غزلِ ظہیرکاشمیری - "ساغراُچھل رہے تھے جدھر دیکھتے رہے"

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
ظہیرکاشمیری

ساغراُچھل رہے تھے جدھر دیکھتے رہے
ہر شے میں اُن کا حُسنِ نظر دیکھتے رہے

گلشن کو ہم برنگِ دِگر دیکھتے رہے
ہر گام پر خزاں کا خطر دیکھتے رہے

ہم نے تو کروَٹوں میں جوانی گزار دی
حسرت سے بزمِ غیر کا در دیکھتے رہے

وہ جُنبش نقاب کا منظر نہ پوچھئے
کیا دیکھنا تھا، اپنا جگر دیکھتے رہے

وہ بار بار دل میں جلاتے رہے چراغ
ہم سرجُھکائے شمعِ سحر دیکھتے رہے

محسوس ہورہا تھا کوئی سلسلہ ظہیر
پہروں زمین و راہ گزردیکھتے رہے

ظہیرکاشمیری
 
Top