
السلام علیکم
اساتذہ حضرات برائے مہربانی اس غزل کی اصلاح فرما دیں عین کرن ہوگا


روشنی کے گهر میں لالے پڑ گئے
جب چراغ آندھی کے پالے پڑگئے
کیا پتہ کیا بزم میں اس نے کہا
سوچ میں سب سننے والے پڑ گئے
کهانالے کے آئی ماں تو یوں لگا
خود بخود منہ میں نوالے پڑ گئے
جن میں بکتی تهیں دوائیں درد کی
ان دکانوں میں بھی تالے پڑ گئے
جگنوؤں سے گهر تھا روشن اس قدر
حیرتوں میں خود اجالے پڑ گئے
شاخ پر تهے مختلف رنگوں کے پهول
وقت بدلا تو وہ کالے پڑ گئے
انکے چہرے پر بهی آئیں جهریاں
میری آنکھوں میں بھی جالے پڑ گئے
کس قدر نازک تھے یوسف اسکے پاؤں
دو قدم چلنے میں چھالے پڑ گئے
 

ابن رضا

لائبریرین
اچھے اشعار ہیں ۔ کچھ میں ردوبدل کی ضرورت ہے جیسا کہ

روشنی کے گهر میں لالے پڑ گئے
جب چراغ آندھی کے پالے پڑگئے
روشنی کے گھر میں ڈاکے پڑ گئے پہلا مصرع پڑھ کے کچھ یوں گمان ہوتا ہے روشنی کوئی خاتون ہے
دوسرا مصرع سمجھ نہیں آیا



کیا پتہ کیا بزم میں اس نے کہا
سوچ میں سب سننے والے پڑ گئے

پتا

کهانا لے کے آئی ماں تو یوں لگا
خود بخود منہ میں نوالے پڑ گئے
ٹھیک ہے

جن میں بکتی تهیں دوائیں درد کی
ان دکانوں میں بھی تالے پڑ گئے
دکانوں پر

جگنوؤں سے گهر تھا روشن اس قدر
حیرتوں میں خود اجالے پڑ گئے
درست

شاخ پر تهے مختلف رنگوں کے پهول
وقت بدلا تو وہ کالے پڑ گئے
ایک شاخ پر مختلف رنگوں کے پھول کیسے ہو سکتے ہیں؟ پھول کالے نہیں پڑتے مرجھاتے ہیں۔ سوکھتے ہیں

انکے چہرے پر بهی آئیں جهریاں
میری آنکھوں میں بھی جالے پڑ گئے
آئیں کی جگہ آ گئیں ہونا چاہیے
ان کے چہرے پر بھی جھریاں آگئیں کرلیں

کس قدر نازک تھے یوسف اسکے پاؤں
دو قدم چلنے میں چھالے پڑ گئے
کس کی جگہ اس کردیں پاوں غلط باندھاہے۔ پچھلے شعر میں ان کے سے تکلم کیا اس میں اس کے سے؟
 
آخری تدوین:
بہت اچھے یوسف صاحب
کیا پتہ کیا بزم میں اس نے کہا
سوچ میں سب سننے والے پڑ گئے
جگنوؤں سے گهر تھا روشن اس قدر
حیرتوں میں خود اجالے پڑ گئے
 

الف عین

لائبریرین
ابن رضا نے مجھ سے زیادہ ہی شدید رویہ اپنایا ہے اعتراضات میں۔
دوکانوں میں تالا لگانا درست ہے، دوکانوں پر تو کم از کم میں نے نہیں سنا۔ شاید پبجابی میں محاورہ ہو جو پاکستان میں زیادہ عام ہو۔
شاخ کی جگہ باغ کہا جا سکتا ہے۔ ایک شاخ پر تو رنگ برنگے پھول عام نہیں، لیکن نا ممکن بھی نہیں۔ ’کالے‘ پڑنا محاورے کے خلاف ہے لیکن قافئے کا کیا کیا جائے؟
 

ابن رضا

لائبریرین
ابن رضا نے مجھ سے زیادہ ہی شدید رویہ اپنایا ہے اعتراضات میں۔
دوکانوں میں تالا لگانا درست ہے، دوکانوں پر تو کم از کم میں نے نہیں سنا۔ شاید پبجابی میں محاورہ ہو جو پاکستان میں زیادہ عام ہو۔
شاخ کی جگہ باغ کہا جا سکتا ہے۔ ایک شاخ پر تو رنگ برنگے پھول عام نہیں، لیکن نا ممکن بھی نہیں۔ ’کالے‘ پڑنا محاورے کے خلاف ہے لیکن قافئے کا کیا کیا جائے؟
سر اسی طرح سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے کچھ غلط بولیں گے تو درست سیکھنے کو ملے گا۔ :)
 

اکمل زیدی

محفلین
سر اسی طرح سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے کچھ غلط بولیں گے تو درست سیکھنے کو ملے گا۔ :)
رضا بھائی ایک بات یادآگائی آپ کے اس جملے سے ..سوچا برمحل تذکرہ کردوں....ہمارے ایک دوست نے ایک عام بول چال والا ایک جملہ کہا کے "بھئی اب کیا کریں غلطی ہوگئی اب آخر انسان ہوں ٹھہرا جو غلطی کا پتلا " میں نے صرف یہ جواب دیا تھا آپ نے غلطی کر کے اپنے آپ کو انسان ثابت کرنے کی کوشش تو نہیں کی ...حالاں کے اس کے اور بھی طریقے ہیں ...:D
 

الف عین

لائبریرین
ریاں تقطیع کرنا پڑے گا، جو غلط ہے۔ایک بات اور
انکے چہرے پر بهی آئیں جهریاں
میری آنکھوں میں بھی جالے پڑ گئے
ماضی کے صیغے کی بہتر صورت تو ابن رضا نے بتا دی ہے۔

’’آئیں کی جگہ آ گئیں ہونا چاہیے
ان کے چہرے پر بھی جھریاں آگئیں کرلیں‘‘

لیکن اس اصلاح میں ’جھریاں کا تلفظ بگڑ جاتا ہے۔ تشدید نہیں آتی، جھریاں بر وزن چھ
 
Top