غزل: ایک معمولی سا انسان ہمارے جیسا (حجازؔ مہدی)

غزل

ایک معمولی سا انسان ہمارے جیسا
کیوں بنا رہتا ہے ہر وقت نظارے جیسا؟

دشت کی دھول میں ہم ڈوبنے والوں کے لیے
تو نے دریا کو بنایا ہے کنارے جیسا

اور اک بار مجھے راہ دکھائی اس نے
وہ مرا یار جو ہے صبح کے تارے جیسا

رنجشوں کے کسی طوفان میں کمزور شجر
ڈھونڈتا ہے کوئی انسان سہارے جیسا

دل کا اچھا ہے مگر وقت کے ہاتھوں مجبور
ہم غریبوں کا خدا بھی ہے ہمارے جیسا

جس کو پڑھنے کی بہت وقت سے خواہش تھی مجھے
کھل گیا مجھ پہ وہ اک شخص سپارے جیسا

حجازؔ مہدی
 
Top