غزل۔۔۔جنوں میں چھوڑ کر اپنا گل و گلزار بیٹھے ہیں ۔۔مولانامشرف علی تھانوی

متلاشی

محفلین
جنوں میں چھوڑ کر اپنا گل و گلزار بیٹھے ہیں
جلا کر آشیانہ بر سرِ دیوار بیٹھے ہیں
بتا دوں کیسے اسرار و رموزِ عاشقی ہمدم
ابھی تو بزم میں بیگانہ و اغیار بیٹھے ہیں
نہ چھیڑو اہلِ محفل بزم میں تم داستانِ غم
گنوا کر اپنا سب کچھ آج ہم بیزار بیٹھے ہیں
زبانِ حال کہتی ہے خریدارانِ دل آئیں
لیے اب دل کے ٹکڑے ہم سرِ بازار بیٹھے ہیں
وصال ان کا میسر ہو تو اس منزل میں کیونکر ہو
حجاب مرتبت حائل ہیں وہ اس پار بیٹھے ہیں
مسائل کی حقیقت کیا کسے آلام کہتے ہیں
تلاطم آشنا ہم محرمِ افکار بیٹھے ہیں
کبھی تو بھول کر اس راہ سے گزریں گے وہ عارف
ہم اک مدت سے راہوں میں پئے دیدار بیٹھے ہیں
(مولانا مشرف علی تھانوی)
 
Top