غالب اور حالی

رضوان

محفلین
غالب اور حالی
اقتباس از یادگارِ حالی
حالی کا مستقل قیام تو جہانگیرآباد میں رہتا تھا مگر دلّی بھی شیفتہ کے ساتھ اکثر آتے اور رہتے تھے۔ مرزا غالب سے جو دونوں کےدوست اور استاد تھے، خوب صحبتیں گرم رہا کرتی تھیں۔ حالی کی جوانی کی عمر تھی۔ طبیعت پر مزہبی رنگ غالب تھا اور جیسا کہ نوجوانی کے عہد کا دستور ہے عقائد میں سختی بھی تھی۔ مولوی استادوں کے خیالات کا رنگ ابھی تک چڑھا ہوا تھا۔ غالب سے دلی محبت تھی اور لازماً ان کی آخرت کی فکر بھی ستاتی تھی۔ انھوں نے جب یہ دیکھا کہ غالب بڑھاپے کے باوجود اب تک شراب پیے جاتے ہیں اور کبھی بھول کر بھی نماز نہیں پڑھتے تو انھیں قدرتی طور پر اس کا بہت رنج ہوا۔ وہ خود لکھتے ہیں “ ۔۔۔۔۔۔ جس قدر کسی کے ساتھ محبت یا لگاؤ زیادہ ہوجاتا ہے اسی قدر اس بات کی زیادہ تمنا ہوتی ہے کہ اُس کا خاتمہ ایسی حالت میں ہو جو ہمارے زعم میں نجات و مغفرت کے لیے ناگزیر ہے۔ چونکہ مرزا کے ساتھ محبت اور لگاؤ بدرجہ غایت تھا اس لیے ہمیشہ اُن کی حالت پر افسوس ہوتا تھا۔ گویا سمجھتے تھے کہ روضہ رضواں میں ہمارا اور اُن کا ساتھ چھوٹ جائے گا اور مرنے کے بعد پھر اُن سے ملاقات نہ ہوسکے گی۔“
چنانچہ حالی نے غالب کو ایک لمبا چوڑا خط لکھا جس میں انھیں نماز پڑھنے کی تاکید کی، فرض کا احساس دلایا اور درخواست کی کہ “ آپ کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر یا اشارے سے غرض جس طرح ہوسکے نمازِپنچگانہ کی پابندی اختیار کریں۔ اگر وضو نہ ہوسکے تو تیمُم ہی سہی مگر نماز ترک نہ ہو۔“ اس زمانے میں غالب کے پاس بہت سے خط آیا کرتے تھے جن میں اُنکو بے دین اور ملحد اور کافر اور خدا جانے کیا کیا لکھا ہوتا تھا۔ بعض خطوں میں تو گالیاں تک ہوتی تھیں۔ غالب ان کو بکواس سمجھتے اور پروا نہ کرتے لیکن حالی کے خط سے انہیں بہت صدمہ ہوا۔ وہ پھٹ پڑے اور بہت رنج اور غصے کا اظہار کیا۔ اگلے دن ایک غزل بھیجی جس میں اس نصیحت کا شکوہ تھا۔ حالی نے معزرت کے طور پر ایک قطعہ لکھا۔ اس کے جواب میں غالب نے یہ قطعہ لکھ کر شیفتہ کے پاس بھیجا:
تو اے شیفتہ و حسرتی لقب داری
ہمی بلطف تو خودرا امیدوار کنم
چو حالی ازمِن آشفتہ بے سبب رنجید
تو گر شفیع نہ کردی بگو، چہ کار کنم
دوبارہ عمر دہندم بہ فرضِ محال
برآں سرم کہ وراں عمر ایں دو کار کنم
یکے اداے عباداتِ عمرِپشینہ
دِگر بہ پیشگہِ، حالی اعتذار کنم​
حالی نے سخت ندامت کے ساتھ ایک اور قطعہ لکھ بھیجا جس کے چند اشعار یہ ہیں:
تو اے کہ عذر فرستادہ ای بہ سوے رہی
سزد کہ جانِ گرامی برآں نثار کنم
نماند قاعدہ شکرِ بے ریا بہ جہاں
اساسِ دوستی از شکوہ استوار کنم
چو شکوہ جُز بہ تقاضاے دوستی نبود
زنحیر شکر و شکایت زدوست دار کنم​
آخر غالب نے کہا “ بس اب بیت بحثی موقوف“ غالب کی شکایت حالی سے محبت ہی پر مبنی تھی۔ وہ حالی کو بہت چاہتے اور بڑی عزت کرتے تھے۔
اپنی غلطی کا احساس اور اس کا صاف صاف اعتراف صرف عالی ظرف لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ حالی کو نوجوانی کی اس معمولی سی غلطی کا اور اس کا کہ جوش میں وہ غالب سے بے ادبی کر بیٹھے، عمر بھر افسوس رہا۔ یادگارِ غالب میں انھوں نے اس واقعہ کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور اس سلسلے میں کس فراخدلی سے اپنے اس زمانے کے عقائد پر اعتراض کرتے ہیں۔“ یہ وہ زمانہ تھا کہ مذہبی خودپسندی کے نشے میں سرشار تھے۔ خدا کی تمام مخلوق میں سے صرف مسلمانوں کو اور مسلمانوں کے تہتر فرقوں میں سے صرف اہلسنت کو اور اہلِ سنت میں سے صرف حنفیّہ کو اور ان میں سے بھی صرف چند لوگوں کو مغفرت کے لائق جانتے تھے گویا دائرہ رحمتِ الٰہی کو کوئن وکٹوریہ کی وسعتِ سلطنت سے بھی، جس میں ہر مزہب و ملّت کے آدمی بہ امن و امان زندگی بسر کرتے ہیں، زیادہ تنگ اور محدود خیال کرتے تھے۔“
 
Top