غزل۔یہ طے کرلو جو جیون کا سفر ہے: از نویدظفرکیانی

یہ طے کرلو جو جیون کا سفر ہے
پھر اس کے بعد اک لمبا سفر ہے

مرے پاؤں سے رستے بندھ گئے ہیں
سفر کے بعد بھی گویا سفر ہے

حسابِ آبلہ پائی تو کر لوں
ابھی کیا پوچھنا کیسا سفر ہے

شریکِ کارواں ہیں پھر بھی اپنا
غبارِ کارواں جیسا سفر ہے

رُکے تو دیکھنا مر جا ئیں گے ہم
ہماری زندگی گویا سفر ہے

ہمیں چلنا ہے رستہ ہو کہ نہ ہو
رگوں میں دوڑنے والا سفر ہے

لگامیں کون سے عنوان کی دوں
مری ہر سانس کا اپنا سفر ہے

ظفر اک سانحہ ہے تیزگامی
سفر جب الٹے قدموں کا سفر ہے


نویدظفرکیانی
 
Top