غزلِ مزیّن بہ تاریخِ ورودِ شاہزادہ سلطان اکبر بن اورنگزیب - میرزا محسن تأثیر تبریزی

حسان خان

لائبریرین
غزلِ مُزیّن به تاریخِ ورودِ شاه‌زاده سلطان اکبر بن اورنگ‌زیب که [به] منظرِ مبارکِ اشرف رسید [و] شرفِ استحسان پذیرفت

کؤنۆل‌لر مژده کیم عشرت نسیمی هنددن گلدی
معطّر اۏلدو ایران، نکهتِ مشکِ خُتن گلدی
گل و گل‌زار سؤیلر خیرِ مقدم، می گتۆر، ساقی
که هنگامِ نشاطِ بزم و عیش اۆچۆن انجمن گلدی
سلیمانِ زمان عهدینده ایران مصرِ عزّت‌دۆر
که کنعان‌دان داخی بیر یوسفِ گل‌پیرهن گلدی
شهنشاهِ جهان‌دان ائتسه تا کسبِ سعادت‌لر
یئنه گۆن بزمینه بیر آی یۆز بین شوق‌لن گلدی
بهارېن یاخشې چاغې بیر فرح اۆز قۏیدو ایرانه
زمانِ عشرتِ گل، موسمِ سیرِ چمن گلدی
سخن‌گو تا اۏلا آیینهٔ تختِ سلیمان‌دان
دیارِ هنددن بیر طوطیِ شکّرشکن گلدی
همایون تک سعادت‌مند و بارگهی بختاور
قېلا تا یئنگی‌دن تجدیدِ پیمانِ کُهن گلدی
شهنشاه پای‌تختینه اۏلا تا بیر گُهر آرتېق
اۆزۆب دریایِ عُمّانې عجب دُرِّ عدن گلدی
ایگیدلیک ائیله‌دین، ای چرخ، جوریندن قوجالمېشلار
که باشدان داخی وقتِ انتعاشِ جان و تن گلدی
ایشېقلېق قصدینه یعقوب تک یوسف جمالیندن
سرایِ جوردن بیر ساکنِ بیت‌الحزن گلدی
چو ملکِ هنددن اورنگ‌زیبین بختاور اۏغلو
قۏیوب اۆز غربته، الدن وئرۆب حُبّ‌الوطن گلدی
سۏروشدوم بو قِران تاریخینی تأثیردن، دئدی:
سلیمان شاهېن ایامنیده اکبر هنددن گلدی
۱۰۹۸ھ

(تأثیر تبریزی)

ترجمہ:
اے دلو! مُژدہ ہو، کہ ہند سے نسیمِ عشرت آ گئی؛ ایران معطؔر ہو گیا، نکہتِ مُشکِ خُتن آ گئی۔
گل و گلزار خیرِ مقدم کہہ رہے ہیں، اے ساقی! مے لے آؤ کہ نشاطِ بزم کا وقت اور عیش کے لیے انجمن آ گئی۔
سلیمانِ زماں کے عہد میں ایران مصرِ عزّت ہے، کہ کنعان سے دوبارہ ایک یوسفِ گُل پیرہن آیا ہے۔
بزمِ خورشید میں دوبارہ ایک ماہ رُخ بہ ہزار شوق آیا ہے تاکہ شہنشاہِ جہاں سے کسبِ سعادت کرے۔
بہار کے وقتِ خوب میں ایک فرح و شادمانی نے اپنا چہرہ ایران کی جانب کیا؛ زمانِ عشرتِ گُل اور موسمِ سیرِ چمن آ گیا۔
دیارِ ہند سے ایک طوطیِ شکّر شِکن آیا ہے تا وہ تختِ سلیمان کے آئینے سے (یا تختِ سلیمان کے آئینے کے بارے میں) سخن گو ہو سکے۔
پیمانِ کُہن کی از نو تجدید کرنے کے لیے ہمایوں جیسا سعادت مند اور عالی بارگاہ شہزادہ آیا ہے۔
بحرِ عُمّان کو تیر کر ایک عجب دُرِّ عدن آیا ہے تاکہ شہنشاہ کے پایتخت میں ایک گہر کا اضافہ ہو جائے۔
اے چرخ! جو اشخاص تمہارے ستم سے پِیر ہو گئے تھے اُنہیں تم نے جوان کر دیا، کہ جان و تن کے از سرِ نو خوب ہو جانے اور ایستادہ ہو جانے کا وقت آ گیا ہے۔
یعقوب کی مانند یوسف کے جمال سے روشنی حاصل کرنے کے مقصد سے سرائے جفا سے ایک ساکنِ بیت الحَزَن آیا ہے۔
جب مُلکِ ہند سے اورنگ زیب کا پسرِ بختاور غریب الوطنی کی جانب رخ کر کے اور حُبِّ وطن کو ترک کر کے آیا، تو میں نے تأثیر سے اِس قِران سعدَین کی تاریخ پوچھی۔ اُس نے کہا: 'سلیمان شاہ کے ایام میں ہند سے اکبر آ گیا'۔


غزل کا متن لاطینی رسم الخط میں:
Könüllər müjdə kim, işrət nəsimi Hinddən gəldi,
Müəttər oldu İran, nikhəti-müşki-Xütən gəldi.
Gülü gülzar söylər xeyri-məqdəm, mey gətür, saqi
Ki, həngami-nişati-bəzmü eyş üçün əncümən gəldi.
Süleymani-zəman əhdində İran Misri-izzətdür
Ki, Kənandan daxi bir Yusifi-gülpirhən gəldi.
Şəhənşahi-cəhandan etsə ta kəsbi-səadətlər,
Yenə gün bəzminə bir ay yüz bin şövqlən gəldi.
Baharın yaxşı çağı bir fərəh üz qoydu İranə,
Zəmani-işrəti-gül, mövsimi-seyri-çəmən gəldi.
Süxəngu ta ola ayineyi-təxti-Süleymandan,
Diyari-Hinddən bir tutiyi-şəkkərşekən gəldi.
Humayun tək səadətməndü bargəhi bəxtavər,
Qıla ta yengidən təcdidi-peymani-kühən gəldi.
Şəhənşəh-paytəxtinə ola ta bir gühər artıq,
Üzüb dəryayi-Ümmanı əcəb dürri-Ədən gəldi.
İgidlik eylədin, ey çərx, cövrindən qocalmışlar
Ki, başdan daxi vəqti-intiaşi-canü tən gəldi.
İşıqlıq qəsdinə Yəqub tək Yusif cəmalindən,
Sərayi-cövrdən bir sakini-beytül-həzən gəldi
Çü mülki-Hinddən Övrəngzibin bəxtəvər oğlu
Qoyub üz qürbətə, əldən verüb hübbül-vətən gəldi.
Soruşdum bu qiran tarixini Təsirdən, dedi:
Süleyman şahın əyyamində Əkbər Hinddən gəldi.
H.1098
 

حسان خان

لائبریرین
غزل کا متن باکو، جمہوریۂ آذربائجان سے ۲۰۱۱ء میں شائع ہونے والے کتاب 'تأثیر تبریزی: تۆرکجه شعرلری' سے اخذ کیا گیا ہے، لیکن متن میں چند اغلاط موجود ہیں۔ اگر کسی کتاب میں درست متن نظر آ گیا تو تصحیح کر دوں گا۔
که هنگامِ نشاطِ بزم و عیش اۆچۆن انجمن گلدی
Ki, həngami-nişati-bəzmü eyş üçün əncümən gəldi.
یہ مصرع وزن میں نہیں ہے۔
همایون تک سعادت‌مند و بارگهی بختاور
Humayun tək səadətməndü bargəhi bəxtavər,
یہ مصرع بھی وزن میں نہیں ہے۔
سلیمانِ زمان عهدینده ایران مصرِ عزّت‌دۆر
که کنعان‌دان داخی بیر یوسفِ گل‌پیرهن گلدی
سلیمانِ زماں کے عہد میں ایران مصرِ عزّت ہے، کہ کنعان سے دوبارہ ایک یوسفِ گُل پیرہن آیا ہے۔
Süleymani-zəman əhdində İran Misri-izzətdür
Ki, Kənandan daxi bir Yusifi-gülpirhən gəldi
'مِصر' کا ایک معنی 'شہر' یا 'شہرِ جامع و بزرگ' بھی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مغل پادشاہ اورنگزیبِ عالمگیر کے پسر شاہزادہ سلطان محمد اکبر نے پدر کے خلاف بغاوت کر دی تھی، جس میں ناکام ہو جانے کے بعد وہ ایران چلا گیا تھا اور وہیں اُس کا انتقال ہوا تھا۔ مندرجۂ بالا تُرکی غزل اکبر بن اورنگزیب کے سلطان سلیمان صفوی کے دربار میں ورود کے موقع پر کہی گئی تھی۔ میرزا محسن تأثیر تبریزی بنیادی طور پر فارسی زبان میں شعر کہتے تھے، اور یہ چیز بھی حتمی ہے کہ شاہزادہ فارسی زبان کو روانی سے بولتا اور سمجھتا ہو گا۔ پھر تُرکی میں غزل کس لیے کہی گئی؟ کیا مغل شاہزادہ اپنے اجداد کی زبان تُرکی بھی سمجھتا تھا؟ واللہ اعلم۔ ایک جگہ خوان (پڑھ) چکا ہوں کہ شاہجہاں کو اُس کے اتالیق نے تُرکی زبان سکھائی تھی، لیکن مجھے یہ نہیں معلوم کہ اورنگزیب کے زمانے تک شاہی خاندان میں تُرکی زبان موجود تھی یا نہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شاہجہاں اور اورنگزیب کے زمانے میں مغل دیار میں زندگی بسر کرنے والے اطالوی سیّاح نیکولاؤ منوچی نے اپنی کتاب 'تاریخِ مغلیہ: جلدِ دوم' میں لکھا ہے کہ مغل شاہزادے جب پانچ سال کے ہو جاتے تھے تو اُنہیں اُن کی آبائی زبان تُرکی سکھائی جاتی تھی:
"جب یہ خُرد سال شاہزادے، جن کے بارے میں مَیں نے اوپر لکھا ہے، پانچ سال کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو اُنہیں آبائی زبان تاتار (یعنی تُرکوں کی قدیم زبان) میں خواننا اور لکھنا سکھایا جاتا ہے۔"

یعنی یہ گمان کرنا درست ہے کہ شاہزادہ محمد اکبر کو بھی تُرکی زبان آتی ہو گی۔
 
Top