غازی علم الدین شہید رحمتہ اللہ علیہ

مختصر تعارف : عاشق رسول جناب غازی علم الدین شہید رحمتہ اللہ علیہ
ہندو گستاخ رسول راجپال کو قتل کرنے کی پاداش میں عاشق رسول جناب غازی علم الدین رحمتہ اللہ علیہ کو31 اکتوبر 1929ء کو میانوالی جیل میں (شہید ) سزائے موت دی گئی اور لاہور میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا۔
31 اکتوبر 2008ء کو مولانا عبدالحفیظ مکی امیر مرکزیہ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی زیر صدارت "سو سالہ ختم نبوت کانفرنس" کیپ ٹاؤن ساؤتھ افریقہ کے مشہور "سٹی ہال" میں منعقد ہوئی۔ پاکستان سے چھ علماء علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب، مولانا محمد الیاس چنیوٹی، مولانا زاہدالراشدی، مفتی شاہد محمود ، علامہ صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی اور مولانا محمد احمد لدھیانوی مدظلہم نے شرکت کی ۔
تفصیل :
ہر انسان زندگی کے معاملات میں اپنی ذاتی رائے رکھتا ہے جو کئی معاملات میں دوسروں سے مختلف ہوتی ہے۔ اکثر اوقات ایک جیسی بھی ہو سکتی ہے۔ آج کل کے ماڈیریٹڈ مسلمان حرمت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے معاملے پر بھی خاموش رہنے کے کئی جواز پیش کرتے ہیں۔ کچھ فیس بک کو اہم میڈیا قرار دیتے ہوے اسی کا حصہ رہنے پر اصرار کرتے ہیں تو کچھ پاکستان کا امیج بہتر بنانے کے لیے فیس بک پر پابندی کی حق میں نہیں۔ کچھ کو دوسروں کے نماز روزہ اور زندگی گزارنے کے طریقے پر اعتراض ہے تو کسی کو اب یاد آ رہا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی اسلام کے مطابق گزارنی چاہیے۔ کسی کو ڈنڈے سے قائل تو نہیں کیا جاسکتا لیکن دلیل دی جا سکتی ہے۔ ایسے ہی سبھی مسلمانوں کے لیے حرمت رسول پر مر مٹنے والے ایک شہید کی داستان۔

غازی علم الدین شہید۔جو حرمت رسول پر مرمٹا
کچھ لوگ چھوٹی سی زندگی میں اتنا بڑا کام کر جاتے ہیں کہ ان کا نام تا قیامت زندہ رہتا ہے انہیں میں سے ایک غازی علم الدین شہید تھے۔ غازی علم الدین شہید 3دسمبر 1908ءکو محلہ چابک سواراں لاہور میں پیدا ہوئے ۔والد کا نام میا ں طالع مند تھا جو نجاری یعنی لکڑی کا کام کرتے تھے غازی علم الدین نے نجاری کا فن اپنے والد سے اور بڑے بھائی میاں محمدا لدین سے سیکھا ۔پھر 1928ءمیں کوہاٹ چلے گئے اور والد کے ساتھ بنوں بازار کوہاٹ میں فرنیچر کا کام کرنے لگے۔
غازی علم الدین نے مشہور بدنام زمانہ کتاب ”رنگیلا رسول “کے ناشر راج پال کو ٹھکانے لگایا اور تختہ دار پر چڑھ گئے ۔اس واقعہ کے پس منظر کو سمجھنے کے لئے ہندووں کی شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں کو یاد رکھنا ضروری ہے جو 1920ءکی دہائی میں شروع کی گئی تھیں ۔اس سلسلہ میں ہندووں نے دلآزار لڑیچر شائع کرنا شروع کیا ۔ مہاشہ کرشن مدیر ”پر تاپ “لاہور نے ایک کتاب ”رنگیلا رسول “کے نام سے لکھی ۔مصنف نے مسلمانوں کے غم و غصہ سے بچنے کے لئے اپنی بجائے پروفیسر چمپوپتی لال ایم اے کا فرضی نام بطور مصنف لکھ دیا ۔تاہم اس کتاب پر راج پال ناشر ہسپتال روڈ لاہور کا نام درست اور واضح لکھا ہوا تھا۔مسلمانوں نے اس کتاب کو تلف کرنے کی درخواست کی ۔اس کے انکار پر مسلمانوں نے دفعہ 153الف کے تحت فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ دائر کیا ۔مجسٹریٹ نے ناشر کو چھ ماہ قید کی سزا دی۔مگر اس نے ہائی کورٹ میں اپیل کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کردیا۔
اس سلسلے میں مسلمانوں نے جلسے کئے۔متعدد جلوس نکالے لیکن حکومت نے دفعہ 144نافذ کر کے مسلمان لیڈروں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔فرنگی حکومت کے انصاف سے مایوس ہونے کے بعدمسلمانوں نے اپنی قوت بازو سے کام لینے کا مصمم ارادہ کیا ۔چنانچہ راج پال کو ٹھکانے لگانے کے لئے سب سے پہلے ایک نوجوان غازی عبد العزیز کوہاٹ سے لاہور آیا۔پوچھتا پوچھتا ناشر کی دوکان پر جا پہنچا ۔اتفاق سے اس وقت دوکان پر راج پال نہیں بیٹھاتھا بلکہ اس کی جگہ اس کا ایک دوست جتندر موجود تھا۔
عبد العزیز نے ایک ہی وار میں اس کا کام تما م کردیا ۔انگریزی حکومت نے کچھ قانونی تقاضوں اور مصلحتوں کے پیش نظر عبدالعزیز کو چودہ سال کی سزا دی ۔راج پال اپنے آپ کو ہروقت خطرے میں محسوس کرتا ۔اس کی دراخوست پر دو ہندو سپاہی اور ایک سکھ حوالداراس کی حفاظت کے لئے متعین کئے گئے ۔راج پال لاہور چھوڑ کر ہردوا ‘کاشی اور متھرا چلاگیا لیکن دوچار ماہ بعد واپس آکر اپنا کاروبار دوبارہ شروع کردیا۔
چنانچہ غازی علم الدین 6اپریل 1929ءکو لاہور آئے اور ایک بجے دوپہر راج پال کی دوکان واقع ہسپتال روڈ انار کلی نزد مزار قطب الدین ایبک پہنچ کر آپ نے راج پال کو للکارا اور کہا ”اپنے جرم کی معافی مانگ لو اور دلآزار کتاب کو تلف کردواور آئندہ اس قسم کی حرکتوں سے باز آجاو۔“راج پال اس انتباہ کوگیڈر بھبکی سمجھ کر خاموش رہا ۔اس پر غازی علم الدین نے ایسا بھر پور وار کیا کہ وہ اف تک نہ کرسکا۔اس وقت دوکان میں دو ملازم بھگت رام اور کدار ناتھ بھی موجود تھے ۔
کدار ناتھ نے انار کلی پولیس سٹیشن میں قتل کی اطلاع درج کروائی ۔پولیس نے لاش پر قبضہ کرکے کدار ناتھ ‘بھگت رام اور دیگر گواہوں کے بیانات لئے ۔چونکہ ملزم اقبالی تھا اس لئے مقدمے کی تفتیش اور چالان میں نہ توکوئی دقت پیش آئی نہ کوئی رکاوٹ ہوئی ۔اس واقعہ کے بعد شہر میں خاصاخوف وہراس پھیل گیا تھا ۔ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے دفعہ 144نافذ کر کے ہندو مسلم کشیدگی پرقابو پانے کی کوشش کی۔تاہم ہندووں نے راج پال کی ارتھی کا جلوس نکالا اور پورے احترام کے ساتھ رام باغ نزد بادامی باغ نذر آتش کر کے اس کی راکھ کو دریائے راوی میں بہا دیا ۔مقدمہ مسٹر لوئیس ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا۔انہوں نے ملزم پر فرد جرم عائد کر کے اس کا بیان لیا اور بغیر صفائی کے مقدمہ سیشن کے سپرد کردیا۔
مسٹر نیپ سیشن جج تھے ۔مسٹر سلیم بارایٹ لاءنے غازی علم الدین کے حق میں معقو ل دلائل پیش کئے مگر عدالت نے دفعہ 302کا فرد جرم عائد کرکے مورخہ 22مئی 1929ءکو پھانسی کی سزا کا حکم سنایا ۔مسلمانان لاہور میں کئی جلسے کر کے فیصلہ کیا کہ سیشن جج کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل ضرور کی جائے ۔مسٹر محمد علی جناح اس مقدمے کی پیروی کی غرض سے بمبئی سے لاہور آئے ان کی معاونت مسٹر فرخ حسین بیر سٹر نے کی ۔مقتول کی طرف سے جے لال کپور اور دیوان رام لال سرکا ر کی طرف سے پیش ہوئے ۔مسٹر براڈوے اور مسٹر جان سٹون جج ہائی کورٹ میں اپیل کی سماعت کی ۔15جولائی 1929ءکوغازی علم الدین کی اپیل خارج کردی اور سیشن کورٹ کے فیصلے کو بحال رکھا۔ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ جب غازی علم الدین کو جیل میں سنایا گیا تو انہوں نے مسکراکر کہا ”شکرو الحمد ﷲ۔میں یہی چاہتاتھا ۔بزدلوں کی طرح قیدی بن کر جیل میں گلنے سڑنے کی بجائے تختہ دار پر چڑھ کر رسول برحق رسالتمابپر اپنی حقیر جان کو قربان کرنا موجب ہزار ابدی سکون وراحت ہے۔
مسلمانوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پریوی کونسل لندن میں اپیل کرنے کا فیصلہ کیا اس اپیل کا مسودہ قائد اعظم کی نگرانی میں تیار ہوا لیکن پریوی کونسل نے بھی اپیل نامنظور کردی غازی علم الدین کو جونہی اس فیصلے سے آگاہ کیا گیا انہوں نے حسب سابق خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔صوبے کے امن وامان کوملحوظ رکھتے ہوئے حکام وقت نے فیصلہ کیا کہ غازی علم الدین کو فوری طور پر صوبے کی کسی محفوظ اور دوردراز جیل میں منتقل کردیاجائے ۔چنانچہ اس مقصد کے لئے میانوالی جیل کو منتخب کیا گیا۔4اکتوبر 1929ءکو آپ کو لاہور سے منتقل کر کے میانوالی لے جایاگیا اور 31اکتوبر 1929ءکو بروز جمعرات آپکوپھانسی دی گئی۔
مجسٹریٹ نے آپ سے پوچھا ”آپ کی آخری خواہش کیا ہے۔“آپ نے کہا ”صرف دو رکعت نماز شکرانہ ادا کرنے کی اجازت دی جائے ۔“اس پر آپ نے دورکعت نفل پڑھے اور خود سوئے دار بصدشوق چل پڑے ۔انگریز حکومت کا خیال تھا کہ اگر غازی علم الدین کی لاش کو لاہور بھیجا گیا تو یقینا ہندو اور مسلمان مشتعل ہو کر فساد پر آمادہ ہوجائیں گے۔اس لئے اس کی پاک میت کو بغیر جنازہ ایک گڑھے میں دبادیا گیا
لیکن مسلمانوں نے ان کی میت کو لینے کے لئے شدید مطالبہ کیا۔اور لاہور میں مسلسل جلسے جلوس اور ہڑتالیں ہوتی رہیں۔4نومبر1929ءکو مسلمانوں کا ایک وفد گورنر پنجاب سے ملا ۔اس وفد میں سر میاں محمد شفیع ‘میاں عبدالعزیز ‘مولاناظفرعلی خاں ‘سر فضل حسین ‘خلیفہ شجاع الدین ‘میاں امیر الدین ‘سر محمد اقبال ‘اور مولاناغلام محی الدین قصوری سرفہرست تھے۔گورنرنے سخت شرائط پر نعش کی واپسی کی اجازت دی۔مسلمانوں کا ایک وفد سید مراتب علی شاہ اور مرزا مہدی حسن مجسٹریٹ کی قیادت میں 13نومبر کو میانوالی پہنچا دوسرے دن علی الصبح نعش کو گڑ ھے سے نکال کر ڈپٹی کمشنر راجہ مہدی زمان خان کے بنگلے پر لایا گیا وفد اور میانوالی کے لوگوں کا بیان ہے کہ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود نعش میں ذرا بھی تعفن نہیں تھا۔بلکہ جسم صحیح وسالم تھا۔چہرے پر جلا ل وجمال کا امتزاج تھا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
نعش بذریعہ ٹرین 15نومبر1929ءکو لاہور چھا ؤ نی کے پاس پہنچی۔محکمہ ریلوے نے یہ نعش محکمہ جیل کے احکام کے حوالے کی اور محکمہ جیل نے وہ صندوق مسلم لیگ کے دونمائندوں سر محمد شفیع اور سر محمد اقبال کے حوالے کیا۔
غازی علم الدین کے جنازے پر ایک محتاط اندازے کے مطابق چھ لاکھ انسان شامل ہوئے۔اخبار انقلاب کے مطابق جنازے کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا ۔نماز جنازہ قاری محمد شمس الدین خطیب مسجد وزیر خاں نے پڑھائی ۔باقی نمازیں دیگر علماءکرام نے پڑھا کر فرض کفایہ ادا کیا ۔ مولانا دیدار شاہ اور علامہ محمد اقبال نے میت کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا ۔لوگوں نے عقیدت سے اتنے پھول نچھاور کئے کہ میت ان میں چھپ گئی۔اس کے بعد کچی اینٹوں سے تعویذ کو بند کر دیا گیا اور کلمہ شہادت اور کلمہ تمجید پڑھ کر قبر پر مٹی ڈال دی گئی۔
غازی علم الدین شہید کا مقبرہ میانی صاحب قبرستان میں بہاولپور روڈ کے کنارے نمایاںمقام پر ہے۔ مزار کے چاروں طرف ایک مسقف بر آمدہ ہے مگر خود مزار بغیر چھت کے ہے۔ مزار کے مشرق میں غازی کے والد، والدہ اور رئو ف احمد بھتیجے کی قبریں ہیں ۔ تایا میاں میر بخش اور ان کی اہلیہ کی قبریں مغرب کی طرف ہیں۔ تعویذ کے شمال میں سنگ مرمر کا ایک کتبہ ہے جس کے اندرون رخ پر غازی کی تاریخ پیدائش 3دسمبر 1908ءاور تاریخ وفات 31اکتوبر1929ءدرج ہے۔ کتبے پر پنجابی اور اردو میں بے شمار اشعار کندہ ہیں۔
 
Top