غبار خاطر خط نمبر 14

ابوشامل

محفلین
[FONT=&quot]قلعۂ احمد نگر[/FONT]
[FONT=&quot]5[/FONT][FONT=&quot] دسمبر [/FONT][FONT=&quot]1942[/FONT][FONT=&quot]ء [/FONT]
[FONT=&quot]صدیق مکرم[/FONT]
[FONT=&quot]پانچویں صلیبی حملہ کی سرگزشت ایک فرانسیسی مجاہد "[/FONT][FONT=&quot]Crusader[/FONT][FONT=&quot]' ژے آن دو ژواین ویل([/FONT][FONT=&quot]Jean De Jain Ville[/FONT][FONT=&quot]) نامی نے بطور یادداشت کے قلم بند کی ہے۔ اس کے کئی انگریزی ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔ زیادہ متداول نسخہ ایوری مینس لائبریری کا ہے۔[/FONT]
[FONT=&quot]پانچواں صلیبی حملہ سینٹ لوئس ([/FONT][FONT=&quot]Lewis[/FONT][FONT=&quot]) شاہ فرانس نے براہ راست مصر پر کیا تھا۔ دمیاط ([/FONT][FONT=&quot]Demietta[/FONT][FONT=&quot]) کا عارضی قبضہ، قاہرہ کی طرف اقدام، ساحل نیل کی لڑائی، صلیبیوں کی شکست، خود سینٹ لوئس کی گرفتاری اور زرِ فدیہ کے معاہدہ پر رہائی، تاریخ کے مشہور واقعات ہیں، اور عرب مؤرخوں نے ان کی تمام تفصیلات قلم بند کی ہیں۔ لوئس رہائی کے بعد عکہ ([/FONT][FONT=&quot]Acre[/FONT][FONT=&quot]) آیا جو چند دوسرے ساحلی مقامات کے ساتھ صلیبیوں کے قبضہ میں باقی رہ گیا تھا، اور کئی سال وہاں مقیم رہا۔ ژواین ویل نے یہ تمام زمانہ لوئس کی ہمراہی میں بسر کیا۔ مصر اور عکہ کے تمام اہم واقعات اس کے چشم دید واقعات ہیں۔ [/FONT]
[FONT=&quot]لوئس [/FONT][FONT=&quot]1248[/FONT][FONT=&quot]ء میں فرانس سے روانہ ہوا۔ دوسرے سال دمیاط پہنچا۔ تیسرے سال عکہ، پھر [/FONT][FONT=&quot]1254[/FONT][FONT=&quot]ء میں فرانس واپس ہوا۔ یہ سنین اگر ہجری سنین سے مطابق کیے جائیں تو تقریبا [/FONT][FONT=&quot]646[/FONT][FONT=&quot]ھ اور [/FONT][FONT=&quot]656[/FONT][FONT=&quot]ھ ہوتے ہیں۔ [/FONT]
[FONT=&quot]ژواین ویل جب لوئس کے ہمراہ فرانس سے روانہ ہوا تو اس کی عمر چوبیس برس کی تھی۔ لیکن یہ یادداشت اس نے بہت عرصہ کے بعد اپنی زندگی کے آخری سالوں میں لکھی۔ یعنے [/FONT][FONT=&quot]1309[/FONT][FONT=&quot]ء ([/FONT][FONT=&quot]708[/FONT][FONT=&quot]ھ) میں۔ جب اس کی عمر خود اس کی تصریح کے مطابق پچاسی برس کی ہو چکی تھی، اور صلیبی حملہ کے واقعات پر نصف صدی کی مدت گذر چکی تھی، اس طرح کوئی تصریح موجود نہیں جس کی بنا پر خیال کیا جا سکے کہ مصر اور فلسطین کے قیام کے زمانہ میں وہ اہم واقعات قلم بند کر لیا کرتا تھا۔ پس جو کچھ اس نے لکھا ہے، وہ پچاس برس پیشتر کے حوادث کی ایک ایسی روایت ہے، جو اس کے حافظہ نے محفوظ کر لی تھی، با ایں ہمہ اس کے بیانات جہاں تک واقعات جنگ کا تعلق ہے، عام طور پر قابلِ وثوق تسلیم کیے گئے ہیں۔ [/FONT]
[FONT=&quot]مسلمانوں کے دینی عقاید و اعمال اور اخلاق و عادات کی نسبت اس کی معلومات ازمنۂ وسطی کی عام فرنگی معلومات سے چنداں مختلف نہیں۔ تاہم درجہ کا فرق ضرور ہے چونکہ اب یورپ اور مشرق وسط[/FONT][FONT=&quot]یٰ[/FONT][FONT=&quot] کے باہمی تعلقات جو صلیبی لڑائیوں کے سائے میں نشوونما پائے رہے تھے۔ تقریبا ڈیڑھ سو برس کا زمانہ گذر چکا تھا، اور فلسطین کے نو آباد صلیبی مجاہد اب مسلمانوں کو زیادہ قریب ہو کر دیکھنے لگے تھے، اس لیے قدرتی طور پر ژو این ویل کے ذہنی تاثرات کی نوعیت سے مختلف دکھائی دیتی ہے جو ابتدائی عہد کے صلیبیوں کے رہ چکے ہیں، مسلمان کافر ہیں، ہیدین ([/FONT][FONT=&quot]Heathen[/FONT][FONT=&quot]) ہیں، پے نیم ([/FONT][FONT=&quot]Paynim[/FONT][FONT=&quot]) ہیں، پے گن ([/FONT][FONT=&quot]Pagan[/FONT][FONT=&quot]) ہیں، مسیح کے دشمن ہیں۔ تاہم کچھ اچھی باتیں بھی انکی نسبت خیال میں لائی جا سکتی ہیں اور ان کے طور طریقہ میں تمام باتیں بری نہیں ہیں۔ مصری حکومت اور اس کے ملکی اور فوجی نظام کے بارے میں اس نے جو کچھ لکھا ہے وہ ستر فیصد کے قریب صحیح ہے۔ لیکن مسلمانوں کے دینی عقاید و اعمال کے بیانات میں پچیس فیصد سے زیادہ صحت نہیں۔ پہلی معلومات غالباً اس کی ذاتی ہیں، اس لیے صحت سے قریب تر ہیں۔ دوسری معلومات زیادہ تر فلسطین کے کلیسائی حلقوں سے حاصل کی گئی ہیں، اس لیے تعصّب و نفرت پر مبنی ہیں۔ اس عہد کی عام فضا دیکھتے ہوئے یہ صورتِ حال چنداں تعجّب انگیز نہیں۔ [/FONT]
[FONT=&quot]ایک عرصہ کے بعد مجھے اس کتاب کے دیکھنے کا یہاں پھر اتفاق ہوا۔ ایک رفیقِ زنداں نے ایوری مینس لائبریری کی کچھ کتابیں منگوائی تھیں، ان میں یہ بھی آ گئی۔ اس سلسلہ میں دو خصوصیت کے ساتھ قابل غور ہیں۔ [/FONT]
[FONT=&quot]قیام عکہ کے زمانے میں لوئس نے ایک سفیر سلطانِ دمشق کے پاس بھیجا تھا جس کے ساتھ ایک شخص ایوے لا برتیاں ([/FONT][FONT=&quot]Yevo La Bretan[/FONT][FONT=&quot]) بطور مترجم ساتھ گیا تھا۔ یہ شخص مسیحی واعظوں کے ایک حلقہ سے تعلق رکھتا تھا اور "مسلمانوں کی زبان" سے واقف تھا۔ "مسلمانوں کی زبان" سے مقصود یقیناً عربی ہے۔ ژو این ویل اس سفارت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:[/FONT]
[FONT=&quot]“جب سفیر اپنی قیام گاہ سے سلدان (سلطان) کے محل کی طرف جا رہا تھا تو لا برتیاں کو راستہ میں ایک مسلمان بڑھیا عورت ملی۔ اس کے داہنے ہاتھ میں ایک برتن آگ کا تھا بائیں ہاتھ میں پانی کی صراحی تھی۔ لا برتیاں نے اس عورت سے پوچھا "یہ چیزیں کیوں اور کہاں لے جا رہی ہو؟" عورت نے کہا "میں چاہتی ہوں اِس آگ سے جنت کو جلا دوں اور پانی سے جہنم کی آگ بجھا دوں تاکہ پھر دونوں کا نام و نشان باقی نہ رہے" لا برتیاں نے کہاکہ "تم ایسا کیوں کرنا چاہتی ہو؟" اس نے جواب دیا "اس لیے کہ کسی انسان کے لیے اس کا موقعہ باقی نہ رہے کہ جنت کے لالچ اور جہنم کے ڈر سے نیک کام کرے۔ پھر وہ جو کچھ کرے گا صرف خدا کی محبت کے لیے کریگا۔" ([/FONT][FONT=&quot]Memoires[/FONT][FONT=&quot] of The Crusades: 240[/FONT][FONT=&quot]) [/FONT]
[FONT=&quot]اس روایت کا ایک عجیب پہلو یہ ہے کہ بجنسٖہ یہی عمل اور یہی قول حضرت رابعہ بصریہ سے منقول ہے۔ اِس وقت کتابیں یہاں موجود نہیں، لیکن حافظہ کی مدد لے کر یہ کہہ سکتا ہوں کہ قُشیری، ابو طالب مکی، فرید الدین عطار، صاحب عرائس المجالس، صاحبِ روح البیان اور شعرانی، سب سے یہ مقولہ نقل کیا ہے اور اسے رابعہ بصریہ کے فضائلِ مقامات میں سے قرار دیا ہے۔[/FONT]
[FONT=&quot]رابعہ بصریہ پہلے طبقہ کی کبارِ صُوفیہ میں شمارکی گئی ہیں۔ دوسری صدی ہجری یعنے آٹھویں صدی مسیحی میں ان کا انتقال ہوا۔ اُن کے حالات میں سب لکھتے ہیں کہ ایک دن اِس عالم میں گھر سے نکلیں کہ ایک ہاتھ میں آگ کا برتن تھا دوسرے میں پانی کا کوزہ۔ لوگوں نے پوچھا کہاں جا رہی ہو، جواب میں بجنسٖہ وہی بات کہی جو لا برتیاں نے دمشق کی عورت کی زبانی نقل کی ہے۔ "آگ سے جنت کو جلا دینا چاہتی ہوں، پانی سے دوزخ کی آگ بجھا دینی چاہتی ہوں تاکہ دونوں ختم ہو جائیں اور پھر لوگ عبادت صرف خدا کے لیے کریں۔ جنت اور دوزخ کے طمع و خوف سے نہ کریں۔" قدرتی طور پر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسری صدی ہجری کی رابعہ بصریہ کا مقولہ کس طرح ساتویں صدی ہجری کی ایک عورت کی زبان پر طاری ہو گیا جو دمشق کی سڑک سے گزر رہی تھی؟ یہ کیا بات ہے کہ تعبیرِ معارف کی ایک خاص تمثیل (پارٹ) جو پانچ سو برس پہلے بصرہ کے ایک کُوچہ میں دکھائی گئی تھی بعینٖہ اب دمشق کی ایک شاہراہ پر دہرائی جا رہی ہے؟ کیا یہ محض افکار و احوال کا تَوَارد ہے، یا تکرار اور نقالی ہے؟ یا پھر راوی کی ایک افسانہ تراشی؟[/FONT]
[FONT=&quot]ہر توجیہ کے لیے قرائن موجود ہیں اور معاملہ مختلف بھیسوں میں سامنے آتا ہے ([/FONT][FONT=&quot]1[/FONT][FONT=&quot]) یہ وہ زمانہ تھا جب صلیبی جماعتوں کی قوت فلسطین میں پاش پاش ہو چکی تھی، ساحل کی ایک چھوٹی سی دھجی کے سوا ان کے قبضہ میں اور کچھ باقی نہیں رہا تھا اور وہاں بھی امن اور چین کی زندگی بسر نہیں کر سکتے تھے۔ رات دن کے لگاتار حملوں اور محاصروں سے پامال ہوتے رہتے تھے۔ لوئس اُن کی اعانت کے لیے آیا لیکن وہ خُود اعانت کا محتاج ہو گیا۔ جنگی قوت کے افلاس سے کہیں زیادہ ان کا اخلاقی افلاس اُنہیں تباہ کر رہا تھا۔ ابتدائی عہد کا مجنونانہ مذہبی جوش و خروش جو تمام یورپ کو بہا لے گیا تھا، اب ٹھنڈا پڑ چکا تھا اور اب اس کی جگہ ذاتی خود غرضیاں اور صلیبی حلقہ بندیوں کی باہمی رقابتیں کام کرنے لگی تھیں، پے در پے شکستوں اور ناکامیوں سے جب ہمتیں پست ہوئیں۔ تو اصل مقصد کی کشش بھی کمزور پڑ گئی اور بدعملیوں اور ہوس رانیوں کا بازار گرم ہو گیا۔ مذہبی پیشواؤں کی حالت امراء اور عوام سے بھی بدتر تھی۔ دینداری کے اخلاص کی جگہ ریاکاری اور نمائش ان کا سرمایۂ پیشوائی تھا۔ ایسے افراد بہت کم تھے جو واقعی مخلص اور پاک عمل ہوں۔ [/FONT]
[FONT=&quot]جب اُس عہد کے مسلمانوں کی زندگی سے اِس صورت حال کا مقابلہ کیا جاتا تھا تو مسیحی زندگی کی مذہبی اور اخلاقی پستی اور زیادہ نمایاں ہونے لگتی تھی۔ مسلمان اب صلیبیوں کے ہمسایہ میں تھے اور التوائے جنگ کے بڑے بڑے وقفوں نے باہمی میل جول کے دروازے دونوں پر کھول دیئے تھے۔ صلیبیوں میں جو لوگ پڑھے لکھے تھے ان میں سے بعض نے شامی عیسائیوں کی مدد سے مسلمانوں کی زبان سیکھ لی تھی اور ان کے مذہبی اور اخلاقی افکار و عقاید سے واقفیت پیدا کرنے لگے تھے۔ کلیسائی واعظوں کے جو حلقے یہاں کام کر رہے تھے اُن میں بھی بعض متجسس طبیعتیں ایسی پیدا ہو گئی تھی جو مسلمان عالموں اور صوفیوں سے ملتیں اور دینی اور اخلاقی مسائل پر مذاکرے کرتیں۔ اِس عہد کے متعدد عالموں اور صوفیوں کے حالات میں ایسی تصریحات ملتی ہیں کہ صلیبی قسیس و رُہبان ان کے پاس آئے اور باہمدگر سوال و جواب ہوئے۔ بعض مسلمان علماء جو صلیبیوں کے ہاتھ گرفتار ہو گئے تھے، عرصہ تک اُن میں رہے اور ان کے مذہبی پیشواؤں سے مذہبی مباحث کئے۔ شیخ سعدی شیرازی کو اسی عہد میں صلیبیوں نے گرفتار کر لیا تھا، اور اُنہیں عرصہ تک طرابلس میں گرفتاری کے دن کاٹنے پڑے تھے۔[/FONT]
[FONT=&quot]اس صورتِ حال کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ صلیبیوں میں جو لوگ مخلص اور اثر پذیر طبیعتیں رکھتے تھے وہ اپنے گروہ کی حالت کا مسلمانوں کی حالت سے مقابلہ کرتے۔ وہ مسلمانوں کا مذہبی اور اخلاقی تفوق دکھا کر عیسائیوں کو غیرت دلاتے کہ اپنی نفس پرستیوں اور بدعملیوں سے باز آئیں اور مسلمانوں کی دیندارانہ زندگی سے عبرت پکڑیں۔ چنانچہ خود ژو این ویل کی سرگزشت میں جا بجا اِس ذہنی انفعال کی جھلک اُبھرتی رہتی ہے۔ متعدد مقام ایسے ملتے ہیں جہاں وہ مسلمانوں کی زبانی اس طرح کے اقوال نقل کرتا ہے جس سے عیسائیوں کے لیے عبرت اور تنبُہ کا پہلو نکلتا ہے۔ اِسی دمشق کی سفارت کے سلسلہ میں اس نے جان دی آرمینین ([/FONT][FONT=&quot]John the Armenian[/FONT][FONT=&quot]) کے سفرِ دمشق کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ یہ شخص دمشق اس لیے گیا تھا کہ کمانیں بنانے کے لیے سینگ اور سریش خریدے۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے دمشق میں ایک عمر رسیدہ مسلمان ملا جس نے میری وضع قطع دیکھ کر پوچھا "کیا تم مسیحی ہو؟" میں نے کہا ہاں۔ مسلمان شیخ نے کہا "تم مسیحی آپس میں ایک دوسرے سے اب زیادہ نفرت کرنے لگے ہو اسی لیے ذلیل و خوار ہو رہے ہو۔ ایک زمانہ وہ تھا جب میں یروشلم کے صلیبی بادشاہ بالڈوین ([/FONT][FONT=&quot]Baldwin[/FONT][FONT=&quot]) کو دیکھا تھا۔ وہ کوڑھی تھا اور اس کے ساتھ مسلح آدمی صرف تین سو تھے۔ پھر بھی اس نے اپنے جوش و ہمت سے سالادین (صلاح الدین) کو پریشان کر دیا تھا۔ لیکن اب تم اپنے گناہوں کی بدولت اِتنے گِر چکے ہو کہ ہم جنگلی جانوروں کی طرح تمہیں رات دن شکار کرتے رہتے ہیں۔"[/FONT]
[FONT=&quot]پس ممکن ہے کہ لا برتیاں ایسے ہی لوگوں میں سے ہو جنہیں مسلمان صوفیوں کے اعمال و اقوال سے یک گونہ واقفیت حاصل ہو گئی ہو، اور وہ وقت کے ہر معاملہ کو عیسائیوں کی عبرت پذیری کے لیے کام میں لانا چاہتا ہو۔ لا برتیاں کی نسبت ہمیں بتایا گیا ہے کہ مسیحی واعظوں کے حلقہ سے وابستگی رکھتا تھا اور عربی زبان سے واقف تھا۔ کچھ بعید نہیں کہ اُسے اُن خیالات سے واقفیت کا موقع ملا ہو جو اُس عہد کے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں عام طور پر پائے جاتے تھے۔ چونکہ رابعۂ بصریہ کا یہ مقولہ عام طور پر مشہور تھا اور مسلمانوں کے میل جول سے اُس کے علم میں آ چکا تھا، اس لیے سفرِ دمشق کے موقعہ سے فائدہ اٹھا کر اس نے ایک عبرت انگیز کہانی گھڑ لی۔ مقصود یہ تھا کہ عیسائیوں کو دین کے اخلاصِ عمل کی ترغیب دلائی جائے اور دکھایا جائے کہ مسلمانوں میں ایک بڑھیا عورت کے اخلاصِ عمل کا جو درجہ ہے، وہ اُس تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ [/FONT]
[FONT=&quot]یہ بھی ممکن ہے کہ خود ژو این ویل کے علم میں یہ مقولہ آیا ہو اور اس نے لا برتیاں کی طرف منسوب کر کے اسے دمشق کے ایک بروقت واقعہ کی شکل دے دی ہو۔ [/FONT]
[FONT=&quot]ہمیں معلوم ہے کہ انیسویں صدی کے نقادوں نے ژو این ویل کو صلیبی عہد کا ایک ثقہ راوی قرار دیا ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ وہ بظاہر ایک دیندار اور مخلص مسیحی تھا، جیسا کہ اس کی تحریر سے جا بجا مترشح ہوتا ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ ایک دیندار راوی میں دینی و اخلاقی اغراض سے مفید مقصد روایتیں گھڑنے کی استعداد نہ رہی ہو۔ فن روایت کی گہرائیوں کا کچھ عجیب حال ہے۔ نیک سے نیک انسان بھی بعض اوقات جعل و صناعت کے تقاضوں سے اپنی نگرانی نہیں کر سکتے۔ وہ اس دھوکے میں پڑ جاتے ہیں کہ اگر کسی نیک مقصد کے لیے ایک مصلحت آمیز جعلی روایت گھڑ لی جائے تو کوئی برائی کی بات نہیں۔ مسیحی مذہب کے ابتدائی عہدوں میں جن لوگوں نے حواریوں کی نام سے طرح طرح کے نوشتے گھڑے تھے اور جنہیں آگے چل کر کلیسا نے غیر معروف و مدفون ([/FONT][FONT=&quot]Apocrypha[/FONT][FONT=&quot]) نوشتوں میں شمار کیا، وہ یقینا بڑے ہی دیندار اور مقدس آدمی تھے۔ تاہم یہ دینداری انہیں اس بات سے نہ روک سکی کہ حواریوں کے نام سے جعلی نوشتے تیار کر لیں۔ [/FONT]
[FONT=&quot]تاریخ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں جن لوگوں نے بے شمار جھوٹی حدیثیں بنائیں، ان میں ایک گروہ دیندار واعظوں اور مقدس زاہدوں کا بھی تھا۔ وہ خیال کرتے تھے کہ لوگوں میں دینداری اور نیک عملی کا شوق پیدا کرنے کے لیے جھوٹی حدیثیں گھڑ کر سنانا کوئی برائی کی بات نہیں۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل کو کہنا پڑا کہ حدیث کے واعظوں میں سب سے زیادہ خطرناک گروہ ایسے ہی لوگوں کا ہے۔ [/FONT]
[FONT=&quot]اس سلسلہ میں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ یہ زمانہ یعنی ساتویں صدی ہجری کا زمانہ صوفیانہ افکار و اعمال کے شیوع و احاطہ کا زمانہ تھا۔ تمام عالم اسلامی خصوصاً بلاد مصر و شام میں وقت کی مذہبی زندگی کا عام رجحان تصوف اور تصوف آمیز خیالات کی طرف جا رہا تھا۔ ہر جگہ کثرت کے ساتھ خانقاہیں بن گئی تھیں۔ اور عوام اور امراء دونوں کی عقیدت مندیاں انہیں حاصل تھیں، تصوف کی اکثر متداول مصنفات تقریبا اسی صدی اور اس کے بعد کی صدی میں مدون ہوئیں۔ حافظ ذہبی جنہوں نے اس زمانہ سے ساٹھ ستر برس بعد اپنی مشہور تاریخ لکھی ہے۔ لکھتے ہیں کہ اس عہد کےتما م لوگ اور امراء اسلام صوفیوں کے زیر اثر تھے۔ مقریزی نے تاریخ مصر میں جن خانقاہوں کا حال لکھا ہے۔ ان کی بڑی تعداد تقریبات اسی عہد کی پیداوار ہے۔ ایسی حالت میں یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں کہ جن صلیبیوں کو مسلمانوں کے خیالات سے واقفیت حاصل کرنے کا موقعہ ملا ہو، وہ مسلمان صوفیوں کے اقوال پر مطلع ہو گئے ہوں کیونکہ وقت کا عام رنگ یہی تھا۔[/FONT]
[FONT=&quot]2: یہ بھی ممکن ہےکہ لابرتیاں ایسے لوگوں میں سے ہو جن میں افسانہ سرائی اور حکایت سازی کا ایک قدرتی تقاضا پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ بغیر کسی مقصد کے بھی محض سامعین کا ذوق و استعجاب حاصل کرنے کے لیے فرضی واقعات گھڑ لیا کرتے ہیں دنیا میں فن روایت کی آدھی غلط بیانیاں راویوں کے اسی جذبۂ داستاں سرائی سے پیدا ہوئیں۔ مسلمانوں میں وعاظ و قصاص کا گروہ یعنی واعظوں اور قصہ گویوں کا گروہ محض سامعین کے استعجاب و توجہ کی تحریک کے لیے سیکڑوں روایتیں برجستہ گھڑ لیا کرتا تھا اور پھر وہی روایتیں قید کتابت میں آ کر ایک طرح کے نیم تاریخی مواد کی نوعیت پیدا کر لیتی تھیں۔ ملا معین واعظ کاشفی وغیرہ کی مصنفات ایسے قصوں سے بھری ہوئی ہیں۔ [/FONT]
[FONT=&quot]3: یہ بھی ممکن ہے کہ واقعہ صحیح ہو، اور اس عہد میں ایک صوفی عورت موجود ہو جس نے رابعہ بصریہ والی بات بطور نقل و اتباع کے یا واقعی اپنے استغراق حاصل کی بنا پر دہرا دی ہے۔ [/FONT]
[FONT=&quot]افکار و احوال کے اشباہ و امثال ہمیشہ مختلف وقتوں اور مختلف شخصیتوں میں سر اٹھاتے رہتے ہیں اور فکر و نظر کے میدان سے کہیں زیادہ احوال و واردات کا میدان اپنی یک رنگیاں اور ہم آہنگیاں رکھتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ساتویں صدی کی ایک صاحب حال عورت کی زبان سے بھی اخلاق عمل اور عشق الہی کی وہی تعبیر نکل گئی ہو جو دوسری صدی کی رابعہ بصریہ کی زبان سے نکلی تھی۔ افسوس ہے کہ یہاں کتابیں موجود نہیں ہیں ورنہ ممکن تھا کہ اس عہد کے صوفیاء دمشق کے حالات میں کوئی سراغ مل جاتا۔ ساتویں صدی کا دمشق تصوف و اصحاب تصوف کا دمشق تھا۔[/FONT]
[FONT=&quot]یہ یاد رہے کہ تذکروں میں ایک رابعہ شامیہ کا بھی حال ملتا ہے۔اگر میرا حافظہ غلطی نہیں کرتا تو جامی نے بھی نفحات کے آخر میں ان کا ترجمہ لکھا ہے۔ لیکن ان کا عہد اس سےبہت پیشتر کا ہے۔ اس عہد کے شام میں ان کی موجودگی تصور میں نہیں لائی جا سکتی۔ [/FONT]
[FONT=&quot]4: آخری امکانی صورت جو سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس عہد میں کوئی نمائش پسند عورت تھی جو بطور نقالی کے صوفیوں کے پارٹ دکھایا کرتی تھی، اور وہ لابرتیاں سے دو چار ہو گغی۔ یا یہ سن کر کہ عکہ کی مسیحی سفارت آ رہی ہے قصداً اس کی راہ میں آ گئی۔ مگر یہ سب سے زیادہ بعید اور دور از قرائن صورت ہے جو ذہن میں آ سکتی ہے۔ [/FONT]
 

ابوشامل

محفلین
[FONT=&quot]ژو این ویل نے ایک دوسرا واقعہ "دی اولڈ مین آف دی ماؤنٹین" کی سفارت کا نقل کیا ہے۔ یعنے کوہستان الموت کے "شیخ الجبال" کی سفارت کا۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ "شیخ الجبال" کے لقب سے پہلے حسن بن صباح ملقب ہوا تھا پھر اس کا ہر جانشین اسی لقب سے پکارا جانے لگا۔ فرقہ باطنیہ کی دعوت کا یہ عجیب و غریب نظام تاریخ عالم کے غرائب حوادث میں سےہے۔ یہ بغیر کسی بڑی فوجی طاقت کے تقریباً ڈیڑھ سو برس تک قائم رہا اور مغربی ایشیا کی تمام طاقتوں کو اس کی ہولناکی کے آگے جھکنا پڑا۔ اس نے یہ اقتدار فوج اور مملکت کے ذریعہ حاصل نہیں کیا تھا۔ بلکہ صرف جانفروش فدائیوں کے بے پناہ قاتلانہ حملے تھے۔ جنہوں نے اسے ایک ناقابل تسخیر طاقت کی حیثیت دے دی تھی۔ وقت کا کوئی پادشاہ، کوئی وزیر، کوئی امیر، کوئی سر بر آوردہ انسان ایسا نہ تھا جس کے پاس اس کا پراسرار خنجر نہ پہنچ جاتا ہو۔ اس خنجر کا پہنچنا اس بات کی علامت تھی کہ اگر شیخ الجبال کی فرمائش کی تعمیل نہ کی جائے گی تو بلا تامل قتل کر دیے جاؤ گے۔ یہ فدائی تمام شہروں میں پھیلے ہوئے تھے وہ سائے کی طرح پیچھا کرتے اور آسیب کی طرح محفوظ سے محفوظ گوشوں میں پہنچ جاتے۔ [/FONT]
[FONT=&quot]صلیبی جنگ آزماؤں کا بھی ان سے سابقہ پڑا۔ کئی ٹمپلر ([/FONT][FONT=&quot]Templer[/FONT][FONT=&quot]) اور ہاسپٹلر ([/FONT][FONT=&quot]Hospitaller[/FONT][FONT=&quot]) فدائیوں کے خنجروں کا نشانہ بنے اور بالآخر مجبور ہو گغے کہ "شیخ الجبال" کی فرمائشوں کی تعمیل کریں۔ یروشلم (بیت المقدس) جب صلیبیوں نے فتح کیا تھا اور بالڈوین تخت نشین ہوا تھا تو اسے بھی ایک سالانہ رقم بطور نذر کے الموت بھیجنی پڑی تھی۔ فریڈرک ثانی جب 1229ء میں سلطان مصر کی اجازت لے کر یروشلم کی زیادت کے لیے آیا تو اس نے بھی اپنا ایک سفیر گرانقدر تحفوں کے ساتھ شیخ الجبال کے پاس بھیجا تھا۔ یورپ میں قلعہ الموت کے عجائب کی حکایتیں انہیں صلیبیوں کے ذریعہ پھیلیں جو بعد کی مصنفات میں ہمیں طرح طرح کے ناموں سے ملتی ہیں۔ انیسویں صدی کے بعض افسانہ نگاروں نے اسی مواد سے اپنے افسانوں کی نقش آرائیاں کیں اور بعض اس دھوکے میں پڑ گئے کہ شیخ الجبال سے مقصود کوہستان شام کا کوئی پراسرار شیخ تھا جس کا صدر مقام لبنان تھا۔[/FONT]
[FONT=&quot]ژو این ویل لکھتا ہے:[/FONT]
[FONT=&quot]"عکہ میں پادشاہ (لوئس) کے پاس کوہستان کے "اولڈ مین" کے ایلچی آئے۔ ایک امیر عمدہ لباس میں ملبوس آگے تھا اور ایک خوش پوش نوجوان اس کے پیچھے۔ نوجوان کی مٹھی میں تین چھریاں تھیں جن کے پھل ایک دوسرے کے دستے میں پیوست تھے۔ یہ چھریاں اس غرض سے تھیں کہ اگر پادشاہ امیر کی پیش کردہ تجویز منظور نہ کرے تو انہیں بطور مقابلہ کی علامت کے پیش کر دیا جائے۔ نوجوان کے پیچھے ایک دوسرا نوجوان تھا۔ اس کے بازو پر ایک چادر لپٹی ہوئی تھی۔ یہ اس غرض سے تھی کہ اگر پادشاہ سفارت کا مطالبہ منظور کرنے سے انکار کر دے تو یہ چادر اس کے کفن کے لیے پیش کر دی جائے (یعنی اسے متنبہ کر دیا جائے کہ اب اس کی موت ناگزیر ہے)"۔ [/FONT]
[FONT=&quot]امیر نے پادشاہ سے کہا "میرے آقا نے مجھے اِس لیے بھیجا ہے کہ میں آپ سے پوچھوں۔ آپ اِنہیں جانتے ہیں یا نہیں؟ پادشاہ نے کہا میں نے ان کا ذکر سنا ہے۔ امیر نے کہا پھر یہ کیا بات ہے کہ آپ نے اِس وقت تک انہیں اپنے خزانے کے بہترین تحفے نہیں بھیجے، جس طرح جرمنی کے شہنشاہ، ہنگری کے پادشاہ، "بابل" کے سُلدان (سلطان) اور دورے سلاطین انہیں سال بسال بھیجتے رہتے ہیں؟ ان تمام پادشاہوں کو اچھی طرح معلوُم ہے کہ ان کی زندگیاں میرے آقا کی مرضی پر موقوف ہیں۔ وہ جب چاہے، اِن کی زندگیوں کا خاتمہ کا دے سکتا ہے۔"[/FONT]
[FONT=&quot]اس مکالمہ میں شہنشاہِ جرمنی اور شاہِ ہنگری کے سال بسال تحائف و نذور کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے صرف ایک ہی مرتبہ اپنے زمانہ ورودِ فلسطین میں تحفے نہیں بھیجے تھے بلکہ ہر سال بھیجتے رہتے تھے۔ "سلدانِ بابلی" سے مقصود سلطانِ مصر ہے۔ کیونکہ صلیبی زمانے کے فرنگی عام طور پر قاہرہ کو "بابل" کے نام سے پکارتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ جس بابل کا ذکر کتبِ مقدسہ میں آیا ہے، وہ یہی شہر ہے۔ چنانچہ اس دَور کی تمام رزمیہ نظموں میں بار بار "بابل" کا نام آتا ہے۔ ایک صلیبی نائٹ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ کافروں کو رگیدتا ہوا ایسے مقام تک چلا گیا جہاں سے "بابل" کے سربفلک منارے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ [/FONT]
[FONT=&quot]اس کےبعد ژو این ویل لکھتا ہے کہ اُس زمانہ میں شیخ الجبال ٹمپل اور ہاسپٹل کو ایک سالانہ رقم بطورِ خراج کے دیا کرتا تھا کیونکہ ٹمپلر اور ہاسپٹلر اس کے قاتلانہ حملوں سے بالکل نڈر تھے اور وہ اِنہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔ شیخ الجبال کے سفیر نے کہا کہ "اگر پادشاہ میرے آقا کی فرمائش کی تعمیل نہیں کرنا چاہتا تو پھر یہی کرے کہ جو خراج ٹمپل کو ادا کیا جاتا ہے، اُس سے میرے آقا کو بری الذِّمہ کرا دے۔" پادشاہ نے یہ پورا معاملہ ٹمپلرس کے حوالے کر دیا۔ ٹمپلرس نے دوسرے دن سفیر کو بلایا اور کہا، تمہارے آقا نے بڑی غلطی کی ہے کہ اس طرح کا گستاخانہ پیغام پادشاہِ فرانس کو بھیجا۔اگر پادشاہ کے احترام سے ہم مجبور نہ ہوتے جس کی حفاظت تمہیں یہ حیثیت سفیر کے حاصل ہے۔ تو ہم تمہیں پکڑ کے سمندر کی موجوں کے حوالے کر دیتے۔ بہرحال اب ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ یہاں سے فوراً رخصت ہو جاؤ اور پھر پندرہ دن کے اندر الموت سے واپس آؤ۔ لیکن اس طرح واپس آؤ کہ ہمارے پادشاہ کے نام ایک دوستانہ خط اور قیمتی تحائف تمہارے ساتھ ہوں۔ اِس صورت میں پادشاہ تمہارے آقا سے خوشنود ہو جائے گا اور ہمیشہ کے لیے اِس کی دوستی تمہیں حاصل ہو ائے گی۔" چنانچہ سفیر اس حکم کی تعمیل میں فوراً رخصت ہو گئے اور ٹھیک پندرہ دن کے اندر شیخ کا دوستانہ خط اور قیمتی تحائف لے کر واپس ہوئے۔[/FONT]
[FONT=&quot]ژو این ویل کی روایت کا یہ حصہ محلِ نظر ہے اور عرب مؤرخوں کی تصریحات اس کا ساتھ نہیں دیتیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ صلیبی جماعتیں اپنے عروج و اقتدار کے زمانے میں مجبور ہوئی تھیں کہ اپنی جانوں کی سلامتی کے لیے شیخ الجبال کو نذرانے بھیجتی رہیں حتیٰ کہ فریڈرک ثانی نے بھی ضروری سمجھا تھا کہ اس طرح کی رسم و راہ قائم رکھے۔ پھر یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہیں آ سکتی کہ 1251ء میں جبکہ صلیبیوں کی تمام طاقت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور وہ فلسطین کے چند ساحلی مقامات میں ایک محصور و مقہور گروہ کی مایوس زندگی بسر کر رہے تھے، کیوں اچانک صورتِ حال منقلب ہو جائے اور شیخ الجبال ٹمپلروں سے خراج لینے کی جگہ خراج دینے پر مجبور ہو جائے؟ اِتنا ہی نہیں، بلکہ اِن تباہ حال ٹمپلروں سے اس درجہ خوف زدہ ہو کہ ان کے حاکمانہ احکام کی بلا چون و چرا تعمیل کر دے؟[/FONT]
[FONT=&quot]جو بات قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ٹمپلروں اور ہاسپٹلروں کے تعلقات شیخ الجبال سے قدیمی تھے، اور اس وابستگی کی وجہ سے ہر طرح کی ساز باز اس کے کارندوں کے ساتھ کرتے رہتے تھے۔ شیخ الجبال نے جب لوئس کی آمد کا حال سنا اور یہ بھی سنا کہ اس نے ایک گرانقدر فدیہ دے کر سلطانِ مصر کی قید سے رہائی حاصل کی ہے، تو حسبِ معمول اسے مرعوب کرنا چاہا اور اپنے سفیر قاتلانہ حملوں کے مرموز پیاموں کے ساتھ بھیجے۔ لوئس کے معلوم ہو چکا تھا کہ ٹمپلروں سے شیخ کے پرانے تعلقات ہیں۔ اُس نے معاملہ اُن کے سپرد کر دیا، اور انہوں سے بیچ میں پڑ کر دونوں کے درمیان دوستانہ علاقہ قائم کرا دیا۔ پھر طرفین سے تحائف ایک دوسرے کے بھیجے گئے اور دوستانہ خط و کتابت جاری ہو گئی۔ عرب مؤرخوں کی تصریحات سے بھی صورت حال کا ایک ایسا ہی نقشہ سامنے آتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ شیخ الجبال اور صلیبیوں کے باہمی تعلقات اس درجہ بڑھے ہوئے تھے کہ صلیبیوں نے کئی بار اس کے فدائیوں کے ذریعہ بعض سلاطینِ اسلام کو قتل کرانا چاہا۔ [/FONT]
[FONT=&quot]لیکن پھر ژو این ویل کے بیان کی کیا توجیہ کی جائے؟[/FONT]
[FONT=&quot]معاملہ دو حالتوں سے خالی نہیں۔ ممکن ہے کہ ٹمپلروں نے حقیقتِ حال مخفی رکھی ہو، اور شیخ الجبال کے طرزِ عمل کی تبدیلی کو اپنے فرضی اقتدار و تحکم کی طرف منسوب کر دیا ہو۔ اس لیے ژو این ویل پر اصلیت نہ کھل سکی اور جو کچھ اس نے سنا تھا، یادداشت میں لکھ دیا۔ یا پھر ماننا پڑے گا کہ خود ژو این ویل کی دینی اور قومی عصبیت بیان حقیقت میں حائل ہو گئی۔ اور اس نے صلیبیوں کا غیر معمولی تفوّق اور اقتدار دکھانے کے لیے اصل واقعہ کو یک قلم اُلٹ دیا۔ ژو این ویل نے صلیبیوں نے کی شکستوں کی سرگزشت جس بے لاگ صفائی کے ساتھ قلم بند کی ہے، اُسے پیشِ نظر رکھتے ہوئے غالباً قریب صواب پہلی ہی صُورت ہوگی۔ [/FONT]
[FONT=&quot]اس روایت کی کمزوری اِس بات سے بھی نکلتی ہے کہ ٹمپلروں کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ اُنہوں نے سفیروں سے کہا پندرہ دنوں کے اندر شیخ کا جواب لیکر واپس ہو۔ یعنی سات دِن جانے میں صَرف کرو سات دن واپس آنے میں۔ یہ ظاہر ہے کہ اس زمانے میں عکہ اور الموت کی باہمی مُسافت سات دن کے اندر طے نہیں کی جا سکتی تھی۔ مستوفی نے نزہۃ القلوب میں اُس عہد کی منزلوں کا جو نقشہ کھینچا ہے۔ اس سے ہمیں معلوم وہ چکا ہے کہ شمالی ایران کے قافلے بیت المقدس تک کی مسافت دو ماہ سے کم میں طے نہیں کر سکتے تھے۔ اور الموت تک پہنچنے کے لیے تو ایران سے بھی آگے کی مزید مُسافت طے کرنی پڑتی ہوگی۔ ہاں برید یعنی گھوڑوں کی ڈاک کے ذریعہ کم مدت میں آمدورفت ممکن ہوگی لیکن سفیروں کا برید کے ذریعہ سفر کرنا مستبعد معلوم ہوتا ہے۔[/FONT]
[FONT=&quot]ژو این ویل لکھتا ہے شیخ الجبال نے لوئس کو جو تحفے بھیجے تھے، ان میں بلور کا تراشا ہوا ایک ہاتھی اور ایک جی راف ([/FONT][FONT=&quot]Giraffe[/FONT][FONT=&quot]) یعنی زرافہ بھی تھا نیز بلور کے سیب اور شطرنج کے مہرے تھے۔ یہ اسی طرح کی بلوری مصنوعات ہوں گی جن کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ الموت کا باغِ بہشت اِن سے آراستہ کیا گیا تھا۔ بلوری مصنوعات مغربی ایشیا میں پہلے چین سے آتی تھیں۔ پھر عرب صنّاع بھی بنانے لگے تھے۔[/FONT]
[FONT=&quot]اس کے بعد اُس سفارت کا حال ملتا ہے جو لوئس نے شیخ الجبال کے پاس بھیجی تھی۔ اس سفارت میں بھی ہمارا پرانا دوست لا برتیاں بور مترجم کے نمایاں ہے اور اس کی زبانی شیخ کا ایک مکالمہ نقل کیا گیا ہے۔ لیکن پورا مکالمہ بعید از قیاس باتوں پر مبنی ہے اور قابلِ اعتنا نہیں۔ بعض حصے صریح بناوٹی معلوم ہوتے ہیں۔ یا سر تا سر غلط فہمیوں سے وجود پذیر ہوئے ہیں۔ مثلاً شیخ الجبال نے سینٹ پیٹر (پطرس) کی تقدیس کی اور کہا "ہابیل کی روح نوح میں آئی، نوح کے بعد ابراہیم میں، اور پھر ابراہیم سے پیٹر میں منتقل ہوئی۔ اس وقت جبکہ "خدا زمین پر نازل ہوا تھا" (یعنے حضرت مسیح کا ظہور ہوا تھا!)۔ [/FONT]
[FONT=&quot]ممکن ہے کہ شیخ نے یہ بات ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ حضرت مسیح کا منکر نہیں ہے یہ کہا ہو کہ وحی الٰہی کا ظہور پچھلے نبیوں میں ہوا تھا، اُسی کا ظہور حضرت مسیح میں ہوا اور لابرتیاں نے اِسے دوسرا رنگ دے دیا۔ [/FONT]
[FONT=&quot]ژو این ویل شیعہ سنی اختلاف سے واقف ہے،لیکن اُس کی تشریح یُوں کرتا ہے:[/FONT]
[FONT=&quot]"شیعہ محمد (ص) کی شریعت پر نہیں چلتے۔ علی کی شریعت پر چلتے ہیں۔ علی محمد (ص) کا چچا تھا۔ اسی نے محمد (ص) کو عزت کی مسند پر بٹھایا۔ لیکن جب محمد (ص) نے قوم کی سرداری حاصل کر لی تو اپنے چچا کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگا اور اس سے الگ ہو گیا۔ یہ حال دیکھ کر علی نے کوشش کی کہ جتنے آدمی اپنے گرد جمع کر سکتا ہے جمع کر لے اور پھر انہیں محمد (ص) کے دین کے علاوہ ایک دوسرے دین کی تعلیم دے۔ چنانچہ اِس اختلاف کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ اب علی کی شریعت پر عامل ہیں، وہ محمد (ص) کے ماننے والوں کو بے دین سمجھتے ہیں۔ اِسی طرح پیروانِ علی کو بے دین کہتے ہیں۔"[/FONT]
[FONT=&quot]پھر لکھتا ہے:[/FONT]
[FONT=&quot]"جب لابرتیاں شیخ الجبال کے پاس گیا تو اُسے معلوم ہوا کہ شیخ، محمد (ص) پر اعتقاد نہیں رکھتا۔ علی کی شریعت ماننے والا ہے۔"[/FONT]
[FONT=&quot]ژو این ویل کا یہ بیان تمام تر اُن خیالات سے ماخوذ ہے، جو اس عہد کے کلیسائی حلقوں میں عام طور پر پھیلے ہوئے تھے، اور پھر صدیوں تک یورپ میں نسلاً بعد نسل ان کی اشاعت ہوتی رہی۔ یہ بیانات کتنے ہی غلط ہوں، تاہم ان بیانات سے تو بہرحال غنیمت ہیں جو صلیبی حملہ کے ابتدائی دور میں ہر کلیسائی واعظ کی زبان پر تھے مثلاً یہ بیان کہ "موہامت" ([/FONT][FONT=&quot]Mohamet[/FONT][FONT=&quot]) ایک سونے کا خوفناک بت ہے جس کی مسلمان پوجا کرتے ہیں۔ چنانچہ فرانسیسی اور تلیانی (اٹالین) زبان کے قدیم ڈراموں میں ترواگاں ([/FONT][FONT=&quot]Tervagant[/FONT][FONT=&quot]) اور ([/FONT][FONT=&quot]Trivigante[/FONT][FONT=&quot]) کو مسلمانوں کے ایک ہولناک بت کی حیثیت سے پیش کیا جاتا تھا۔ یہی لفظ قدیم انگریزی میں آکر ٹروے گینٹ ([/FONT][FONT=&quot]Tervgant[/FONT][FONT=&quot]) بن گیا، اور اب ٹرمے گینٹ ([/FONT][FONT=&quot]Termagant[/FONT][FONT=&quot]) ایسی عورت کے لیے بولنے لگے ہیں جو وحشیانہ اور بے لگام مزاج رکھتی ہو۔[/FONT]
[FONT=&quot]ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ شیخ الجبال کون تھا؟ یہ زمانہ تقریباً 649ھ کا زمانہ تھا۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد تاتاریوں کی طاقت مغربی ایشیا میں پھیلی، اور انہوں نے ہمیشہ کے لیے اس پراسرار مرکز کا خاتمہ کردیا۔ پس غالباً یہ آخری شیخ الجبال خورشاہ ہوگا۔ یہاں کتابیں موجود نہیں اس لیے قطعی طور پر نہیں لکھ سکتا۔[/FONT]
[FONT=&quot]صلیبی جہاد نے ازمنہ وسطٰی کے یورپ کو مشرق وسطٰی کے دوش بدوش کھڑا کر دیا تھا۔ یورپ اُس عہد کے مسیحی دماغ کی نمائندگی کرتا تھا۔ مشرق وسطٰی مسلمانوں کے دماغ کی، اور دونوں کی متقابل حالت سے اِن کی متضاد نوعیتیں آشکارا ہو گئی تھیں۔ یورپ مذہب کے مجنونانہ جوش کا علم بردار تھا۔ مسلمان علم و دانش کے علمبردار تھے۔ یورپ دعاؤں کے ہتھیار سے لڑنا چاہتا تھا۔ مسلمان لوہے اور آگ کے ہتھیاروں سے لڑتے تھے۔ یورپ کا اعتماد صرف خدا کی مدد پر تھا۔ مسلمانوں کا خدا کی مدد پر بھی تھا۔ لیکن خدا کے پیدا کیے ہوئے سروسامان پر بھی تھا۔ ایک صرف روحانی قوتوں کا معتقد تھا۔ دوسرے نے نتائجِ عمل کے ظہور کا۔ معجزے ظاہر نہیں ہوئے، لیکن نتائجِ عمل نے ظاہر ہو کر فتح و شکست کا فیصلہ کر دیا۔ [/FONT]
[FONT=&quot]ژو این ویل کی سرگزشت میں بھی یہ تضاد تقابل ہر جگہ نمایاں ہے۔ جب مصری فوج نے منجنیقوں ([/FONT][FONT=&quot]Petrays[/FONT][FONT=&quot]) کے ذریعہ آگ کے بان پھینکنے شروع کیے تو فرانسیسی جن کے پاس پرانے دستی ہتھیاروں کے سوا کچھ نہ تھا، بالکل بے بس ہو گئے۔ ژو این ویل اس سلسلے میں لکھتا ہے: [/FONT]
[FONT=&quot]"ایک رات جب ہم ان برجیوں پر جو دریا کے راستے کی حفاظت کے لیے بنائی گئی تھیں، پہرہ دے رہے تھے، تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے ایک انجن جسے پٹریری (یعنی منجنیق) کہتے ہیں، لا کر نصب کر دیا اور اس سے ہم پر آگ پھینکنے لگے۔ یہ حال دیکھ کر میرے لارڈ والر نے جو ایک اچھا نائٹ تھا، ہمیں یوں مخاطب کیا"اس وقت ہماری زندگی کا سب سے بڑا خطرہ پیش آ گیا ہے۔ کیونکہ اگر ہم نے ان برجیوں کو نہ چھوڑا اور مسلمانوں نے اِن میں آگ لگا دی تو ہم بھی برجیوں کے ساتھ جل کر خاک ہو جائیں گے۔ لیکن اگر ہم برجیوں کو چھوڑ کر نکل جاتے ہیں تو پھر ہماری بے عزتی میں کوئی شبہ نہیں۔ کیونکہ ہم ان کی حفاظت پر مامور کیے گئے تھے۔ ایسی حالت میں خدا کے سوا کوئی نہیں جو ہمارا بچاؤ کر سکے۔ میرا مشورہ آپ سب لوگوں کو یہ ہے کہ جونہی مسلمان آگ کے بان چلائیں، ہمیں چاہیے کہ گھٹنے کے بل جھک جائیں اور اپنے نجات دہندہ خداوند سے دعا مانگیں کہ اس مصیبت میں ہماری مدد کرے۔ چنانچہ سب سے ایسا ہی کیا۔ جیسے ہی مسلمانوں کا پہلا بان چلا۔ ہم گھٹنوں کے بل جھک گئے اور دعا میں مشغول ہو گئے۔ یہ بات اتنے بڑے ہوتے تھے، جیسے شراب کے پیپے، اور آگ کا شعلہ جو اِن سے نکلتا تھا، اُس کی دُم اتنی لمبی ہوتی تھی جیسے ایک بہت بڑا نیزہ۔ جب یہ آتا تو ایسی آواز نکلتی جیسے بادل گرج رہے ہوں، اس کی شکل ایسی دکھائی دیتی جیسے ایک آتشیں اَژدہا ہوا میں اُڑ رہا ہو۔ اِس کی روشنی نہایت تیز تھی۔ چھاؤنی کے تمام حصے اس طرح اُجالے میں آ جاتے جیسے دِن نکل آیا ہو۔"[/FONT]
[FONT=&quot]اس کے بعد خود لوئس کی نسبت لکھتا ہے: [/FONT]
[FONT=&quot]"ہر مرتبہ جب بان چھوٹنے کی آواز ہمارا ولی صفت پادشاہ سنتا تھا، تو بستر سے اٹھ کھڑا ہوتا تھا اور روتے ہوئے ہاتھ اٹھا اٹھا کر نجات دہندہ سے التجائیں کرتا۔ مہربان مولیٰ! میرے آدمیوں کی حفاظت کر! میں یقین کرتا ہوں کہ ہمارے پادشاہ کی اِن دعاؤں نے ہمیں ضرور فائدہ پہنچایا۔"[/FONT]
[FONT=&quot]لیکن فائدہ کا یہ یقین خوش اعتقادانہ وہم سے زیادہ نہ تھا۔ کیونکہ بالآخر کوئی دُعا بھی سُودمند نہ ہوئی اور آگ کے بانوں نے تمام برجیوں کو جلا کر خاکستر کر دیا۔[/FONT]
[FONT=&quot]یہ حال تو تیرھویں صدی مسیحی کا تھا۔ لیکن چند صدیوں کے بعد جب پھر یورپ اور مشرق کا مقابلہ ہوا،تو اب صورت حال یکسر اُلٹ چکی تھی۔ اب بھی دونوں جماعتوں کے متضاد خصائص اسی طرح نمایاں تھے، جس طرح صلیبی جنگ کے عہد میں رہے تھے۔ لیکن اتنی تبدیلی کے ساتھ کہ جو دماغی جگہ پہلے یورپ کی تھی ، وہ اب مسلمانوں کی ہو گئی تھی اور جو جگہ مسلمانوں کی تھی، اسے اب یورپ نے اختیار کر لیا تھا۔[/FONT]
[FONT=&quot]اٹھارویں صدی کے اواخر میں جب نپولین نے مصر پر حملہ کیا تو مراد بک نے جامع ازہر کے علماء کو جمع کر کے ان سے مشورہ کیا تھا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ علماء ازہر نے بالاتفاق یہ رائے دی تھی کہ جامع ازہر میں صحیح بخاری کا ختم شروع کر دینا چاہیے کہ انجاحِ مقاصد کے لیے تیر بہدف ہے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا لیکن ابھی صحیح بخاری کا ختم، ختم نہیں ہوا تھا کہ اہرام کی لڑائی نے مصری حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ شیخ عبدالرحمن الجبرتی نے اس عہد کے چشم دید حالات بیان کیے ہیں اور بڑے ہی عبرت انگیز ہیں۔ انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصرہ کیا تھا تو امیرِ بخارا نے حکم دیا کہ تمام مدرسوں اور مسجدوں میں ختم خواجگان پڑھا جائے۔ اُدھر روسیوں کی قلعہ شکن توپیں شہر کا حصار منہدم کر رہی تھیں۔ اِدھر لوگ ختمِ خواجگان کے حلقوں میں بیٹھے، "یا مقلب القلوب یا محوّل الاحوال" کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ بالآخر وہی نتیجہ نکلا جو ایک ایسے مقابلہ کا نکلنا تھا۔ جس میں ایک طرف گولہ بارود ہو، دوسری طرف ختم خواجگان! [/FONT]
[FONT=&quot]دُعائیں ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں مگر اُنہی کو پہنچاتی ہیں جو عزم و ہمت رکھتے ہیں۔ بے ہمتوں کے لیے تو وہ ترکِ عمل اور تعطلِ قویٰ کا حیلہ بن جاتی ہیں۔[/FONT]
[FONT=&quot]ژواین ویل نے اس آتش فشانی کو "یونانی آگ" ([/FONT][FONT=&quot]greek fire[/FONT][FONT=&quot]) سے تعبیر کیا ہے اور اسی نام سے اس کی یورپ میں شہرت ہوئی۔ غالباً اس کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ جس مواد سے یہ آگ بھڑکتی تھی، وہ قسطنطنیہ میں صلیبیوں نے دیکھا تھا اور اس لیے اسے یونانی آگ سے پکارنے لگے تھے۔ [/FONT]
[FONT=&quot]آتش فشانی کے لیے روغنِ نفط یعنی مٹی کا تیل کام میں لایا جاتا تھا۔ مٹی کے تیل کا یہ پہلا استعمال ہے جو عربوں نے کیا۔ آذربائیجان کے تیل کے چشمے اُس زمانے میں بھی مشہور تھے۔ وہیں سے یہ تیل شام اور مصر میں لایا جاتا تھا۔ ابنِ فضل اللہ اور نویری نے اِس کے استعمال کا مفصل حال لکھا ہے۔ [/FONT]
[FONT=&quot]آتش فشانی کے لیے دو طرح کی مشینیں کام میں لائی جاتی تھیں۔ ایک تو منجنیق کی قسم کی تھی جو پتھروں کے پھینکنے کے لیے ایجاد ہوئی تھی۔ دوسری، ایک طرح کا آلہ کمان کی شکل کا تھا اور توپ کی بیڑیوں کی طرح زمین میں نصب کر دیا جاتا تھا۔ اس کی مار منجنیق سے بھی زیادہ دور تک پہنچتی تھی۔ ژو این ویل نے پہلے کو[/FONT][FONT=&quot]([/FONT][FONT=&quot]Petray[/FONT][FONT=&quot]) سے اور دوسرے کو ([/FONT][FONT=&quot]Swivel Crossbow[/FONT][FONT=&quot]) سے موسوم کیا ہے۔ 'منجنیق' کا لفظ اسی یونانی لفظ کی تعریب ہے جس سے انگریزی کا ([/FONT][FONT=&quot]Mechanic[/FONT][FONT=&quot]) فرانسیسی کا ([/FONT][FONT=&quot]Mechnicus[/FONT][FONT=&quot]) اور جرمن کا ([/FONT][FONT=&quot]Mechankus[/FONT][FONT=&quot]) نکلا ہے۔ یہ آلہ عربوں نے رومیوں اور ایرانیوں سے لیا تھا لیکن دوسرا خود عربوں کی ایجاد تھا۔ چنانچہ اسے عربی میں "مدفع" کہتے تھے۔ یعنی پھینکنے والا آلہ، یہی "مدفع" بعد کو توپ کے لیے بولا جانے لگا۔[/FONT]
[FONT=&quot]عربی میں مٹی کے تیل کے لیے "نفط" کا لفظ مستعمل ہوا، یہی "نفط" ہے جس نے یورپ کی زبانوں میں ([/FONT][FONT=&quot]Naphthlene – Naphtha[/FONT][FONT=&quot]) وغیرہ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ [/FONT]
[FONT=&quot]ابوالکلام[/FONT]​
 
Top