غزل: آنکھیں تھیں سرخ ، زَرْد مرے رخ کا رنگ تھا

راحل بھائی ، دخل در معقولات کے لئے انتہائی معذرت خواہ ہوں ۔ لیکن آپ کی بات پڑھ کر ایک نکتے کی وضاحت کئے بغٖیر رہ نہیں سکتا ۔ امید ہے اس بدتہذیبی پر مجھے معاف فرمائیں گے۔
یاسر بھائی کی بات میں وزن ہے ۔ معاصر اردو میں بو کا لفظ جب مفرد استعمال ہوتا ہے تو عام طور پر اس کے معنی ناگوار بو کے لئے جاتے ہیں ۔ یاسر نے اس بات کو مثال سے واضح بھی کیا ہے ۔ لیکن جب یہی لفظ کسی چیز کے ساتھ مخصوص کردیا جائے تو پھر اس کے معنی تخصیص کے مطابق ہوں گے ۔ بوئے گل ، بوئے کباب ، بوئے بہار ، بوئے شراب ، بوئے زہر ، بوئے آرزو ، بوئے خوں ، بوئے نفرت اور اسی قسم کی ان گنت تراکیب میں بو کے معنی اس کے مضاف الیہ سے متعین ہوں گے ۔

علوی صاحب ، آپ کی بات درست ہے کہ نذر اور خار کے پس منظر میں یہاں بو کے معنی بدبو نہیں لئے جائیں گے ۔ لیکن نذرِ بو کے معنی خوشبو بھی تو نہیں لئے جاسکتے ۔ وجہ وہی ہے جو یاسر بھائی نے لکھی ۔ ویسے یہاں نذرِ بو کے بجائے اگر بوئے گل کہا جائے تو کیا مضائقہ ہے ۔ قاری کو زیادہ سوچ بچار کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ بات بالکل براہِ راست ہوجائے گی ۔
آئی تھی سُو ئے خار ہوا بوئے گل لیے
افسوس ، کم نصیب کا دامن ہی تنگ تھا
بے شک ایسا کرنے سے نذر اور تنگیِ دامن کی رعایت جاتی رہتی ہے اور بوئے گل لیے میں معمولی عیبِ تنافر بھی ہے لیکن میری ناقص رائے میں نذرِ بو سے پیدا ہونے والے تاثر کی نسبت یہ بندش زیادہ گوارا ہے ۔
اگر نذر اور دامن کی رعایت بھی برقرار رکھنا ہو تو پھر ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے:
لائی تھی سوئے خار ہوا نذرِ بوئے گل
افسوس کم نصیب کا دامن ہی تنگ تھا
جناب علوی صاحب ، اس دخل در معقولات کے لئے میں آپ سے پیشگی معذرت خوا ہ ہوں ۔ اگر آپ احباب اس نکتے پر پہلے ہی سے گفتگو نہ کررہے ہوتے تو بخدا میری جرات نہیں تھی کہ یہ تجویز دیتا۔ امید ہے آپ درگزر فرمائیں گے ۔

اس اچھی غزل کے اشعار پر آپ کو ایک دفعہ پھر داد و تحسین!
ظہیر بھائی ایک تو معذرت جیسی بات کرکے خدارا شرمندہ نہ کیا کیجیے ۔۔۔ :)
بصد احترام مگر یہاں ذرا سے اختلاف کی جرات کر رہا ہوں ۔۔۔ میری ناچیز رائے میں یہاں کنفیوژن صرف شعر کے ماحول اور سیاق و سباق کو نظر انداز کرنے کی صورت میں ہی پیدا ہو سکتاہے ۔۔۔ جبکہ مجھے جیسے ایک اوسط درجے کا ذوق رکھنے والے قاری کے لیے بھی مصرعے کی بنت اور شعر کا ماحول دیکھتے ہوئے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہاں پھول کی خوشبو کی ہی بات ہو رہی ہے ۔۔۔ آپ کی تجاویز حسب معمول نہایت عمدہ ہیں ۔۔۔ مگر یہ بھی تو ہے کہ بہتری کی گنجائش تقریبا ہر شعر اور مصرع میں ہی ہوتی ہے ۔۔۔ سو یہاں بھی ہے ۔۔۔ مگر میں پھر یہی کہوں گا کہ اصل مصرع بھی ناقص نہیں لگتا ۔۔۔
امیدہے کہ آپ میرے اس گستاخانہ اختلاف کو چھوٹے بھائی کی بڑ بڑ سمجھ کر درگزر فرمائیں گے۔ جزاک اللہ۔
 
راحل بھائی ، دخل در معقولات کے لئے انتہائی معذرت خواہ ہوں ۔ لیکن آپ کی بات پڑھ کر ایک نکتے کی وضاحت کئے بغٖیر رہ نہیں سکتا ۔ امید ہے اس بدتہذیبی پر مجھے معاف فرمائیں گے۔
یاسر بھائی کی بات میں وزن ہے ۔ معاصر اردو میں بو کا لفظ جب مفرد استعمال ہوتا ہے تو عام طور پر اس کے معنی ناگوار بو کے لئے جاتے ہیں ۔ یاسر نے اس بات کو مثال سے واضح بھی کیا ہے ۔ لیکن جب یہی لفظ کسی چیز کے ساتھ مخصوص کردیا جائے تو پھر اس کے معنی تخصیص کے مطابق ہوں گے ۔ بوئے گل ، بوئے کباب ، بوئے بہار ، بوئے شراب ، بوئے زہر ، بوئے آرزو ، بوئے خوں ، بوئے نفرت اور اسی قسم کی ان گنت تراکیب میں بو کے معنی اس کے مضاف الیہ سے متعین ہوں گے ۔

علوی صاحب ، آپ کی بات درست ہے کہ نذر اور خار کے پس منظر میں یہاں بو کے معنی بدبو نہیں لئے جائیں گے ۔ لیکن نذرِ بو کے معنی خوشبو بھی تو نہیں لئے جاسکتے ۔ وجہ وہی ہے جو یاسر بھائی نے لکھی ۔ ویسے یہاں نذرِ بو کے بجائے اگر بوئے گل کہا جائے تو کیا مضائقہ ہے ۔ قاری کو زیادہ سوچ بچار کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ بات بالکل براہِ راست ہوجائے گی ۔
آئی تھی سُو ئے خار ہوا بوئے گل لیے
افسوس ، کم نصیب کا دامن ہی تنگ تھا
بے شک ایسا کرنے سے نذر اور تنگیِ دامن کی رعایت جاتی رہتی ہے اور بوئے گل لیے میں معمولی عیبِ تنافر بھی ہے لیکن میری ناقص رائے میں نذرِ بو سے پیدا ہونے والے تاثر کی نسبت یہ بندش زیادہ گوارا ہے ۔
اگر نذر اور دامن کی رعایت بھی برقرار رکھنا ہو تو پھر ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے:
لائی تھی سوئے خار ہوا نذرِ بوئے گل
افسوس کم نصیب کا دامن ہی تنگ تھا
جناب علوی صاحب ، اس دخل در معقولات کے لئے میں آپ سے پیشگی معذرت خوا ہ ہوں ۔ اگر آپ احباب اس نکتے پر پہلے ہی سے گفتگو نہ کررہے ہوتے تو بخدا میری جرات نہیں تھی کہ یہ تجویز دیتا۔ امید ہے آپ درگزر فرمائیں گے ۔

اس اچھی غزل کے اشعار پر آپ کو ایک دفعہ پھر داد و تحسین!
ظہیر صاحب ، آپ اِس قدر تکلف سے کام لے کر شرمندہ کر رہے ہیں . یہ بزم عام ہے . یہاں کوئی بھی کچھ بھی کہہ سکتا ہے . اور آپ جیسے صاحب علم كے لیے تو پلکیں بچھی ہیں . :)حضور اعلیٰ ، آپ کی تمام باتیں تسلیم ، لیکن یہ واضح نہیں ہوا کہ اگر ’ خار‘ اور ’ نذر‘ كے پیش نظر ’ بدبو‘ کا امکان خارج ہو گیا تو ’ بو‘ کو ’ خوشبو‘ سمجھنے میں کیا رکاوٹ ہے . کیا ’ بو‘ کی کوئی تیسری قسم بھی ہے ؟ ویسے آپ کی تجویز کردہ دوسری شکل خوب ہے اور پسند آئی . اگر یہ ایک پرانی اور اشاعت شدہ غزل نہ ہوتی تو میں مصرعہ یوں ہی کر دیتا . رہا میرا ناچیز مصرعہ سو اس کی وضاحت اوپر آ چکی ہے . بقول رازؔ چاندپوری ’ اِس سے زیادہ حاجتِ شرح و بیاں نہیں .‘ مکرّر داد كے لیے مکرّر شکریہ ! :)
 
دکن میں عام بول چال میں بھی بو سے مراد خوشبو ہی ہوتی ہے، اور اس کا تلفظ بھی واو مجہول یعنی جو، تو کی طرح کیا جاتا ہے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ ہو گیا۔ لیکن مجھے بھی یاسر کی بات میں وزن محسوس ہوا، ظہیراحمدظہیر کے مشورے نہایت صائب ہیں
محترم اعجاز صاحب ، اِس ناچیز لڑی میں تشریف آوری اور رائےزنی کا بہت بہت شکریہ ! آپ کی رائے سے متفق ہوں .
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی ایک تو معذرت جیسی بات کرکے خدارا شرمندہ نہ کیا کیجیے ۔۔۔ :)
بصد احترام مگر یہاں ذرا سے اختلاف کی جرات کر رہا ہوں ۔۔۔ میری ناچیز رائے میں یہاں کنفیوژن صرف شعر کے ماحول اور سیاق و سباق کو نظر انداز کرنے کی صورت میں ہی پیدا ہو سکتاہے ۔۔۔ جبکہ مجھے جیسے ایک اوسط درجے کا ذوق رکھنے والے قاری کے لیے بھی مصرعے کی بنت اور شعر کا ماحول دیکھتے ہوئے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہاں پھول کی خوشبو کی ہی بات ہو رہی ہے ۔۔۔ آپ کی تجاویز حسب معمول نہایت عمدہ ہیں ۔۔۔ مگر یہ بھی تو ہے کہ بہتری کی گنجائش تقریبا ہر شعر اور مصرع میں ہی ہوتی ہے ۔۔۔ سو یہاں بھی ہے ۔۔۔ مگر میں پھر یہی کہوں گا کہ اصل مصرع بھی ناقص نہیں لگتا ۔۔۔
امیدہے کہ آپ میرے اس گستاخانہ اختلاف کو چھوٹے بھائی کی بڑ بڑ سمجھ کر درگزر فرمائیں گے۔ جزاک اللہ۔
راحل بھائی ، مصرع کو ناقص یا نادرست تو کسی نے بھی نہیں کہا ہے ۔ صرف نذرِ بو میں موجود معنوی تعقید کے ایک پہلو پر بات کی گئی ہے۔ یہ اپنے اپنے ذوق ، مطالعے اور شعری تربیت کی بات ہے ۔ اس پہلو پر آپ کا اختلاف کرنا بالکل جائز ہے اور اس میں بالکل کوئی قباحت نہیں۔ معنوی تعقید کے ضمن میں آپ نے میر انیس یا دبیر کا وہ مشہور واقعہ ضرور پڑھا ہوگا کہ جس میں "بحرِ علی کے گوہرِ یکتا حسین ہیں" والے مصرع میں تعقیدِ معنوی سے بچنے کے لئے پہلے گنجِ علی پھر کانِ علی اور پھر بالآخر کنزِ علی کہا ۔ حالانکہ تینوں مصاریع درست ہیں لیکن ۔۔۔۔۔۔ بہرحال ۔ اس مسئلے میں بقیہ تفصیل نیچے لکھتا ہو ں ۔
اور چھوٹے بھائی کی بڑ سے درگزر کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ :) یہ تو ناقابلِ معافی جرم ہے اور صرف اسی صورت میں معاف کیا جاسکتا ہے کہ آپ ایک عدد تازہ غزل فی الفور نظر نواز فرمائیں۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر صاحب ، آپ اِس قدر تکلف سے کام لے کر شرمندہ کر رہے ہیں . یہ بزم عام ہے . یہاں کوئی بھی کچھ بھی کہہ سکتا ہے . اور آپ جیسے صاحب علم كے لیے تو پلکیں بچھی ہیں . :)حضور اعلیٰ ، آپ کی تمام باتیں تسلیم ، لیکن یہ واضح نہیں ہوا کہ اگر ’ خار‘ اور ’ نذر‘ كے پیش نظر ’ بدبو‘ کا امکان خارج ہو گیا تو ’ بو‘ کو ’ خوشبو‘ سمجھنے میں کیا رکاوٹ ہے . کیا ’ بو‘ کی کوئی تیسری قسم بھی ہے ؟ ویسے آپ کی تجویز کردہ دوسری شکل خوب ہے اور پسند آئی . اگر یہ ایک پرانی اور اشاعت شدہ غزل نہ ہوتی تو میں مصرعہ یوں ہی کر دیتا . رہا میرا ناچیز مصرعہ سو اس کی وضاحت اوپر آ چکی ہے . بقول رازؔ چاندپوری ’ اِس سے زیادہ حاجتِ شرح و بیاں نہیں .‘ مکرّر داد كے لیے مکرّر شکریہ ! :)
علوی صاحب ، میں تکلف سے کام نہیں لیتا ، احتیاط برتتا ہوں کہ ٹھیس نہ لگ جائے کہیں آبگینوں کو ۔ جواب در جواب مراسلوں اور بحثا بحثی سے بچنا چاہتا ہوں کہ اس کا فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔ وقت الگ ضائع ہوتا ہے۔ سو اسی لئے پہلے ہی معذرت اور درگزر کی درخواست کردیتا ہوں۔ :) دراصل انٹرنیٹ پر بات چیت کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ بعض اوقات آپ کے الفاظ اور پیرایۂ اظہار مخاطب تک اس طرح نہیں پہنچتے جس طرح آپ چاہتے ہیں۔ روبرو گفتگو میں تو اسّی نوے فیصد کمیونیکیشن لہجے کے اتار چڑھاؤ اور حرکات و سکنات سے ہوتی ہے جو ظاہر ہے کہ انٹر نیٹ گفتگو میں ممکن نہیں۔ میرے نزدیک کسی کی دل آزاری یا فسادِ خلق سے پرہیز علمی و ادبی نکتہ آرائی سے زیادہ اہم ہے۔ خیر ۔

جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ بو کی تین نہیں بلکہ درجنوں قسمیں ممکن ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر میں نے اپنے پچھلے مراسلے میں کردیا تھا۔ (ایک مشہور شعر کے مطابق چمن سے صرف بوئے گل ہی نہیں بلکہ بوئے کباب بھی آسکتی ہے۔ :):):)) نکتہ یہی تھا کہ نہ صرف نذرِ بو میں معنوی تعقید کا ایک ممکنہ پہلو بھی ہے بلکہ نذرِ بو کی ترکیب نامکمل اور مبہم بھی لگتی ہے۔ اس نکتے کی وضاحت کے لئے یہ دو مثالیں دیکھئے گا۔
ہوائے صبحِ گلستاں میں ہے جو بوئے خزاں
نہ جانے غنچۂ تازہ پہ رات کیا گزری

جمالِ گلشنِ ہستی کا اعتبار نہ کر
گلوں سے اٹھتی ہوئی موجِ بوئے مرگ بھی دیکھ

یعنی چمن ، ہوا ، گل ، کانٹے وغیرہ کے سیاق و سباق میں بو سے مراد خوشبو ہونا ضروری نہیں ہے۔ بو کئی طرح کی ہوسکتی ہے۔ چونکہ آپ نے اپنی نثری تشریح میں بو سے مراد بوئے گل کہا تھا تو میں نے اسی تناظر میں بوئے گل کی تجویز دینے کی جرات کی تاکہ آپ کی بات براہِ راست ہوجائے ۔ لیکن درحقیقت آپ کے شعر میں بوئے گل سے زیادہ بوئے بہار کا محل ہے ۔ یعنی ہوا جس طرح پھو ل تک بوئے بہار لے کر آتی ہے اسی طرح کانٹے تک بھی لائی تھی لیکن پھول کے برعکس کانٹے نے نذرِ بوئے بہار کو قبول نہیں کیا، کم نصیب اور تنگ دامن نکلا ۔

بہرحال ، آخر میں پھر ایک دفعہ سخن گستری کے لئے معذرت طلب ہوں ۔ :)
علوی صاحب، امید ہے کہ آپ کی اگلی غزل جلد ہی پڑھنے کو ملے گی ۔
 
راحل بھائی ، مصرع کو ناقص یا نادرست تو کسی نے بھی نہیں کہا ہے ۔
مکرمی یاسر بھائی نے تو یہی ارشاد فرمایا کہ انہوں نے اسے محض احتیاط کے پیش نظر غلط نہیں کہا ۔۔۔ گویا اس بات کا احتمال موجود ہے کہ وہ ویسے اس کو غلط ہی سمجھتے ہیں :)
 
علوی صاحب ، میں تکلف سے کام نہیں لیتا ، احتیاط برتتا ہوں کہ ٹھیس نہ لگ جائے کہیں آبگینوں کو ۔ جواب در جواب مراسلوں اور بحثا بحثی سے بچنا چاہتا ہوں کہ اس کا فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔ وقت الگ ضائع ہوتا ہے۔ سو اسی لئے پہلے ہی معذرت اور درگزر کی درخواست کردیتا ہوں۔ :) دراصل انٹرنیٹ پر بات چیت کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ بعض اوقات آپ کے الفاظ اور پیرایۂ اظہار مخاطب تک اس طرح نہیں پہنچتے جس طرح آپ چاہتے ہیں۔ روبرو گفتگو میں تو اسّی نوے فیصد کمیونیکیشن لہجے کے اتار چڑھاؤ اور حرکات و سکنات سے ہوتی ہے جو ظاہر ہے کہ انٹر نیٹ گفتگو میں ممکن نہیں۔ میرے نزدیک کسی کی دل آزاری یا فسادِ خلق سے پرہیز علمی و ادبی نکتہ آرائی سے زیادہ اہم ہے۔ خیر ۔

جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ بو کی تین نہیں بلکہ درجنوں قسمیں ممکن ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر میں نے اپنے پچھلے مراسلے میں کردیا تھا۔ (ایک مشہور شعر کے مطابق چمن سے صرف بوئے گل ہی نہیں بلکہ بوئے کباب بھی آسکتی ہے۔ :):):)) نکتہ یہی تھا کہ نہ صرف نذرِ بو میں معنوی تعقید کا ایک ممکنہ پہلو بھی ہے بلکہ نذرِ بو کی ترکیب نامکمل اور مبہم بھی لگتی ہے۔ اس نکتے کی وضاحت کے لئے یہ دو مثالیں دیکھئے گا۔
ہوائے صبحِ گلستاں میں ہے جو بوئے خزاں
نہ جانے غنچۂ تازہ پہ رات کیا گزری

جمالِ گلشنِ ہستی کا اعتبار نہ کر
گلوں سے اٹھتی ہوئی موجِ بوئے مرگ بھی دیکھ

یعنی چمن ، ہوا ، گل ، کانٹے وغیرہ کے سیاق و سباق میں بو سے مراد خوشبو ہونا ضروری نہیں ہے۔ بو کئی طرح کی ہوسکتی ہے۔ چونکہ آپ نے اپنی نثری تشریح میں بو سے مراد بوئے گل کہا تھا تو میں نے اسی تناظر میں بوئے گل کی تجویز دینے کی جرات کی تاکہ آپ کی بات براہِ راست ہوجائے ۔ لیکن درحقیقت آپ کے شعر میں بوئے گل سے زیادہ بوئے بہار کا محل ہے ۔ یعنی ہوا جس طرح پھو ل تک بوئے بہار لے کر آتی ہے اسی طرح کانٹے تک بھی لائی تھی لیکن پھول کے برعکس کانٹے نے نذرِ بوئے بہار کو قبول نہیں کیا، کم نصیب اور تنگ دامن نکلا ۔

بہرحال ، آخر میں پھر ایک دفعہ سخن گستری کے لئے معذرت طلب ہوں ۔ :)
علوی صاحب، امید ہے کہ آپ کی اگلی غزل جلد ہی پڑھنے کو ملے گی ۔
ظہیر صاحب ، آپ کا یہ قول درست ہے کہ زیادہ طویل مباحثوں سے کوئی فائدہ نہیں . اسی لیے میں بھی اِس سلسلے کو ختم کر چکا تھا ، لیکن ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں . بو کی اقسام پر میرا سوال اشیاء كے لحاظ سے نہیں بلکہ مزاج كے لحاظ سے تھا . مجھے علم ہے کہ تقریباً ہر شئے میں کسی نہ کسی طرح کی بو ہوتی ہے لہٰذا اشیاء كے لحاظ سے بو کی سینکڑوں اقسام ہو سکتی ہیں . لیکن مزاج كے لحاظ سے بو کی دو ہی اقسام ہیں ، اچھی (خوشبو) اور بری (بدبو .) جیسا میں نے پہلے عرض کیا ، یہاں بدبو کا محل ہی نہیں ہے اور خوشبو مراد ہے . اور خوشبو سے میرا مطلب بو ئے گل تھا . لیکن اگر اس کی جگہ کوئی اور متعلقہ خوشبو (بو ئے چمن ، بو ئے بہار وغیرہ) بھی تسلیم کر لیں تو بھی شعر كے خیال پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا . بات وہی رہتی ہے کہ خوشبو كے ارد گرد ہوتے ہوئے بھی کانٹا اسے خود میں نہیں سمیٹ سکتا کیونکہ قدرت نے اسے یہ صلاحیت عطا ہی نہیں کی . غرض یہ کہ بات اتنی مبہم اور پیچیدہ نہیں ہے جتنی بن گئی ہے . اب اگر کوئی اب بھی اصرار کرے کہ یہاں خوشبو تو کباب کی بھی ہو سکتی ہے تو میں عرض کروں گا کہ بھائی ، آپ زیادتیء فکر (overthinking) میں مبتلا ہیں ورنہ بےچارہ کانٹا تو گوشتخور نہیں ہوتا . کم اَز کم میرا والا تو نہیں ہے . :)

اگلی غزل تیار ہوتے ہی انشاء اللہ پیش کروں گا . دو ایک غزلوں پر گذشتہ کچھ دنوں سے کام ہو رہا ہے . حسب معمول کوشش یہ ہے کہ نوک پلک سنوار لوں ، لیکن وقت کی کمی كے باعث یہ کام جلد ہو نہیں پا رہا ہے .
 
آخری تدوین:
Top