غزل برائے اصلاح۔

ایم اے راجا

محفلین
دشتِ دل میں تماشہ کیسا ہے
شور و غل بے تحاشہ کیسا ہے

شہرِ یزداں میں چشمِ دل تونے
عشق جاں کن تلاشہ کیسا ہے

ذہنِ ویراں نے خوابِ تشنہ میں
حسنِ جاناں تراشہ، کیسا ہے؟

کسکی آمد ہے صحنِ گلشن میں
گل پہ طاری یہ رعشہ کیسا ہے

ضربِ غم گر نہیں لگی راجا
درد پھر بے تحاشہ کیسا ہے​
 

الف عین

لائبریرین
دشتِ دل میں تماشہ کیسا ہے
شور و غل بے تحاشہ کیسا ہے
۔۔ درست، لیکن قوافی میں چھوٹی ہ کے الفاظ ہیں اور ہ گر رہی ہے۔ درست ہے لیکن میں محض یوں لکھ رہا ہے کہ ہر مصرع میں اس کا لزوم ہونا تھا، جو نہیں ہوا ہے۔

شہرِ یزداں میں چشمِ دل تونے
عشق جاں کن تلاشہ کیسا ہے
شہرِ یزداں‘ سے کیا مطلب ہے،
دوسرا مصرع سمجھ میں نہیں آیا، ’تلاشہ‘ کوئی لفظ نہیں ہوتا، ’تلاشا‘ ہو سکتا ہے (اگرچہ ثقہ لوگ اس کو بھی درست نہیں مانتے)۔ لیکن قافیہ میں الف کو ہ سے بدلنا درست نہیں۔(کچھ الفاظ میں ہ کو الف سے بدلا جا سکتا ہے جو الفاظ دونوں املا میں مستعمل ہوں، صرف ان کو، لیکن الف کو ہ میں نہیں)

ذہنِ ویراں نے خوابِ تشنہ میں
حسنِ جاناں تراشہ، کیسا ہے؟
۔۔۔۔ خوابِ تشنہ؟ اور دوسرا مصرع سمجھ میں نہیں آیا۔ ’تراشہ‘، ہ پر ختم ہونے والا اسم ہوتا ہے، یعنی تراشنے کے بعد اس کے نتیجے میں برامد ہونے والی چیز۔ بطور فعل ’تراشا‘ ہونا چاہئے۔ اس میں الف کو ہ سے نہیں بدلا جا سکتا۔

کسکی آمد ہے صحنِ گلشن میں
گل پہ طاری رعشہ کیسا ہے
دوسرا مصرع وزن میں نہیں آتا، نہ معلوم تم ’رعشہ" کی کس طرح تقطیع کر رہے ہو۔ شاید ’رعاشہ‘ جو غلط ہے، الف کی جگہ کچھ لوگ ع استعمال ضرور کر لیتے ہیں، ایسے صوتی قوافی مجھے بھی قبول ہیں۔ اس صورت میں ’یہ‘ کا اضافہپ کیا جا سکتا ہے جو اگرچہ بھرتی کا ہے۔ یعنی گل پہ طاری یہ رعشہ کیسا ہے۔

ضربِ غم گر نہیں لگی راجا
درد پھر بے تحاشہ کیسا ہے
۔۔ درست، بے تحاشہ کا یہ استعمال مجھے قبول ہے۔ کہ عوام میں اس کو کئی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
کسکی آمد ہے صحنِ گلشن میں
گل پہ طاری رعشہ کیسا ہے

جی استادِ محترم بہت شکریہ، میں یہاں یہ ٹائپ کرنا بھول گیا تھا،
کیا تلاشا، تراشا وغیرہ کو تراشہ، تلاشہ لکھنا بالکل بھی جائز نہیں حالانکہ کافی جگہ پر میں نے پڑھا ہے، اور اگر یہ لفظ الف کے ساتھ یعنی تلاشا، تراشا استعمال کروں تو الف گرا نا کیا یہاں جائز نہ ہوں گے۔

باقی شہرِ یزداں، سے مراد پتھر کا شہر ہے۔
محترم وارث صاحب، محترم آسی صاحب اور محترم محمود مغل صاحب سے بھی درخواست ہے۔ شکریہ۔
 

فاتح

لائبریرین
عمدہ اشعار ہیں راجا صاحب۔ اعجاز صاحب کی آرا صائب ہیں۔
اسم "تلاش" سے "تلاشنا" کا مصدر گو کئی لوگ بناتے ہیں لیکن میرے خیال میں یہ بہرحال غلط ہے۔
مصدر "تراشنا" کا فعل ماضی "تراشا" ہی لکھا جائے گا، ہاں اگر مراد وہ شے ہے جو تراشنے پر نکلے تو اسے "تراشہ" کہا جائے گا مثلاً پنسل کا برادہ یا تراشہ، کسی اخبار کی کٹنگ یا تراشہ، وغیرہ
"یزداں" کا مطلب "خدا" یا "اللہ" ہے نہ کہ پتھر کے بت لہٰذا شہرِ یزداں سے ایک ہی مفہوم ذہن میں آتا ہے اور وہ ہے "اللہ کا شہر"۔
"کس کی آمد ہے صحنِ گلشن میں" کے مصرع میں توارد ہوا ہے آپ سے کہ بعینہ یہی مصرع ہم نے بھی اپنی ایک غزل میں باندھا تھا۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت بہت شکریہ فاتح صاحب۔
میں کچھ سوالات کرنے کی جسارت کروں گا تا کہ میرے علم میں اضافہ ہو سکے۔
کیا یہاں اس مصرعہ میں تلاشا کا محل نہیں آتا؟
کیا یہاں اس مصرعہ میں تراشہ کا استعمال درست نہیں؟

رہی بات مصرعہ، کس کی آمد ہے صحنِ گلشن میں، یقین کریں اس مّصرعہ کی حامل آپ کی غزل میری نظر سے کبھی بھی نہیں گذری، یہ محض ایک اتفاق ہے، اگر یہ اتفاق جائز نہیں تو میں اس مصرعہ کو تبدیل کر دوں گا۔ اور آپ سے مذکورہ غزل کا لنک دعطا فرمانے کی بھی گزارش ہے۔
آپکے جوابات کا بڑی بیچینی سے انتظار رہے گا، اور آپکا مفصل جواب بندے کو علم کی نئی راہوں سے روشناس کرے گا۔ شکریہ۔
 

فاتح

لائبریرین
بہت بہت شکریہ فاتح صاحب۔
میں کچھ سوالات کرنے کی جسارت کروں گا تا کہ میرے علم میں اضافہ ہو سکے۔
کیا یہاں اس مصرعہ میں تلاشا کا محل نہیں آتا؟
جناب، ہم نے محل غلط ہونے ککی بات نہیں کی بلکہ لفظ "تلاشا" یا "تلاشنا" کے وجود کو ہی تسلیم نہ کرنے کی بات کی تھی۔ گویا یہاں محل ہے "عشق جاں کن تلاش کیا (یا کھوجا) کیسا ہے"۔
کیا یہاں اس مصرعہ میں تراشہ کا استعمال درست نہیں؟
یہاں صرف املا کی غلطی ہے۔ یعنی "تراشہ" کو "تراشا" لکھ دیجیے۔

رہی بات مصرعہ، کس کی آمد ہے صحنِ گلشن میں، یقین کریں اس مّصرعہ کی حامل آپ کی غزل میری نظر سے کبھی بھی نہیں گذری، یہ محض ایک اتفاق ہے، اگر یہ اتفاق جائز نہیں تو میں اس مصرعہ کو تبدیل کر دوں گا۔ اور آپ سے مذکورہ غزل کا لنک دعطا فرمانے کی بھی گزارش ہے۔
آپکے جوابات کا بڑی بیچینی سے انتظار رہے گا، اور آپکا مفصل جواب بندے کو علم کی نئی راہوں سے روشناس کرے گا۔ شکریہ۔
ارے حضور! ہمیں معلوم ہے کہ یہ ارادتاً نہیں ہوا بلکہ "توارد" ہوا ہے اور توارد کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کبھی پڑھا یا سنا ہوا کوئی شعر یا مصرع لا شعور میں رہ جاتا ہے اور شاعر اسے یہی سمجھ کر لکھتا ہے کہ یہ اس نے خود کہا ہے۔ بالکل یہی معاملہ یہاں ہوا ہے کہ آپ نے خاکسار کی غزل پڑھی اور اس پر داد بھی دی لیکن ذہن سے محو ہو گئی مگر وہ مصرع کہیں لا شعور میں اٹک گیا۔
مجھے یہ گمان قطعاً نہیں گزرا کہ آپ نے معاذ اللہ جان بوجھ کر ایسا کیا ہے۔۔۔ اگر ایسا ہوتا تو میں اسے "توارد" کی بجائے "سرقہ" لکھتا۔:grin:
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ فاتح صاحب، میں نے اب دیکھا ہیکہ واقعی آپکی خوبصورت غزل میں نے پڑھی تھی اور داد بھی دی تھی جو کہ مجے یاد نہ رہا اور یقینن وہ میرے لاشعور میں ہو گا، میں مشکور ہوں کہ آپ نے سرقہ کا لفظ استعمال نہیں کیا، میں اس مصرعہ کو تبدیل کر دیتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
صحنِ دل میں تماشا کیسا ہے
شور و غل بے تحاشہ کیسا ہے

دشتِ کربل میں چشمِ دل تونے
عشق جاں کن تلاشا کیسا ہے

ماتمِ عشق ہے بپا ہر سو
بج رہا پھر یہ طاشا کیسا ہے!

ذہنِ ویراں نے خوابِ تشنہ میں
حسنِ جاناں تراشا، کیسا ہے؟

کون آیا ہے آج گلشن میں
گل پہ طاری یہ رعشہ کیسا ہے

ضربِ غم گر نہیں لگی راجا
دردِ دل بے تحاشہ کیسا ہے

اب ذرا ملاحظہ ہو۔
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ فاتح صاحب، مگر صرف شکریہ ادا کرنے سے کام نہیں چلے گا آپکی رائے بھی درکار ہے جناب، اور استادِ محترم اعجاز عبید صاحب، وارث صاحب، میم میم مغل صاحب اور محترم آسی صاحب آپ سے بھی درخواست برائے اصلاح و رائے عرض ہے۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
وہی دو اشعار اب بھی میری سمجھ سے باہر ہیں۔
دشتِ کربل میں چشمِ دل تونے
عشق جاں کن تلاشا کیسا ہے
اور
ذہنِ ویراں نے خوابِ تشنہ میں
حسنِ جاناں تراشا، کیسا ہے؟
ان کی کچھ وضاحت؟
 

مغزل

محفلین
ماشا اللہ ، بہت خوب راجہ صاحب ، خوب ’’ ٹھونک بجاکر‘‘ کہی گئی غزل پر داد،مصرعوں کی بنت لاجواب ہے اور آپ کے عمومی شعری رویے سے مختلف بھی۔، دیگر تمام گفتگو بابا جانی اور فاتح بھائی کر چکے ہیں میں مکمل متفق ہوں ، ایک بات کہ میری ناقص معلومات کے تحت ’’ یزداں ‘‘ زرتشت تعلیمات یا عقیدے کے مطابق اچھائی ، خیر۔۔یا ۔۔ نیکی کے خدا کو کہتے ہیں اسی طرح دوسرا کردار ’’ اہرمن ‘‘ کا ہے جو برائی پر قدرت رکھنے سے عبارت ہے ۔ بہر حال مذکورہ مصرعے سے مزین شعر کو درست کرنا ہر دوصورتوں میں ضروری ہے ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
 

ایم اے راجا

محفلین
وہی دو اشعار اب بھی میری سمجھ سے باہر ہیں۔
دشتِ کربل میں چشمِ دل تونے
عشق جاں کن تلاشا کیسا ہے
اور
ذہنِ ویراں نے خوابِ تشنہ میں
حسنِ جاناں تراشا، کیسا ہے؟
ان کی کچھ وضاحت؟
استادِ محترم میں نے مذکررہ بالا اشعارہ کو یکسر بدل ڈالا ہے اب ذرا ملاحظہ ہوں۔

دشتِ کربل میں عشقِ یزداں نے
دیکھ سجدہ تلاشا کیسا ہے

ذہنِ ویراں نے دستِ لرزاں سے
اک صنم جو تراشا، کیسا ؟

فاتح صاحب اور مغل صاحب آپ سے بھی تکلیف کرنے کی گزارش ہے۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا شعر تو درست ہے، لیکن پہلا شعر اب بھی "سوال طلب" ہے۔ سجدہ تلاشا نہیں جاتا ، محض کیا جاتا ہے۔
 

جیلانی

محفلین
اگر جو کی جگہ کو لکھیں تو کیا فرق پڑے گا ۔۔۔ معنی کے اعتبار سے
ذہنِ ویراں نے دستِ لرزاں سے
اک صنم جو تراشا، کیسا ؟
 
Top