حسیب احمد حسیب
محفلین
نمکین غزل ۔۔۔ !
فقر کا عالم نمایاں ہو گیا
فقر کا عالم نمایاں ہو گیا
عید قرباں پر وہ قرباں ہو گیا
گلبدن تھا جب تلک منڈی میں تھا
گھر میں کیا آیا گلستاں ہو گیا
عافیت سے بیت جائے گی یہ عید
اک قریشی جو مہرباں ہو گیا
کس طرح طعنے سنے بیگم کے روز
جاکے وہ تھانے کا مہماں ہو گیا
کان کے پردے ہمارے پھٹ گئے
وہ ترنم سے غزل خواں ہو گیا
گھر سے نکلا تھا جو سینہ تان کے
جاکے منڈی میں پشیماں ہو گیا
اس نے بھیجی ہے بڑے افسر کو ران
اس کی پروموشن کا ساماں ہو گیا
لے لیا ہے بینک اسلامی سے لون
لیجئے وہ بھی مسلماں ہو گیا
لاٹری اس کی کھلی کہنے لگا
آمد " بکری " کا امکاں ہو گیا
حسیب احمد حسیب