غزل اصلاح کے لئے.... خوش سلیقے سے اگر ان کو نبھاتے جاتے

استاد محترم جناب الف عین سر.۔۔۔ اصلاح کے لئے ایک غزل پیش کر رہا ہوں ۔۔۔۔
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن

خوش سلیقے سے اگر اِن کو نبھاتے جاتے !
رسمی رشتے بھی کوئی شکل تو پاتے جاتے !

حوصلے ضبط کے ایسے بھی رہے داد رسو
آتشِ دل کے مزے لیتے، بجھاتے جاتے !

پھر فلک، دانہءِ گندم وہ میسّر نہ ہوئے !
ورنہ پھر ہنستے ہوئے خلد لٹاتے جاتے !

اس کے لہجہ نے ارادہ مرا زنجیر کیا
روٹھ کے ورنہ جدھر جاتا مناتے جاتے !

تشنہ پیمانِ وفا یاد نہ کر تے اس کے
اپنا بھولا کوئی وعدہ ہی نبھاتے جاتے !

عَہدِ رفتہ سے ہے منسوب ملالِ عمری
کاش ہم کوچہءِ جاناں میں نہ آتے جاتے !

کیا مِلا نوچ کے چہروں سے نقابیں کاشف ؟
رشتہءِ جور و جفا تھا ہی، نبھاتے جاتے !

سیّد کاشف
 
آخری تدوین:

صفی حیدر

محفلین
بہت خوب ۔۔۔ عمدہ تخلیق ہے ۔۔۔ مطلع کے دوسرے مصرعے کو دیکھ لیں ۔۔۔۔ " رسمی " کا وزن فعلن ہے ۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین

خوش سلیقے سے اگر اِن کو نبھاتے جاتے !
رسمی رشتے بھی کوئی شکل تو پاتے جاتے !

÷÷ خوش سلیقے پر بات ہو چکی۔ خوش سلوکی بہتر ہو گا۔ ویسے ۔’خوش‘ بھی ضروری نہیں، کچھ بہتر متبادل سوچو۔
حوصلے ضبط کے ایسے بھی رہے داد رسو
آتشِ دل کے مزے لیتے، بجھاتے جاتے !
’داد رسو‘ ابلاغ میں مسئلہ پیدا کر رہا ہے۔ کیونکہ فاعل بھی موجود نہیں۔ اس کو بدلا جائے۔

پھر فلک، دانہءِ گندم وہ میسّر نہ ہوئے !
ورنہ پھر ہنستے ہوئے خلد لٹاتے جاتے !
دوسرے مصرع میں پھر کی تکرار اچھی نہیں لگ رہی۔ یہاں بھی فاعل ’ہم‘ کی کمی ہے۔

اس کے لہجہ نے ارادہ مرا زنجیر کیا
روٹھ کے ورنہ جدھر جاتا مناتے جاتے !
ردیف سے اظہار ہوتا ہے کہ فاعل ’وہ ‘ احترام اور جمع کے صیغے میں ہیں۔ اس’ان کے لہجے‘ نہیں ہونا چاہئے تھا؟

تشنہ پیمانِ وفا یاد نہ کر تے اس کے
اپنا بھولا کوئی وعدہ ہی نبھاتے جاتے !
یہاں بھی فاعل کی کمی ہے، کون نبھاتے ہم یا وہ؟

عَہدِ رفتہ سے ہے منسوب ملالِ عمری
کاش ہم کوچہءِ جاناں میں نہ آتے جاتے !
÷÷ملال عمری؟ زندگی بھر کا ملال بہتر ہو گا۔ پہلا مصرع مزید واضح کیا جائے تو بہتر ہو۔

کیا مِلا نوچ کے چہروں سے نقابیں کاشف ؟
رشتہءِ جور و جفا تھا ہی، نبھاتے جاتے !
÷÷درست
 
استاد محترم جناب الف عین سر
کچھ اشعار میں تبدیلی کی ہیں. باقی اشعار کو بھی جلد درست کر لونگا. ان شا اللہ۔ ایک شعر کا مزید اضافہ کیا ہے اس پر بھی آپ سے ایک نظر ڈالنے کی گزارش ہے


خوش سلوکی سے اگر اِن کو نبھاتے جاتے !
رسمی رشتے بھی کوئی شکل تو پاتے جاتے !

ضبط میں حوصلے کچھ ایسے دکھائے ہم نے

آتشِ دل کے مزے لیتے، بجھاتے جاتے !

پھر فلک، دانہءِ گندم وہ میسّر نہ ہوئے !
ورنہ ہم ہنستے ہوئے خلد لٹاتے جاتے !


اس کے لہجہ نے ارادہ مرا زنجیر کیا
روٹھ کے ورنہ جدھر جاتا مناتے جاتے !

کیا محبوب کے لئے "اُس" کا استعمال یہاں غلط ہے سر؟

تشنہ پیمانِ وفا یاد نہ کر تے اُس کے
اپنا بھولا کوئی وعدہ ہی نبھاتے جاتے !
لفظ "اپنا " شاعر کی طرف ہی اشارہ کر رہا ہے سر۔


عَہدِ رفتہ سے ہے منسوب ملالِ عمری
کاش ہم کوچہءِ جاناں میں نہ آتے جاتے !

سنگِ دشنام نہیں اس کو دعائیں دیتے
میری آواز میں آواز ملاتے جاتے !


کیا مِلا نوچ کے چہروں سے نقابیں کاشف ؟
رشتہءِ جور و جفا تھا ہی، نبھاتے جاتے !
 

الف عین

لائبریرین
نیا شعر اور نیا مصرع دونوں مجھے پسند نہیں آئے۔
ضبط میں حوصلے کچھ ایسے دکھائے ہم نے
صیغہ مختلف ہو گیا ہے۔ یون ہوتا
۔۔۔۔ کچھ ایسے دکھاتے ہم بھی
تو درست ہو سکتا تھا۔


سنگِ دشنام نہیں اس کو دعائیں دیتے

یہ واضح نہیں کہ کون دعائیں دیتے؟
در اصل تم نے زمین ہی ایسی چنی ہے کہ صیغہ نبھانا مشکل ہوتا ہے۔
 
بہت بہتر استاد محترم.
نیا شعر فی الحال غزل سے نکال دیتا ہوں. اور آپ کی تجویز کے مطابق نیا مصرع اب ایسے ہے:
حوصلے ضبط کے کچھ ایسے دکھاتے ہم بھی
آتشِ دل کے مزے لیتے ، بجھاتے جاتے

شکریہ سر
جزاک اللّہ
 
Top