سیما علی
لائبریرین
غازی علم الدین: کیا علم الدین نے راج پال کو قتل کرنے کے الزام سے انکار کیا تھا؟
،تصویر کا ذریعہSM POST
،تصویر کا کیپشن
علم الدین
آج کل دنیا بھر میں فرانس میں بنائے جانے والے پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی مذمت ہو رہی ہے۔ یورپ میں اسے آزادی اظہار کا معاملہ قرار دیا جا رہا ہے تو عالم اسلام کے بیشتر ممالک اسے آزادی اظہار کی آڑ میں مذہب اور مقدس ترین مذہبی شخصیت کی توہین قرار دے رہے ہیں۔
اگرچہ یہ تنازع کافی پرانا ہے تاہم حالیہ دنوں میں اس پر دوبارہ بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب فرانس میں ایک تاریخ کے استاد کو اس وقت ہلاک کر دیا گیا جب انھوں نے مبینہ طور پر کلاس میں طلبا کو پیغمبر اسلام کے خاکے دکھائے۔
جبکہ اسی تنازع کے تناظر میں دو روز قبل فرانس کے شہر نیس میں ایک چاقو بردار حملہ آور نے ایک چرچ پر حملہ کر کے تین افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
یہ تمام تر واقعات ہمیں لگ بھگ ایک صدی قبل لاہور میں پیش آنے والے ایک واقعے کی یاد دلاتے ہیں جو علم الدین (جنھیں عرف عام میں غازی علم الدین کے نام سے جانا جاتا ہے) نامی شخص سے وابستہ ہے۔
سب غازی سب شہید
قادو مکرانی، جو انگریزوں کی حمایت کرنے والوں کی ناک کاٹ ڈالتا
فقیر ایپی: جنگِ آزادی کا ’تنہا سپاہی‘ جس نے پاکستان بننے کے بعد علیحدہ مملکت کا اعلان کیا
سنہ 1927 میں لاہور کے ایک آریہ کتب فروش مہاشے راج پال نے پیغمبرِ اسلام کے بارے میں ایک کتاب شائع کی۔ اس کتاب کا نام ہی کچھ ایسا تھا کہ جسے بوجوہ یہاں شائع نہیں کیا جا سکتا۔
یہ کتاب سوامی دیانند کے ایک شاگرد نے تحریر کی تھی جو لاہور کے ایک اخبار 'پرتاب' کے مدیر تھے۔ اس زمانے میں اس کتاب پر سب سے بڑی تنقید کی جاتی تھی کہ اس میں مبینہ طور پر قرآن کی آیات اور فرموداتِ پیغمبر کی غلط تاویلات کی گئی تھیں اور ان تاویلات کی بنیاد پر اس کتاب کی عمارت کھڑی کی گئی تھی۔
مصنف نے مسلمانوں کے ممکنہ ردِعمل سے بچنے کی خاطر اس کتاب پر اپنے بجائے پروفیسر پنڈنت چمپو پتی لال کا نام بطور مصنف شائع کیا تھا تاکہ وہ قانونی کارروائی سے بچ سکیں۔
اس کتاب کی اشاعت کے بعد مسلمانوں کی جانب سے احتجاج اور عدالتی کارروائی شروع کی گئی اور بلآخر چھ اپریل 1929 کو لاہور کے علم الدین نامی نوجوان نے کتاب کے ناشر مہاشے راج پال کو چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا۔
،تصویر کا ذریعہPUCIT INQILAB/LUMS ARCHIVE
،تصویر کا کیپشن
راج پال کے قتل کے بعد انقلاب اخبار میں شائع ہونے والی خبر
علم الدین پر مقدمہ چلایا گیا، ان کے وکلا میں بانی پاکستان محمد علی جناح بھی شامل تھے تاہم وہ مقدمہ جیت نہ سکے اور عدالت نے علم الدین کو موت کی سزا سنا دی جس پر 31 اکتوبر 1929 کو میانوالی جیل میں عملدرآمد کر دیا گیا۔
بعدازاں مسلمانوں کے مطالبے پر علم الدین، جو اب عوام میں غازی علم الدین کے نام سے مشہور ہو چکے تھے، کی میت لاہور لائی گئی جہاں 14 نومبر 1929 کو نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد انھیں لاہور ہی کے میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
علم الدین کی سزا پر عملدرآمد کے بعد اُن کی شخصیت پر متعدد کتابیں تحریر کی گئیں۔
سنہ 1988 میں لاہور کے ایک ناشر نے ظفر اقبال نگینہ کی ایک کتاب ’غازی علم الدین شہید‘ شائع کی۔ یہ کتاب ان مضامین کا مجموعہ تھا جو ایک اخباری میگزین میں سلسلہ وار شائع ہوئے تھے۔
اس کتاب میں بعض ایسی سرکاری دستاویزات شائع کی گئی تھیں جو علم الدین سے متعلق عوام میں معروف واقعے سے متصادم تھیں۔
اس کتاب میں عدالتی کارروائی میں عینی شاہدین اور گواہان کے بیانات کی عکسی نقول شامل تھیں جن کی روشنی میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے علم الدین پر راج پال کو ارداتاً قتل کرنے کا مرتکب قرار دیا تھا۔
عدالتی کارروائی کے دوران علم الدین نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے روبرو ایک بیان بلاحلفی داخل کیا تھا جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ راج پال کے قاتل نہیں ہیں اور انھیں پولیس نے بغیر کسی وجہ کے گرفتار کیا ہے۔
اس بیان غیر حلفی کی تفصیلات کا اُردو ترجمہ کچھ یوں ہے:
،تصویر کا ذریعہARCHIVES
،تصویر کا کیپشن
علم الدین کا بیان
علم الدین نے ایسا ہی ایک بیان 16 مئی 1929 کو سیشن جج کے روبرو ریکارڈ کروایا (یہ بیان بھی بلاحلف دیا گیا تھا)۔ اس بیان میں علم الدین نے کہا کہ انھوں نے مجسٹریٹ کے روبرو جو بیان دیا ہے وہ اس پر قائم ہیں، یعنی انھوں نے راج پال کو قتل نہیں کیا۔
علم الدین کا موقف تھا کہ پولیس شناخت پریڈ میں اُن کے علاوہ صرف ایک شخص کو پیش کیا گیا جو بوڑھا تھا، چنانچہ اس کیس کے گواہ آتما رام، جن سے علم الدین نے مبینہ طور پر قتل میں استعمال ہونے والا چھرا خریدا تھا، نے بغیر کسی تردد کے شناخت پریڈ کے دوران پہچان لیا اور یوں انھیں (علم الدین) ملزم سمجھ لیا گیا۔
علم الدین نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ جب مجسٹریٹ شناخت کے لیے آئے تو انھوں نے اُن سے اس بات کی شکایت بھی کی مگر مجسٹریٹ سمیت کسی نے اُن کی بات نہیں سُنی۔
درحقیقت یہی وہ دو بیانات ہیں جن کی بنیاد پر بعض افراد کا خیال ہے کہ علم الدین نے راج پال کو قتل کرنے کے جرم سے انکار کیا تھا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر علم الدین نے اپنا جرم قبول کر لیا تھا اور صحتِ جرم سے کبھی انکار نہیں کیا تو پھر ان کا مقدمہ لڑنے کے لیے بانی پاکستان محمد علی جناح کو کیوں وکیل بنایا گیا تھا۔
محمد علی جناح نے عدالت کے روبرو علم الدین کے اس غیر حلفی بیان کے بجائے یہ دلیل دی تھی کہ علم الدین کم عمر ہے اس کی عمر 19، 20 سال کے لگ بھگ ہے اور پھر یہ کہ اس نے یہ جرم اس لیے کیا ہے کہ اس کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی تھی اور اس نے غصے میں آ کر راج پال پر حملہ کیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہPUNJAB ARCHIVES
،تصویر کا کیپشن
لاہور ہائی کورٹ کا علم الدین کے حوالے سے آرڈر جس میں بانی پاکستان محمد علی جناح اور فرخ حسین ملزم کی طرف سے بطور وکیل پیش ہوئے
اُدھرسیشن کورٹ نے علم الدین کے اس بیان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور علم الدین پر راج پال کے قتل کے مقدمے کی سماعت شروع کر دی۔ سیشن کورٹ نے علم الدین کو موت کی سزا سنائی۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی سیشن کورٹ کی یہ سزا برقرار رکھی، جس کے بعد اس سزا کے خلاف آخری اپیل پریوی کونسل میں ہوئی جہاں علم الدین کی جانب سے محمد علی جناح پیش ہوئے۔
اس مقدمے کی کارروائی کے مطابق ہائی کورٹ نے محمد علی جناح کی اس دلیل سے اتفاق نہیں کیا کہ مجرم کی عمر 19، 20 سال ہے اور اس سے یہ جرم غصے کی حالت میں سرزد ہوا ہے۔ پریوی کونسل کا فیصلہ تھا کہ جناح کی بیان کردہ وجوہات مناسب اور معقول نہیں ہیں اور علم الدین نے یہ جرم قصداً کیا ہے۔
پریوی کونسل نے عینی گواہان کی شہادت کی روشنی میں علم الدین کو راج پال کے قتل کا ملزم ٹھہرایا اور اسے سزائے موت دینے کا حکم سنایا۔ پریوی کونسل کے اس فیصلے کے بعد بکنگھم پیلس میں رحم کی اپیل دائر کی گئی جہاں شاہ جارج پنجم نے بھی اس سزا کو برقرار رکھنے کا حکم دیا۔
،تصویر کا ذریعہLAHORE CITY HISTORY/LUMS ARCHIVE
،تصویر کا کیپشن
علم الدین کا نمازہ جنازہ
ظفر اقبال نگینہ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ سزائے موت پر عملدرآمد سے دو روز قبل علم الدین نے اپنے ایک دوست شیدا سے کہا تھا کہ ’یہ درست ہے کہ راج پال کو میں نے ہی قتل کیا تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں نے موت سے ڈر کر عدالت میں ارتکاب فعل سے انکار کیا، یہ غلط ہے، ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ دنیاوی حیات عارضی ہے اور ہم سب کو ایک نہ ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونا ہے پھر میں کیونکر موت سے ڈر سکتا تھا۔ عدالت میں میرے جو بیانات ریکارڈ ہوئے وہ میں نے اپنے بزرگوں کے کہنے کے مطابق بادل نخواستہ دیے تھے۔ میرے لیے یہ خبر کہ پریوی کونسل میں میری اپیل نامنظور ہوگئی ہے انتہائی مسرت کا موجب ہے اور میں خوش ہوں کہ مشیت الٰہی نے چالیس کروڑ مسلمانوں میں سے مجھے اس شہادت کے لیے منتخب کیا۔‘
ظفر اقبال نگینہ کی کتاب میں جو دستاویزات شامل ہیں وہ بلاشبہ عدالتی ریکارڈ سے حاصل کی گئی ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان میں شامل علم الدین کے بیانات بلاحلف لیے گئے، اس لیے نہ انھیں عدالت عالیہ نے لائق توجہ سمجھا تھااور نہ ہی کوئی مورخ انھیں کوئی اہمیت دینے کو تیار ہے۔
غازی علم دین: ملزم اور مقدمہ - BBC News اردو
- عقیل عباس جعفری
- محقق و مورخ، کراچی
،تصویر کا ذریعہSM POST
،تصویر کا کیپشن
علم الدین
آج کل دنیا بھر میں فرانس میں بنائے جانے والے پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی مذمت ہو رہی ہے۔ یورپ میں اسے آزادی اظہار کا معاملہ قرار دیا جا رہا ہے تو عالم اسلام کے بیشتر ممالک اسے آزادی اظہار کی آڑ میں مذہب اور مقدس ترین مذہبی شخصیت کی توہین قرار دے رہے ہیں۔
اگرچہ یہ تنازع کافی پرانا ہے تاہم حالیہ دنوں میں اس پر دوبارہ بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب فرانس میں ایک تاریخ کے استاد کو اس وقت ہلاک کر دیا گیا جب انھوں نے مبینہ طور پر کلاس میں طلبا کو پیغمبر اسلام کے خاکے دکھائے۔
جبکہ اسی تنازع کے تناظر میں دو روز قبل فرانس کے شہر نیس میں ایک چاقو بردار حملہ آور نے ایک چرچ پر حملہ کر کے تین افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
یہ تمام تر واقعات ہمیں لگ بھگ ایک صدی قبل لاہور میں پیش آنے والے ایک واقعے کی یاد دلاتے ہیں جو علم الدین (جنھیں عرف عام میں غازی علم الدین کے نام سے جانا جاتا ہے) نامی شخص سے وابستہ ہے۔
سب غازی سب شہید
قادو مکرانی، جو انگریزوں کی حمایت کرنے والوں کی ناک کاٹ ڈالتا
فقیر ایپی: جنگِ آزادی کا ’تنہا سپاہی‘ جس نے پاکستان بننے کے بعد علیحدہ مملکت کا اعلان کیا
سنہ 1927 میں لاہور کے ایک آریہ کتب فروش مہاشے راج پال نے پیغمبرِ اسلام کے بارے میں ایک کتاب شائع کی۔ اس کتاب کا نام ہی کچھ ایسا تھا کہ جسے بوجوہ یہاں شائع نہیں کیا جا سکتا۔
یہ کتاب سوامی دیانند کے ایک شاگرد نے تحریر کی تھی جو لاہور کے ایک اخبار 'پرتاب' کے مدیر تھے۔ اس زمانے میں اس کتاب پر سب سے بڑی تنقید کی جاتی تھی کہ اس میں مبینہ طور پر قرآن کی آیات اور فرموداتِ پیغمبر کی غلط تاویلات کی گئی تھیں اور ان تاویلات کی بنیاد پر اس کتاب کی عمارت کھڑی کی گئی تھی۔
مصنف نے مسلمانوں کے ممکنہ ردِعمل سے بچنے کی خاطر اس کتاب پر اپنے بجائے پروفیسر پنڈنت چمپو پتی لال کا نام بطور مصنف شائع کیا تھا تاکہ وہ قانونی کارروائی سے بچ سکیں۔
اس کتاب کی اشاعت کے بعد مسلمانوں کی جانب سے احتجاج اور عدالتی کارروائی شروع کی گئی اور بلآخر چھ اپریل 1929 کو لاہور کے علم الدین نامی نوجوان نے کتاب کے ناشر مہاشے راج پال کو چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا۔
،تصویر کا ذریعہPUCIT INQILAB/LUMS ARCHIVE
،تصویر کا کیپشن
راج پال کے قتل کے بعد انقلاب اخبار میں شائع ہونے والی خبر
علم الدین پر مقدمہ چلایا گیا، ان کے وکلا میں بانی پاکستان محمد علی جناح بھی شامل تھے تاہم وہ مقدمہ جیت نہ سکے اور عدالت نے علم الدین کو موت کی سزا سنا دی جس پر 31 اکتوبر 1929 کو میانوالی جیل میں عملدرآمد کر دیا گیا۔
بعدازاں مسلمانوں کے مطالبے پر علم الدین، جو اب عوام میں غازی علم الدین کے نام سے مشہور ہو چکے تھے، کی میت لاہور لائی گئی جہاں 14 نومبر 1929 کو نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد انھیں لاہور ہی کے میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
علم الدین کی سزا پر عملدرآمد کے بعد اُن کی شخصیت پر متعدد کتابیں تحریر کی گئیں۔
سنہ 1988 میں لاہور کے ایک ناشر نے ظفر اقبال نگینہ کی ایک کتاب ’غازی علم الدین شہید‘ شائع کی۔ یہ کتاب ان مضامین کا مجموعہ تھا جو ایک اخباری میگزین میں سلسلہ وار شائع ہوئے تھے۔
اس کتاب میں بعض ایسی سرکاری دستاویزات شائع کی گئی تھیں جو علم الدین سے متعلق عوام میں معروف واقعے سے متصادم تھیں۔
اس کتاب میں عدالتی کارروائی میں عینی شاہدین اور گواہان کے بیانات کی عکسی نقول شامل تھیں جن کی روشنی میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے علم الدین پر راج پال کو ارداتاً قتل کرنے کا مرتکب قرار دیا تھا۔
عدالتی کارروائی کے دوران علم الدین نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے روبرو ایک بیان بلاحلفی داخل کیا تھا جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ راج پال کے قاتل نہیں ہیں اور انھیں پولیس نے بغیر کسی وجہ کے گرفتار کیا ہے۔
اس بیان غیر حلفی کی تفصیلات کا اُردو ترجمہ کچھ یوں ہے:
،تصویر کا ذریعہARCHIVES
،تصویر کا کیپشن
علم الدین کا بیان
علم الدین نے ایسا ہی ایک بیان 16 مئی 1929 کو سیشن جج کے روبرو ریکارڈ کروایا (یہ بیان بھی بلاحلف دیا گیا تھا)۔ اس بیان میں علم الدین نے کہا کہ انھوں نے مجسٹریٹ کے روبرو جو بیان دیا ہے وہ اس پر قائم ہیں، یعنی انھوں نے راج پال کو قتل نہیں کیا۔
علم الدین کا موقف تھا کہ پولیس شناخت پریڈ میں اُن کے علاوہ صرف ایک شخص کو پیش کیا گیا جو بوڑھا تھا، چنانچہ اس کیس کے گواہ آتما رام، جن سے علم الدین نے مبینہ طور پر قتل میں استعمال ہونے والا چھرا خریدا تھا، نے بغیر کسی تردد کے شناخت پریڈ کے دوران پہچان لیا اور یوں انھیں (علم الدین) ملزم سمجھ لیا گیا۔
علم الدین نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ جب مجسٹریٹ شناخت کے لیے آئے تو انھوں نے اُن سے اس بات کی شکایت بھی کی مگر مجسٹریٹ سمیت کسی نے اُن کی بات نہیں سُنی۔
درحقیقت یہی وہ دو بیانات ہیں جن کی بنیاد پر بعض افراد کا خیال ہے کہ علم الدین نے راج پال کو قتل کرنے کے جرم سے انکار کیا تھا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر علم الدین نے اپنا جرم قبول کر لیا تھا اور صحتِ جرم سے کبھی انکار نہیں کیا تو پھر ان کا مقدمہ لڑنے کے لیے بانی پاکستان محمد علی جناح کو کیوں وکیل بنایا گیا تھا۔
محمد علی جناح نے عدالت کے روبرو علم الدین کے اس غیر حلفی بیان کے بجائے یہ دلیل دی تھی کہ علم الدین کم عمر ہے اس کی عمر 19، 20 سال کے لگ بھگ ہے اور پھر یہ کہ اس نے یہ جرم اس لیے کیا ہے کہ اس کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی تھی اور اس نے غصے میں آ کر راج پال پر حملہ کیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہPUNJAB ARCHIVES
،تصویر کا کیپشن
لاہور ہائی کورٹ کا علم الدین کے حوالے سے آرڈر جس میں بانی پاکستان محمد علی جناح اور فرخ حسین ملزم کی طرف سے بطور وکیل پیش ہوئے
اُدھرسیشن کورٹ نے علم الدین کے اس بیان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور علم الدین پر راج پال کے قتل کے مقدمے کی سماعت شروع کر دی۔ سیشن کورٹ نے علم الدین کو موت کی سزا سنائی۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی سیشن کورٹ کی یہ سزا برقرار رکھی، جس کے بعد اس سزا کے خلاف آخری اپیل پریوی کونسل میں ہوئی جہاں علم الدین کی جانب سے محمد علی جناح پیش ہوئے۔
اس مقدمے کی کارروائی کے مطابق ہائی کورٹ نے محمد علی جناح کی اس دلیل سے اتفاق نہیں کیا کہ مجرم کی عمر 19، 20 سال ہے اور اس سے یہ جرم غصے کی حالت میں سرزد ہوا ہے۔ پریوی کونسل کا فیصلہ تھا کہ جناح کی بیان کردہ وجوہات مناسب اور معقول نہیں ہیں اور علم الدین نے یہ جرم قصداً کیا ہے۔
پریوی کونسل نے عینی گواہان کی شہادت کی روشنی میں علم الدین کو راج پال کے قتل کا ملزم ٹھہرایا اور اسے سزائے موت دینے کا حکم سنایا۔ پریوی کونسل کے اس فیصلے کے بعد بکنگھم پیلس میں رحم کی اپیل دائر کی گئی جہاں شاہ جارج پنجم نے بھی اس سزا کو برقرار رکھنے کا حکم دیا۔
،تصویر کا ذریعہLAHORE CITY HISTORY/LUMS ARCHIVE
،تصویر کا کیپشن
علم الدین کا نمازہ جنازہ
ظفر اقبال نگینہ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ سزائے موت پر عملدرآمد سے دو روز قبل علم الدین نے اپنے ایک دوست شیدا سے کہا تھا کہ ’یہ درست ہے کہ راج پال کو میں نے ہی قتل کیا تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں نے موت سے ڈر کر عدالت میں ارتکاب فعل سے انکار کیا، یہ غلط ہے، ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ دنیاوی حیات عارضی ہے اور ہم سب کو ایک نہ ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونا ہے پھر میں کیونکر موت سے ڈر سکتا تھا۔ عدالت میں میرے جو بیانات ریکارڈ ہوئے وہ میں نے اپنے بزرگوں کے کہنے کے مطابق بادل نخواستہ دیے تھے۔ میرے لیے یہ خبر کہ پریوی کونسل میں میری اپیل نامنظور ہوگئی ہے انتہائی مسرت کا موجب ہے اور میں خوش ہوں کہ مشیت الٰہی نے چالیس کروڑ مسلمانوں میں سے مجھے اس شہادت کے لیے منتخب کیا۔‘
ظفر اقبال نگینہ کی کتاب میں جو دستاویزات شامل ہیں وہ بلاشبہ عدالتی ریکارڈ سے حاصل کی گئی ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان میں شامل علم الدین کے بیانات بلاحلف لیے گئے، اس لیے نہ انھیں عدالت عالیہ نے لائق توجہ سمجھا تھااور نہ ہی کوئی مورخ انھیں کوئی اہمیت دینے کو تیار ہے۔
غازی علم دین: ملزم اور مقدمہ - BBC News اردو