غالب کی خودستائی

خود ستائی کو گو کہ عموما ایک عیب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن شعری ادب میں خودستائی کو خاص مقام حاصل ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا شاعر گزرا ہو جس نے اپنی یا اپنے کلام کی تعریف خود نہ کی ہو۔
مرزا غالب اس فن شاعری میں بھی دیگر شعراء سے ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ غالب نے بہت خوبی سے اپنے کلام کی تعریف کی ہے۔ اور اس رنگ میں تعریف کی ہے کہ اسے کوئی بھی سخن فہم عیب نہیں گردان سکتا۔ بلکہ اس خودستائی نے مرزا غالب کی شاعری میں ایک عجیب کشش پیدا کردی ہے۔
وہ اشعار جن میں مرزا غالب نے خود اپنے کلام کی تعریف کی ہے۔ ان میں چند اشعار درج کرتا ہوں۔
امید ہے ارباب ذوق پسند فرمائیں گے

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے

ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا

پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے کلام کی
روح القدس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

ہے یہ باعث نومیدئ ارباب ہوس
غالب کو برا کہتے ہو اچھا نہیں کرتے

گنجینہء معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

یہ لاش بے کفن اسد خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے

لکھتا ہوں اسد سوزش دل سے سخن گرم
تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت

میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزلیں خواں ہو گئیں

انکے علاوہ اس طرز کے اور بھی اشعار ضرور ہونگے۔خاکسار کے زہن میں سردست یہی اشعار تھے۔
اگر کوئی دوست ان میں اضافہ فرما دیں تو نوازش ہوگی۔
ذیشان لاشاری
 

فرخ منظور

لائبریرین
غالب کئی اشعار میں خود کو ستاتے بھی تھے۔ :)
دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن

کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں تو کہتے ہیں
کہ آج بزم میں کچھ فتنہ و فساد نہیں

میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی
سُن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یُوں

مزید اشعار یاد آئے تو شامل کرتا جاؤں گا۔
 
Top