غزل۔۔۔اصلاح کی درخواست کے ساتھ

عینی مروت

محفلین
بیتے دنوں میں لکھی گئی اپنی ایک غزل کیساتھ حاضر ہوں، بزرگوں سے رہنمائی کی درخواست ہے


یہ مرے ضبط کا آنسو تھا نکلتا کیسے
آبلہ روح پہ تھا جسم پہ ملتا کیسے

رفتہ رفتہ ہوئی سیراب تھی دل کی دھرتی
دیکھ پھر درد کا پودہ نہ نکلتا کیسے

طائرِ شوق تجھے حسرتِ پرواز بھی کیوں
تو کہ مانوس قفس سے تھا مچلتا کیسے

مرضِ محرومی کی کیا کرتے دوا آہوں سے
وقتِ آخر بھی یہ دل خوں نہ اگلتا کیسے

یہ مری ذات تھی یا ذرۂ بےنام و نشاں
ایک عقدہ تھا کسی اور پہ کھلتا کیسے

عینی الفاظ تھے نشتر تھے کہ انگارے تھے
ورنہ لاوہ ترے جذبوں کا ابلتا کیسے
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
بیتے(بی تے) دنوں میں لکھی گئی اپنی ایک غزل کیساتھ(کے ساتھ) حاضر ہوں، بزرگوں سے رہنمائی کی درخواست ہے


یہ مرے ضبط کا آنسو تھا نکلتا کیسے
آبلہ روح پہ تھا جسم پہ ملتا کیسے

رفتہ رفتہ ہوئی سیراب تھی دل کی دھرتی
دیکھ پھر درد کا پودہ نہ نکلتا کیسے

طائرِ شوق تجھے حسرتِ پرواز بھی کیوں
تو کہ مانوس قفس سے تھا مچلتا کیسے

مرضِ محرومی کی کیا کرتے دوا آہوں سے
وقتِ آخر بھی یہ دل خوں نہ اگلتا کیسے

یہ مری ذات تھی یا ذرۂ بےنام و نشاں
ایک عقدہ تھا کسی اور پہ کھلتا کیسے

عینی الفاظ تھے نشتر تھے کہ انگارے تھے
ورنہ لاوہ ترے جذبوں کا ابلتا کیسے
 

الف عین

لائبریرین
اچھی کوشش ہے۔
یہ مرے ضبط کا آنسو تھا نکلتا کیسے
آبلہ روح پہ تھا جسم پہ ملتا کیسے
÷÷م زبر ل ت ا
یا
م زیر ل ت ا؟
زبر سے قافیہ درست، اور زیر سے مفہوم درست۔

رفتہ رفتہ ہوئی سیراب تھی دل کی دھرتی
دیکھ پھر درد کا پودہ نہ نکلتا کیسے
۔۔رواں نہیں۔ شاید یوں بہتر ہو
رفتہ رفتہ ہوئی سیراب مرے دل کی زمیں
پھر بھلا درد کا پودا۔۔۔

طائرِ شوق تجھے حسرتِ پرواز بھی کیوں
تو کہ مانوس قفس سے تھا مچلتا کیسے
۔۔ مچلتا کا قافیہ یہاں کچھ عجیب سا ہے مفہوم کے لحاظ سے

مرضِ محرومی کی کیا کرتے دوا آہوں سے
وقتِ آخر بھی یہ دل خوں نہ اگلتا کیسے
دردَ محرومی کہا جا سکتا ہے۔ مرض میں ’ر‘ پر ’زبر‘ ہے

یہ مری ذات تھی یا ذرۂ بےنام و نشاں
ایک عقدہ تھا کسی اور پہ کھلتا کیسے
÷÷واہ، بہت خوب اور درست

عینی الفاظ تھے نشتر تھے کہ انگارے تھے
ورنہ لاوہ ترے جذبوں کا ابلتا کیسے
درست
 

عینی مروت

محفلین
اچھی کوشش ہے۔
یہ مرے ضبط کا آنسو تھا نکلتا کیسے
آبلہ روح پہ تھا جسم پہ ملتا کیسے
÷÷م زبر ل ت ا
یا
م زیر ل ت ا؟
زبر سے قافیہ درست، اور زیر سے مفہوم درست۔
ملتا ۔۔۔م پر زیر کے ساتھ ہے یہاں
رفتہ رفتہ ہوئی سیراب تھی دل کی دھرتی
دیکھ پھر درد کا پودہ نہ نکلتا کیسے
۔۔رواں نہیں۔ شاید یوں بہتر ہو
رفتہ رفتہ ہوئی سیراب مرے دل کی زمیں
پھر بھلا درد کا پودا۔۔۔
چلیے اسے پھر بھلا کر دیتے ہیں
رفتہ رفتہ ہوئی سیراب تھی دل کی دھرتی
پھر بھلا درد کا پودا نہ نکلتا کیسے


طائرِ شوق تجھے حسرتِ پرواز بھی کیوں
تو کہ مانوس قفس سے تھا مچلتا کیسے
۔۔ مچلتا کا قافیہ یہاں کچھ عجیب سا ہے مفہوم کے لحاظ سے
ابتدائی دنوں کا کلام ہے استاد محترم، اسلیے کچھ الفاظ کا احسن طریقے سے استعمال نہیں ہو پایا
مرضِ محرومی کی کیا کرتے دوا آہوں سے
وقتِ آخر بھی یہ دل خوں نہ اگلتا کیسے
دردَ محرومی کہا جا سکتا ہے۔ مرض میں ’ر‘ پر ’زبر‘ ہے
بہت شکریہ رہنمائی کے لیے۔۔۔
دردِمحرومی کی کیا کرتے دوا آہوں سے
وقتِ آخر بھی یہ دل خوں نہ اگلتا کیسے


یہ مری ذات تھی یا ذرۂ بےنام و نشاں
ایک عقدہ تھا کسی اور پہ کھلتا کیسے
÷÷واہ، بہت خوب اور درست

بہت بہت شکریہ ،سلامت رہیں
 

شوکت پرویز

محفلین
اچھی کوشش ہے عینی مروت صاحبہ !
خاص طور پر جب کہ یہ بیتے دِنوں کی غزل ہے۔
جیسا کہ محترم انکل نے بھی بتایا، آپ کے اشعار میں قوافی کا کچھ مسئلہ ہے۔
۔۔۔
یہ مری ذات تھی یا ذرۂ بےنام و نشاں
ایک عقدہ تھا کسی اور پہ کھلتا کیسے
اس شعر میں بھی "ملتا" والے شعر کی سی صورت ہے۔
یعنی کَھلتا (زبر کے ساتھ) قافیہ درست لیکن مفہوم غلط
اور کُھلتا (پیش کے ساتھ) مفہوم درست لیکن قافیہ غلط
۔۔۔
اگر آپ مطلع میں کوئی ایک قافیہ (اصلی) الف والا لے آئیں تو یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ اُس صورت میں آپ کا حرفِ روی "الف" بن جائے گا اور مِلتا اور کُھلتا کا مسئلہ دور ہو جائے گا۔
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
شوکت بھائی نے درست فرمایا۔ قوافی میں دو باتوں کا اہتمام لازمی کیا جاتا ہے۔

1- حرفِ روی ( لفظ کا آخری و اصلی حرف)
2- توجیہ ( ماقبل روی حرف کی حرکت یعنی زیر زبر پیش وغیرہ)

نکلتا اور ملتا میں اصلی آخری حرف لام ہے باقی ردیف کا حصہ شمار ہونگے۔ یہاں قافیہ کرنے کے لیے لام کی پابندی لازم ہوگی جو کہ اوپر باندھے گئے قوافی میں بالکل ملحوظ رکھی گئی ہے۔

مفہوم کے مطابق
نکلتا اور ملتا میں ماقبل روی حروف کی حرکات کی اگر بات کریں تو نکَلتا میں لام سے پہلے ک مفتوح (یعنی اس پر زبر ہے) جبکہ دوسرا لفظ مِلتا استعمال ہوا ہے جس میں لام سے پہلے میم مکسور ہے (یعنی م کے نیچے زیر ہے) تو اب یہاں دونوں حرکات ایک جیسی نہیں اس لیے قوافی ٹھیک شمار نہ ہونگے۔
 
آخری تدوین:

عینی مروت

محفلین
اچھی کوشش ہے عینی مروت صاحبہ !
خاص طور پر جب کہ یہ بیتے دِنوں کی غزل ہے۔
جیسا کہ محترم انکل نے بھی بتایا، آپ کے اشعار میں قوافی کا کچھ مسئلہ ہے۔
۔۔۔
یہ مری ذات تھی یا ذرۂ بےنام و نشاں
ایک عقدہ تھا کسی اور پہ کھلتا کیسے
اس شعر میں بھی "ملتا" والے شعر کی سی صورت ہے۔
یعنی کَھلتا (زبر کے ساتھ) قافیہ درست لیکن مفہوم غلط
اور کُھلتا (پیش کے ساتھ) مفہوم درست لیکن قافیہ غلط
۔۔۔
اگر آپ مطلع میں کوئی ایک قافیہ (اصلی) الف والا لے آئیں تو یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ اُس صورت میں آپ کا حرفِ روی "الف" بن جائے گا اور مِلتا اور کُھلتا کا مسئلہ دور ہو جائے گا۔
شوکت بھائی نے درست فرمایا۔ قوافی میں دو باتوں کا اہتمام لازمی کیا جاتا ہے۔

1- حرفِ روی ( لفظ کا آخری و اصلی حرف)
2- توجیہ ( ماقبل روی حرف کی حرکت یعنی زیر زبر پیش وغیرہ)

نکلتا اور ملتا میں اصلی آخری حرف لام ہے باقی ردیف کا حصہ شمار ہونگے۔ یہاں قافیہ کرنے کے لیے لام کی پابندی لازم ہوگی جو کہ اوپر باندھے گئے قوافی میں بالکل ملحوظ رکھی گئی ہے۔

مفہوم کے مطابق
نکلتا اور ملتا میں ماقبل روی حروف کی حرکات کی اگر بات کریں تو نکَلتا میں لام سے پہلے ک مفتوح (یعنی اس پر زبر ہے) جبکہ دوسرا لفظ مِلتا استعمال ہوا ہے جس میں لام سے پہلے میم مکسور ہے (یعنی م کے نیچے زیر ہے) تو اب یہاں دونوں حرکات ایک جیسی نہیں اس لیے قوافی ٹھیک شمار نہ ہونگے۔

،اس پر کچھ روشنی تو استاد محترم ڈال چکے تھے اب مزید وضاحت بھی ہو گئی
اشعار کے قوافی پر معلوماتی تبصروں کے لیے بےحدددد ممنون ہوں شوکت پرویز اور ابن رضا صاحب

نظم زیادہ لکھتی ہوں اور غزل کہنے کی کوشش بہت کم کی ،کہ عروض کے اصولوں کی پابندی کرتے کرتےاور شعر موزوں کرنے کی کوشش میں بیان شدہ احساسات کا مفہوم یا الفاظ کی نشست و ترتیب بدلنی پڑتی ہےتو محسوس ہوتا ہے کہ جو کہنے کی کوشش کی، اسکا عمدہ انداز میں ابلاغ نہیں ہوا لیکن کیا کیجیے ۔۔۔۔۔بات غزل کی ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر، اپنی سمجھ کے مطابق ان اشعار کے مصرعۂ ثانی مع قوافی پر نظرِ ثانی ڈال لیتی ہوں

یہ مرے ضبط کا آنسو تھا نکلتا کیسے
روح تھی آبلہ پا جسم نہ جلتا کیسے

یہ مری ذات تھی یا ذرۂ بےنام و نشاں
عقدہ کھل کر کسی مفہوم میں ڈھلتا کیسے
 

عینی مروت

محفلین
روح پر آبلہ بهی تو نہیں ہوتا -
ہمم صحیح ۔۔۔اسے تخیل کی آنکھ سے دیکھا تھا جی اسلیے وجود پر نہ ملنے " جسم پہ ملتا کیسے" یعنی ظاہری طور پر نظر نہ آنے کا مضمون باندھا تھا ۔۔۔روح کے آبلہ پا ہونے اور جسم کو جلنے کا احساس ہونے تک تو ٹھیک ہے لیکن پگھلنے سے مبالغہ ذرا 'زیادہ' لگا اسلیے کہا حالانکہ بات دونوں صورتوں میں تخیل یا تصور سے ہی وابستہ ہے
 
Top