غامدی نے ناموس رسالت قانون کو خلاف اسلام قرار دے دیا

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ahsan_gold

محفلین
اسلام و علیکم --
بابا صاحب آپ یہ تو مانتے ہیں کہ مسلمانوں کی بدقسمتی سے بلعموم اور
پاکستانیوں کی بلخصوص حالت وہ ہی ہے مگر الفاظ کا استعمال مناسب نہیں تھا-
میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ھوں کہ الفاظ مناسب نہیں تھے-
 

ahsan_gold

محفلین
السلام علیکم !
میری اکثر فورمز پر احباب کہ ساتھ اس مسئلہ میں گفتگو رہی لہذا جن جن کو بھی میں نے اس قانون کہ مخالف پایا ان سب میں ایک قدر یہ مشترک پائی کہ اعتراض تو قانون توہین رسالت پر بحیثیت قانون کہ کرتے ہیں اور اسے غیر اسلامی قرار دیتے ہیں مگر دلائل دیتے وقت بجائے قرآن وسنت کہ محض اپنی مجرد عقل سے کام لیتے ہیں نیز قانون میں بجائے قرآن و سنت کہ حوالہ سے کسی سُقم کو بیان کرنے کہ اس قانون کی پاکستان کی تعزیراتی دفعات کہ تحت جو تاریخ ہے اسی کو ماخذ قانون گردانتے ہیں لہذا یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کا اعتراض و دعوٰی تو قانون توہین رسالت پر بحیثیت قانون کہ غیر اسلامی قانون ہونے کا ہے مگر جب دلائل کی باری آتی ہے تو ان لوگوں کا مبلغ علمی یہ ہے کہ تنفیذ قانون کو ہی اصل قانون سمجھتے ہوئے اس کا ناطہ ایک آمر سے بحیثیت ماخذ قانون کہ جوڑ دیتے ہیں اور یوں قرآں وسنت سے براہ راست اخذ کردہ خالصتا ایک اسلامی اور قدیم قانون کی کسی اسلامی ملک میں سن تنفی۔ذ کے اعتبار سے جدید حیثیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے غیر اسلامی قرار دے دیتے ہیں کوئی کہتا پھرتا ہے کہ یہ قانون ایک آمر نے نافذ کیا اس لیے واجب الاطاعت نہیں کوئی اپنی الگ ہانکتا ہے کہ پاکستان میں ایسے کیا سرخاب کہ پر لگے ہیں جو فقط یہاں یہ قانون نافذ و زیر بحث ہے ؟؟؟
اجی ہم ایک بات عرض کیئے دیتے ہیں کہ پاکستان میں اور کوئی سرخاب کہ پر لگے ہوں یا نہ لگے ہوں مگر ایک بات تو صاف ہے کہ یہاں پر ہر کسی کو بلکہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو فلاسفر بننے کا شوق ہے لہذا وہ کسی بھی دقیق سے دقیق تر بلکہ خالصتا علمی و قانونی و فقہی معاملات میں اپنی تانگ اڑانا تمام اہم فرائض سے بھی اہم گردانتا ہے سو یہی وجہ ہے یہاں پر یہ قانون بیچارہ بھی ہم سب کہ ہاتھوں درگت بنوا رہا ہے ۔ ۔ ۔خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ۔ ۔ ۔

اب ان حضرات کو کون سمجھائے کہ کسی بھی قانون کی تنفیذ اور کسی بھی قانون کا بطور قانون
اخذ و استنباط کیا جانا دو مختلف باتیں ہیں اگر ضیاء کہ دور میں ایک اچھا کام “ مرحلہ تنفیذ “ کو پہنچ چکا تو کیا ہم فقط اس وجہ سے اس اچھائی کا انکار کردیں گے کہ اسکی تنفیذ ایک آمر کہ دور میں ہوئی ؟؟؟
اگر یہی کرائیٹیریہ ہے تو پھر جس جس آمر نے جو جو اچھائیاں کسی بھی صورت میں کی ہیں ان سب کا بائیکاٹ کردو ۔ ۔
اوہ خدا کہ بندو یہ قانون براہ راست قرآن و سنت سے اخذ کردہ ہے مسئلہ فقط اتنا ہے کہ ضیاء دور میں اس قانون کی تنفیذ کا باقاعدہ آغاز ہوا اور ضیاء دور میں جو اس کی تنفیذ ہوئی وہ بھی مکمل اسلامی نہیں تھی اسی لیے بعد میں 1991 میں نواز شریف دور میں ایک بار پھر عدالتی حکم کہ تحت اسکو مکمل اسلامی صورت میں نافذ کیا گیا۔
ایک بار پھر عرض کردوں جتنے بھی اسلامی قوانین بصورت معاملات، حدود و عقوبات و تعزیرات ہیں ان سب کہ اصل ماخذ قرآن و سنت ہی ہیں لہزا انکے بحیثیت قانون ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہاں اگر کوئی اختلاف ہو تو وہ ان میں سے بعض قوانین کی اخذ و استنباط کہ مراحل میں فہم انسانی کہ اعتبار سے ہوسکتا ہے لہذا اگر کسی قانون میں ایسا ہوجائے تو پھر ترجیح جو ہوگی وہ جمہور کہ فہم و استنباط کو ہوگی نہ کہ تفردات پر مبنی کسی شخصی فہم کو۔

پھر یاد رہے کہ اگر کوئی بھی اسلامی قانون کسی اسلامی ریاست میں نافذ ہے تو اپنے نفاذ کی تاریخ سے پہلے اور بعد ہر دو صورتوں میں وہ (قانون) اسلامی ہی رہے گا اور اگر کسی اسلامی ملک میں کوئی بھی اسلامی حدود و قیود بصورت قانون نافذ نہیں تو تب بھی وہ قوانین اپنی حیثیت میں اسلامی ہی رہیں گے جبکہ وہ ملک انکو تنفیذ نہ کرنے کہ معاملے میں فسق و فجور کا مرتکب ہوگا اور وہاں کہ حکمران عوامی اطاعت کا حق کھو دیں گے ۔۔۔۔
آخر میں ایک بات کی مزید وضاحت کردوں کہ قانون توہین رسالت میں بحیثیت قانون کوئی سُقم نہیں کیونکہ اس پر ملت اسلامیہ کہ تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہے اگر کہیں اشکالات ہیں تو وہ قرآن وسنت پر مبنی نہیں بلکہ لوگوں کی ذاتی سمجھ بوجھ اور عقول و فہم کا شاخسانہ ہیں البتہ ہاں پاکستان میں نافذ دیگر سینکڑوں تعزیراتی قوانین کی طرح اس قانون توہین رسالت کی تنفیذ مؤثر نہیں ہے سو اس حوالہ سے جتنے بھی اشکالات اور سُْقم ہیں انکو ہم بھی درست کرنے کہ قائل ہیں لہذا ہم بارہا عرض گذار رہ چکے ہیں کہ قانون توہین رسالت کی مؤثر تنفیذ کے حوالہ سے جسقدر بھی پیحیدگیاں ہیں ان سب کو دور کیا جانا چاہیے لہذا آئین و قانون پاکستان میں ایسی ترامیم کی جانی چاہیں کہ جنکہ زریعہ سے نہ صرف اس قانون بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دیگر ایسے تمام قوانین کہ جنکی غلط تنفیذ کی وجہ سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے کو مؤثر طریق سے رفع کیا جاسکے لہذا قانون توہین رسالت میں جو بھی ترامیم ہوں وہ قانون کی تنفیذ کہ حوالہ سے ہوں نہ کہ مطلقا قانون میں کوئی ترمیم کی جائے ۔السلام

اسلام وعلیکم--
میرے محترم دوست آپ سہی فرما رہے ہوں گے کہ اس مسلئے پر بات ہوتی ہو کی اور آپ کو دلیل نہیں دے رہا ھو گا قرآن ،سنت اور حدیث سے مگر آپ یہ تو بتایئں کہ اس قانون کے حق میں قرآن سنت اور حدیث سے کوئ دلیل دی جاتی ھے-
ان دنوں میں آپ نے بھی علما کے ساتھ ٹاک شوز دیکھے سنیں ھوں گے ان میں آپ نے کسی کے منہ سے قرآن سنت اور پھر حدیث سے دلیل دیتے ھوئے دیکھا ھے کیا-
چلیں آپ سے ہی شُروات کرتے ہیں قرآن میں انبیاء اور بلخصوص ہمارے پیارے آقا کی توہین کا جو کفار کرتے تھے اس کا ذکر ہے مگر اس کی جسمانی سزا کا ذکر نہیں ملے گا - اُس کے باد نبئَ پاک کی سنت آتی ھے اس میں بھی آپ کوکہیں ایسی بات نہیں ملے گی اسی طرح صحیع احادیث کا معاملہ ھے-
بات یہ نہیں ھے کہ اس پاک نبی سے ہمیں محبت نہیں یا انہیں ھے جو اس قانون کے حامی ھیں- بات یہ ھے کہ ھم وہ بات کیسے قرآن اور نبئ پاک کی طرف منصوب کریں جو اُنھوں نے کہی یا کی نا ھو- یہ تو بہت بڑا گناہ ھے اوراگر ھمارا کوئ بھی مسلمان بھائ ایسا کرے تو کم از کم اسے کہنے کا حق تو رکھتے ھیں کہ یہ بات قرآن اور نبئ پاک سے صابت نہیں ھے---

میری کوئ بات بری لگی ھو تا معافی کا طلبگار ھوں--
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top