غزل۔ توصیف زیدی

عشق کی جزا ہیں ہم، عشق کے سوا کیا دیں؟
عشق کی بقا ہیں ہم،عشق کے سوا کیا دیں؟

درد کے مریضوں کو درد کی دوا کیا دیں؟
درد کا سبب ہیں ہم، درد کے سوا کیا دیں؟

زرد سی فضاؤں نے گرد ہے پھلا رکھی
گرد کی بہاروں میں اک نئی صبا کیا دیں؟

عشق میں وفا نامی چیز ہی نہیں اب تو
کسی کو وفا کیا دیں،کسی کو جفا کیا دیں؟

بد نصیبی اب جو بن چکی ہے مقدر تو
کسی کی دعا کیا لیں،کسی کو دعا کیا دیں؟

دیر سے حرم کو لڑواتے ہیں یہ واعظ تو
دیر سے خدا کیا لیں،دیر کو خدا کیا دیں؟

یاروں سےملے ہیں توصیفؔ بس ستم ہم کو
تحفے ہیں پیاروں کے انہیں اب جدا کیا دیں؟

(توصیف زیدی)
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اپنی غزل یوں تو سب کو ہی پسند ہوتی ہے مگر یہ زمرہ اپنی پسند کی دوسروں کی شاعری کا ہے۔ اپنی شاعری آپ کی شاعری بلکہ اصلاح ِِ سخن زمرے میں پوسٹ کریں.۔ اپنا تعارف بھی تعارف کے زمرے میں دیں۔ خوش آمدید تو یہاں بھی کہہ ہی دوں!
 
عشق کی جزا ہیں ہم، عشق کے سوا کیا دیں؟
عشق کی بقا ہیں ہم،عشق کے سوا کیا دیں؟

درد کے مریضوں کو درد کی دوا کیا دیں؟
درد کا سبب ہیں ہم، درد کی دوا کیا دیں؟

زرد سی فضاؤں نے گرد ہے پھلا رکھی
گرد کی بہاروں میں اک نئی صبا کیا دیں؟

عشق میں وفا نامی چیز ہی نہیں اب تو
کسی کو وفا کیا دیں،کسی کو جفا کیا دیں؟

بد نصیبی اب جو بن چکی ہے مقدر تو
کسی کی دعا کیا لیں،کسی کو دعا کیا دیں؟

دیر سے حرم کو لڑواتے ہیں یہ واعظ تو
دیر سے خدا کیا لیں،دیر کو خدا کیا دیں؟

یاروں سےملے ہیں توصیفؔ بس ستم ہم کو
تحفے ہیں پیاروں کے انہیں اب جدا کیا دیں؟

(توصیف زیدی)

اپنی غزل یوں تو سب کو ہی پسند ہوتی ہے مگر یہ زمرہ اپنی پسند کی دوسروں کی شاعری کا ہے۔ اپنی شاعری آپ کی شاعری بلکہ اصلاح ِِ سخن زمرے میں پوسٹ کریں.۔ اپنا تعارف بھی تعارف کے زمرے میں دیں۔ خوش آمدید تو یہاں بھی کہہ ہی دوں!

اصلاحِ سخن میں منتقل کردیا ہے استادِ محترم! اگلی مرتبہ امید ہے کہ توصیف زیدی بھائی اصلاحِ سخن میں ہی پوسٹ کریں گے۔
 

منذر رضا

محفلین
خوش آمدید سید توصیف حیدر زیدی
آپ کی غزل پر تبصرہ کرنے کی جسارت کر رہا ہوں، درگزر فرمائیے گا۔
مطلع مجھے سمجھ نہیں آیا۔کیا کہنا چاہتے ہیں؟
دوسرے شعر کا دوسرا مصرعہ تو بہت اچھا ہے، پہلا بدل لیجیے۔
تیسرے شعر میں <<پھیلا>> کی تقطیع پھلا درست نہیں۔ دوسرا مصرعے میں "صبا دینا" سمجھ نہیں آیا۔
چوتھے شعر میں تو دو حرفی تقطیع ہو رہا ہے، جو غیر فصیح ہے۔مصرعوں میں ربط کا فقدان لگ رہا ہے۔پہلے مصرعے میں صرف وفا کی بات کر رہے ہیں، دوسرے میں جفا کو بھی لے آئے!
پانچواں شعر بحر میں نہیں۔
چھٹے شعر کے پہلے مصرعے میں "تو" بھرتی کا ہے اور دو حرفی تقطیع ہو رہا ہے۔ دوسرا مصرعہ سمجھ نہیں آیا، اور پہلے سے اس کا ربط بھی واضح نہیں۔
مقطع کا پہلا مصرعہ تو ٹھیک لگ رہا ہے، البتہ دوسرے میں پیاروں کو بروزنِ فعولن باندھا گیا، درست تقطیع فعلن ہے۔ مزید یہ کہ جدا کریں کا محل ہے، جدا کیا دیں کا محل نہیں ہے۔
باقی اساتذہ ہی دیکھیں گے
فلسفی الف عین عظیم
 
اپنی غزل یوں تو سب کو ہی پسند ہوتی ہے مگر یہ زمرہ اپنی پسند کی دوسروں کی شاعری کا ہے۔ اپنی شاعری آپ کی شاعری بلکہ اصلاح ِِ سخن زمرے میں پوسٹ کریں.۔ اپنا تعارف بھی تعارف کے زمرے میں دیں۔ خوش آمدید تو یہاں بھی کہہ ہی دوں!

سب سے پہلے معذرت چاہوں گا کہ۔۔۔۔۔غلط پوسٹ کر بیٹھا۔۔۔۔ اور بتاتا چلوں مجھے اصلاح کی ضرورت ہے اگر فرما دیں۔۔۔۔۔۔مشکور ہوں گا۔۔۔۔۔۔
تعارف تو سرے سے ہے ہی نہیں۔۔۔۔۔
نام لکھ چکا ہوں۔۔۔۔۔ عمر بھی واضح ہے۔۔۔۔۔
علم عروض میں میرا کوئی استاد نہیں۔۔۔۔۔ڈاکٹر کمال احمد صدیقی صاحب کی کتاب" آہنگ اور عروض" سے ہی سبق حاصل کیا۔۔۔۔۔
اور میں ابھی اٹالیا میں رہائش پذیر ہوں۔۔۔۔۔لحاظہ کوئی بھی نہیں جسے دکھا سکتا کہ کیسا لکھا ہے۔۔۔۔۔
امید ہے میری جسارت کو درگزر فرمائیں گے۔۔۔۔۔
 
خوش آمدید سید توصیف حیدر زیدی
آپ کی غزل پر تبصرہ کرنے کی جسارت کر رہا ہوں، درگزر فرمائیے گا۔
مطلع مجھے سمجھ نہیں آیا۔کیا کہنا چاہتے ہیں؟
دوسرے شعر کا دوسرا مصرعہ تو بہت اچھا ہے، پہلا بدل لیجیے۔
تیسرے شعر میں <<پھیلا>> کی تقطیع پھلا درست نہیں۔ دوسرا مصرعے میں "صبا دینا" سمجھ نہیں آیا۔
چوتھے شعر میں تو دو حرفی تقطیع ہو رہا ہے، جو غیر فصیح ہے۔مصرعوں میں ربط کا فقدان لگ رہا ہے۔پہلے مصرعے میں صرف وفا کی بات کر رہے ہیں، دوسرے میں جفا کو بھی لے آئے!
پانچواں شعر بحر میں نہیں۔
چھٹے شعر کے پہلے مصرعے میں "تو" بھرتی کا ہے اور دو حرفی تقطیع ہو رہا ہے۔ دوسرا مصرعہ سمجھ نہیں آیا، اور پہلے سے اس کا ربط بھی واضح نہیں۔
مقطع کا پہلا مصرعہ تو ٹھیک لگ رہا ہے، البتہ دوسرے میں پیاروں کو بروزنِ فعولن باندھا گیا، درست تقطیع فعلن ہے۔ مزید یہ کہ جدا کریں کا محل ہے، جدا کیا دیں کا محل نہیں ہے۔
باقی اساتذہ ہی دیکھیں گے
فلسفی الف عین عظیم
عزیز من مطلع میں تو کچھ ہے ہی نہیں کے جو سمجھ نا آوے۔۔۔۔۔ سر شاید غزل کو غلط وزن پہ باندھ رہیں ہیں۔۔۔۔۔
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
میں رکھ کے پرکھ لیں حضور۔۔۔۔۔۔
 

منذر رضا

محفلین
سید توصیف حیدر زیدی حضرتِ والا!
فاعلن مفاعیلن پر ہی پرکھا، آپ اشعار کی تقطیع فرما دیجیے، شاید واقعی کوئی غلطی ہو گئی ہو مجھ سے۔۔۔
اور شاعر کو تو اپنا ہر شعر سمجھ آتا ہے، ضرورت اس بات کی اوروں کو بھی سمجھ آوے۔
آپ کو پتا ہے آپ کے لاشعور میں شعر کہتے ہوئے کیا تھا، مگر مجھے نہیں پتا، اس لیے شعر واضح ہونا چاہیے۔۔۔
 
عشق کی جزا ہیں ہم، عشق کے سوا کیا دیں؟
عشق کی بقا ہیں ہم،عشق کے سوا کیا دیں؟

درد کے مریضوں کو درد کی دوا کیا دیں؟
درد کا سبب ہیں ہم، درد کے سوا کیا دیں؟

زرد سی فضاؤں نے گرد ہے پھلا رکھی
گرد کی بہاروں میں اک نئی صبا کیا دیں؟

عشق میں وفا نامی چیز ہی نہیں اب تو
کسی کو وفا کیا دیں،کسی کو جفا کیا دیں؟

بد نصیبی اب جو بن چکی ہے مقدر تو
کسی کی دعا کیا لیں،کسی کو دعا کیا دیں؟

دیر سے حرم کو لڑواتے ہیں یہ واعظ تو
دیر سے خدا کیا لیں،دیر کو خدا کیا دیں؟

یاروں سےملے ہیں توصیفؔ بس ستم ہم کو
تحفے ہیں پیاروں کے انہیں اب جدا کیا دیں؟

(توصیف زیدی)

عشق کی جزا ہیں ہم، عشق کے سوا کیا دیں؟
عشق کی بقا ہیں ہم،عشق کے سوا کیا دیں؟

مطلع میں شاعر قافیے کا تعین کرتے ہیں۔ یہاں آپ نے جزا اور بقا قافیے بنائے ہیں اور ’’ہیں ہم، عشق کے سوا کیا دیں‘‘ ردیف کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اگلے اشعار میں آپ کی ردیف ’’ کیا دیں‘‘ رہ گئی۔ مطلع کے کسی ایک مصرع کو تبدیل کرلیجیے ، مطلع درست ہوجائے گا۔


زرد سی فضاؤں نے گرد ہے پھلا رکھی
گرد کی بہاروں میں اک نئی صبا کیا دیں؟

پھیلا رکھی کو ’’ پھلا رکھی ‘‘ نہیں باندھ سکتے ۔

عشق میں وفا نامی چیز ہی نہیں اب تو
کسی کو وفا کیا دیں،کسی کو جفا کیا دیں؟
’’کسی کو‘‘ کے سی کو‘‘ تقطیع ہورہا ہے۔

بد نصیبی اب جو بن چکی ہے مقدر تو
کسی کی دعا کیا لیں،کسی کو دعا کیا دیں؟
پہلا مصرع میں ’’ چکی‘‘ چُک کی‘‘ تقطیع ہورہا ہے۔ دوسرے مصرع میں پھر وہی بات کہ ’’کسی‘‘ دراصل کے سی یا ’’ کس سی‘‘ تقطیع ہورہا ہے( س پر تشدید کے ساتھ)۔

دیر سے حرم کو لڑواتے ہیں یہ واعظ تو
دیر سے خدا کیا لیں،دیر کو خدا کیا دیں؟

پہلا مصرع توجہ چاہتا ہے ’’لڑواتے‘‘ درمیان سے ٹوٹ کر تقطیع ہورہا ہے۔

یاروں سےملے ہیں توصیفؔ بس ستم ہم کو
تحفے ہیں پیاروں کے انہیں اب جدا کیا دیں؟
پہلے مصرع بھی ’’توصیف‘‘ ٹوٹ کر ’’تَو‘‘ اور ’’صیف‘‘ تقطیع ہورہا ہے۔ دوسرے مصرع میں پیاروں سے متعلق منذر رضا بھائی بتلاچکے۔
 
سید توصیف حیدر زیدی حضرتِ والا!
فاعلن مفاعیلن پر ہی پرکھا، آپ اشعار کی تقطیع فرما دیجیے، شاید واقعی کوئی غلطی ہو گئی ہو مجھ سے۔۔۔
اور شاعر کو تو اپنا ہر شعر سمجھ آتا ہے، ضرورت اس بات کی اوروں کو بھی سمجھ آوے۔
آپ کو پتا ہے آپ کے لاشعور میں شعر کہتے ہوئے کیا تھا، مگر مجھے نہیں پتا، اس لیے شعر واضح ہونا چاہیے۔۔۔
)پھلا رکھی) غلطی کو درست کر لیا گیا ہے۔۔۔۔شکریہ کے ساتھ۔۔۔۔
عشق کی۔جزا ہیں ہم۔ عشق کے۔سوا کیا دیں؟
عشق کی۔بقا ہیں ہم۔عشق کے۔سوا کیا دیں؟

درد کے۔مری۔ضوں کو۔درد کی۔دوا کیا دیں؟
درد کا۔سبب ہیں ہم۔درد کے۔سوا کیا دیں؟

زرد سی۔فضا۔ؤں نے۔ گرد ہے۔بنا رکھی
گرد کی۔ بہا۔روں میں۔اک نئی۔صبا کیا دیں

عشق میں۔وفا نامی۔چیز ہی۔نہیں اب تو
کسی کو۔وفا کیا دیں۔کسی کو۔جفا کیا دیں؟

بد نصی۔بی اب جو۔بن چکی۔ ہ مقدر تو
کسی کی۔دعا کیا لیں۔کسی کو۔دعا کیا دیں؟

دیر سے۔حرم کو لڑ۔واتے ہیں۔یہ واعظ تو
دیر سے۔خدا کیا لیں۔دیر کو۔خدا کیا دیں؟

یاروں سے۔ملے ہیں تو۔صیفؔ بس۔ستم ہم کو
تحفے ہیں۔پیاروں کے۔انہیں اب۔جدا کیا دیں؟
 
عشق کی جزا ہیں ہم، عشق کے سوا کیا دیں؟
عشق کی بقا ہیں ہم،عشق کے سوا کیا دیں؟

مطلع میں شاعر قافیے کا تعین کرتے ہیں۔ یہاں آپ نے جزا اور بقا قافیے بنائے ہیں اور ’’ہیں ہم، عشق کے سوا کیا دیں‘‘ ردیف کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اگلے اشعار میں آپ کی ردیف ’’ کیا دیں‘‘ رہ گئی۔ مطلع کے کسی ایک مصرع کو تبدیل کرلیجیے ، مطلع درست ہوجائے گا۔


زرد سی فضاؤں نے گرد ہے پھلا رکھی
گرد کی بہاروں میں اک نئی صبا کیا دیں؟

پھیلا رکھی کو ’’ پھلا رکھی ‘‘ نہیں باندھ سکتے ۔

عشق میں وفا نامی چیز ہی نہیں اب تو
کسی کو وفا کیا دیں،کسی کو جفا کیا دیں؟
’’کسی کو‘‘ کے سی کو‘‘ تقطیع ہورہا ہے۔

بد نصیبی اب جو بن چکی ہے مقدر تو
کسی کی دعا کیا لیں،کسی کو دعا کیا دیں؟
پہلا مصرع میں ’’ چکی‘‘ چُک کی‘‘ تقطیع ہورہا ہے۔ دوسرے مصرع میں پھر وہی بات کہ ’’کسی‘‘ دراصل کے سی یا ’’ کس سی‘‘ تقطیع ہورہا ہے( س پر تشدید کے ساتھ)۔

دیر سے حرم کو لڑواتے ہیں یہ واعظ تو
دیر سے خدا کیا لیں،دیر کو خدا کیا دیں؟

پہلا مصرع توجہ چاہتا ہے ’’لڑواتے‘‘ درمیان سے ٹوٹ کر تقطیع ہورہا ہے۔

یاروں سےملے ہیں توصیفؔ بس ستم ہم کو
تحفے ہیں پیاروں کے انہیں اب جدا کیا دیں؟
پہلے مصرع بھی ’’توصیف‘‘ ٹوٹ کر ’’تَو‘‘ اور ’’صیف‘‘ تقطیع ہورہا ہے۔ دوسرے مصرع میں پیاروں سے متعلق منذر رضا بھائی بتلاچکے۔
آپ کا شکر گزار ہوں سر جی۔۔۔۔۔۔میں یہی چاہتا تھا۔۔۔۔۔
رہنمائی کا شکریہ۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
)پھلا رکھی) غلطی کو درست کر لیا گیا ہے۔۔۔۔شکریہ کے ساتھ۔۔۔۔
عشق کی۔جزا ہیں ہم۔ عشق کے۔سوا کیا دیں؟
عشق کی۔بقا ہیں ہم۔عشق کے۔سوا کیا دیں؟

درد کے۔مری۔ضوں کو۔درد کی۔دوا کیا دیں؟
درد کا۔سبب ہیں ہم۔درد کے۔سوا کیا دیں؟

زرد سی۔فضا۔ؤں نے۔ گرد ہے۔بنا رکھی
گرد کی۔ بہا۔روں میں۔اک نئی۔صبا کیا دیں

عشق میں۔وفا نامی۔چیز ہی۔نہیں اب تو
کسی کو۔وفا کیا دیں۔کسی کو۔جفا کیا دیں؟

بد نصی۔بی اب جو۔بن چکی۔ ہ مقدر تو
کسی کی۔دعا کیا لیں۔کسی کو۔دعا کیا دیں؟

دیر سے۔حرم کو لڑ۔واتے ہیں۔یہ واعظ تو
دیر سے۔خدا کیا لیں۔دیر کو۔خدا کیا دیں؟

یاروں سے۔ملے ہیں تو۔صیفؔ بس۔ستم ہم کو
تحفے ہیں۔پیاروں کے۔انہیں اب۔جدا کیا دیں؟
تصحیح تو نہیں کی گئی ہے سوائے مطلع کے، دوبارہ پیش کریں
 
تصحیح تو نہیں کی گئی ہے سوائے مطلع کے، دوبارہ پیش کریں

مطلع تبدیل کیا ہے۔۔۔۔۔
کمی کوتاہی بھی بتا دیجئے گا۔۔۔

عشق کی عداوت میں عشق کو دغا کیا دیں
عشق کی جزا ہیں ہم ، جزا کے سوا کیا دیں

درد کے مریضوں کو درد کی دوا کیا دیں؟
درد کا سبب ہیں ہم، درد کے سوا کیا دیں؟

زرد سی فضاؤں نے گرد ہے بنا رکھی
گرد کی بہاروں میں اک نئی صبا کیا دیں؟

عشق میں وفا نامی چیز ہی نہیں اب تو
کسی کو وفا کیا دیں،کسی کو جفا کیا دیں؟

بد نصیبی اب جو بن چکی ہے مقدر تو
کسی کی دعا کیا لیں،کسی کو دعا کیا دیں؟

دیر سے حرم کو لڑواتے ہیں یہ واعظ تو
دیر سے خدا کیا لیں،دیر کو خدا کیا دیں؟

یاروں سےملے ہیں توصیفؔ بس ستم ہم کو
تحفے ہیں پیاروں کے انہیں اب جدا کیا دیں؟
 
مطلع تبدیل کیا ہے۔۔۔۔۔
کمی کوتاہی بھی بتا دیجئے گا۔۔۔

عشق کی عداوت میں عشق کو دغا کیا دیں
عشق کی جزا ہیں ہم ، جزا کے سوا کیا دیں

درد کے مریضوں کو درد کی دوا کیا دیں؟
درد کا سبب ہیں ہم، درد کے سوا کیا دیں؟

زرد سی فضاؤں نے گرد ہے بنا رکھی
گرد کی بہاروں میں اک نئی صبا کیا دیں؟

عشق میں وفا نامی چیز ہی نہیں اب تو
کسی کو وفا کیا دیں،کسی کو جفا کیا دیں؟

بد نصیبی اب جو بن چکی ہے مقدر تو
کسی کی دعا کیا لیں،کسی کو دعا کیا دیں؟

دیر سے حرم کو لڑواتے ہیں یہ واعظ تو
دیر سے خدا کیا لیں،دیر کو خدا کیا دیں؟

یاروں سےملے ہیں توصیفؔ بس ستم ہم کو
تحفے ہیں پیاروں کے انہیں اب جدا کیا دیں؟

عشق کی جزا ہیں ہم، عشق کے سوا کیا دیں؟
عشق کی بقا ہیں ہم،عشق کے سوا کیا دیں؟

مطلع میں شاعر قافیے کا تعین کرتے ہیں۔ یہاں آپ نے جزا اور بقا قافیے بنائے ہیں اور ’’ہیں ہم، عشق کے سوا کیا دیں‘‘ ردیف کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اگلے اشعار میں آپ کی ردیف ’’ کیا دیں‘‘ رہ گئی۔ مطلع کے کسی ایک مصرع کو تبدیل کرلیجیے ، مطلع درست ہوجائے گا۔


زرد سی فضاؤں نے گرد ہے پھلا رکھی
گرد کی بہاروں میں اک نئی صبا کیا دیں؟

پھیلا رکھی کو ’’ پھلا رکھی ‘‘ نہیں باندھ سکتے ۔

عشق میں وفا نامی چیز ہی نہیں اب تو
کسی کو وفا کیا دیں،کسی کو جفا کیا دیں؟
’’کسی کو‘‘ کے سی کو‘‘ تقطیع ہورہا ہے۔

بد نصیبی اب جو بن چکی ہے مقدر تو
کسی کی دعا کیا لیں،کسی کو دعا کیا دیں؟
پہلا مصرع میں ’’ چکی‘‘ چُک کی‘‘ تقطیع ہورہا ہے۔ دوسرے مصرع میں پھر وہی بات کہ ’’کسی‘‘ دراصل کے سی یا ’’ کس سی‘‘ تقطیع ہورہا ہے( س پر تشدید کے ساتھ)۔

دیر سے حرم کو لڑواتے ہیں یہ واعظ تو
دیر سے خدا کیا لیں،دیر کو خدا کیا دیں؟

پہلا مصرع توجہ چاہتا ہے ’’لڑواتے‘‘ درمیان سے ٹوٹ کر تقطیع ہورہا ہے۔

یاروں سےملے ہیں توصیفؔ بس ستم ہم کو
تحفے ہیں پیاروں کے انہیں اب جدا کیا دیں؟
پہلے مصرع بھی ’’توصیف‘‘ ٹوٹ کر ’’تَو‘‘ اور ’’صیف‘‘ تقطیع ہورہا ہے۔ دوسرے مصرع میں پیاروں سے متعلق منذر رضا بھائی بتلاچکے۔
 

الف عین

لائبریرین
شاید تفصیل سے بتانے میں سمجھ میں آئے گا
عشق کی عداوت میں عشق کو دغا کیا دیں
عشق کی جزا ہیں ہم ، جزا کے سوا کیا دیں
... جزا کی تقطیع غلط ہے

درد کے مریضوں کو درد کی دوا کیا دیں؟
درد کا سبب ہیں ہم، درد کے سوا کیا دیں؟
... تکنیکی طور پر درست

زرد سی فضاؤں نے گرد ہے بنا رکھی
گرد کی بہاروں میں اک نئی صبا کیا دیں؟
... یہ بھی اوزان کے حساب سے درست لیکن گرامر اور مفہوم میں عجیب سا ہے

عشق میں وفا نامی چیز ہی نہیں اب تو
کسی کو وفا کیا دیں،کسی کو جفا کیا دیں؟
... 'کسی' تقطیع میں درست نہیں

بد نصیبی اب جو بن چکی ہے مقدر تو
کسی کی دعا کیا لیں،کسی کو دعا کیا دیں؟
... بن چکی کو دو حصوں میں ٹوٹنا فصیح نہیں، چکی اور کسی، دونوں تقطیع میں نہیں آتے

دیر سے حرم کو لڑواتے ہیں یہ واعظ تو
دیر سے خدا کیا لیں،دیر کو خدا کیا دیں؟
...' لڑواتے' ہی منقسم ہو گیا! مفہوم کے اعتبار سے بھی مجہول ہے

یاروں سےملے ہیں توصیفؔ بس ستم ہم کو
تحفے ہیں پیاروں کے انہیں اب جدا کیا دیں
.... توصیف منقسم ہو رہا ہے، پیاروں فعولن نہیں، فعلن میں تقطیع ہونا چاہیے
تقسیم اور حصوں کی بات پھر واضح کر دوں
بحر ہے فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
یعنی فاعلن مفاعیلن دو بار
ہر فاعلن مفاعیلن کو ایک حصہ مانا جاتا ہے، اور ہر حصے میں لفظ ہی نہیں بات بھی مکمل ہونی چاہیے
یاروں سے، ملے ہیں تو
صیفؔ بس، ستم ہم کو
... یہاں توصیف ٹوٹ گیا
 
شاید تفصیل سے بتانے میں سمجھ میں آئے گا
عشق کی عداوت میں عشق کو دغا کیا دیں
عشق کی جزا ہیں ہم ، جزا کے سوا کیا دیں
... جزا کی تقطیع غلط ہے

درد کے مریضوں کو درد کی دوا کیا دیں؟
درد کا سبب ہیں ہم، درد کے سوا کیا دیں؟
... تکنیکی طور پر درست

زرد سی فضاؤں نے گرد ہے بنا رکھی
گرد کی بہاروں میں اک نئی صبا کیا دیں؟
... یہ بھی اوزان کے حساب سے درست لیکن گرامر اور مفہوم میں عجیب سا ہے

عشق میں وفا نامی چیز ہی نہیں اب تو
کسی کو وفا کیا دیں،کسی کو جفا کیا دیں؟
... 'کسی' تقطیع میں درست نہیں

بد نصیبی اب جو بن چکی ہے مقدر تو
کسی کی دعا کیا لیں،کسی کو دعا کیا دیں؟
... بن چکی کو دو حصوں میں ٹوٹنا فصیح نہیں، چکی اور کسی، دونوں تقطیع میں نہیں آتے

دیر سے حرم کو لڑواتے ہیں یہ واعظ تو
دیر سے خدا کیا لیں،دیر کو خدا کیا دیں؟
...' لڑواتے' ہی منقسم ہو گیا! مفہوم کے اعتبار سے بھی مجہول ہے

یاروں سےملے ہیں توصیفؔ بس ستم ہم کو
تحفے ہیں پیاروں کے انہیں اب جدا کیا دیں
.... توصیف منقسم ہو رہا ہے، پیاروں فعولن نہیں، فعلن میں تقطیع ہونا چاہیے
تقسیم اور حصوں کی بات پھر واضح کر دوں
بحر ہے فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
یعنی فاعلن مفاعیلن دو بار
ہر فاعلن مفاعیلن کو ایک حصہ مانا جاتا ہے، اور ہر حصے میں لفظ ہی نہیں بات بھی مکمل ہونی چاہیے
یاروں سے، ملے ہیں تو
صیفؔ بس، ستم ہم کو
... یہاں توصیف ٹوٹ گیا


محترم پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ پوسٹ ختم کہاں سے کرسکتے ہیں... براہ کرم بتلا دیجئے
 
محترم پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ پوسٹ ختم کہاں سے کرسکتے ہیں... براہ کرم بتلا دیجئے

سید توصیف حیدر زیدی بھائی کسی بھی پوسٹ کو بلاوجہ حذف کرنا اردو محفل کی پالیسی نہیں۔ آپ کی اس پوسٹ پر سولہ سترہ تبصرے ہوچکے ہیں اور ہم اور آپ سمیت بہت سے محفلین نے ان پوسٹوں سے اور ان پر اساتذہ کے تبصروں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
 
Top