عہد یوسفی کے یادگار نقوش پارینہ

یوسفی صاحب اردو کے مزاحیہ ادب میں بڑا نام ہیں،وہ آج ہم میں نہیں رہے،ان کا قلم گزشتہ تین عشروں سے خاموش رہا۔ان کے طرز ادا میں کہیں کہیں آورد اور تکلف بھی محسوس ہوتا ہے لیکن ان کے اسلوب کی چاشنی دامن دل کھینچے رکھتی ہے ۔ان کے دل چسپ جملوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ہم یوسفی صاحب مرحوم کی یادیں تازہ کرتے ہیں ۔
٭ انسان کو موت ہمیشہ قبل ازوقت اور شادی بعد از وقت معلوم ہوتی ہے ۔

٭ مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے ۔

٭ دشمنوں کے حسب عداوت تین درجے ہیں: دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار ۔

٭ محبت اندھی ہوتی ہے، چنانچہ عورت کے لیے خوبصورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہوتا ہے ۔

٭ بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں، سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے ۔

٭ امریکا کی ترقی کا سبب یہی ہے کہ اس کا کوئی ماضی نہیں ۔

٭ پاکستان کی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں ۔

٭ اختصار اور ظرافت زنانہ لباس کی جان ہے ۔

٭ بدصورت انگریز عورت نایاب ہے، بڑی مشکل سے نظر آتی ہے، یعنی ہزار میں ایک۔ پاکستانی اور ہندوستانی اسی سے شادی کرتا ہے ۔

٭ آپ راشی، بدکردار اور شرابی کو ہمیشہ خوش اخلاق، ملنسار اور میٹھا پائیں گے کیونکہ وہ نخوت، سخت گیری اور بدمزاجی افورڈ ہی نہیں کرسکتا۔

٭ گالی، گنتی، سرگوشی اور گندہ لطیفہ اپنی مادری زبان ہی میں مزہ دیتا ہے ۔

٭ جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزوں کے بجائے پیسے برآمد ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب اسے بے فکری کی نیند کبھی نہیں نصیب ہوگی ۔

٭ انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے ۔

٭ خون، مشک، عشق اور ناجائز دولت کی طرح عمر بھی چھپائے نہیں چھپتی ۔

٭ تماشے میں جان تماشائی کی تالی سے پڑتی ہے، مداری کی ڈگڈگی سے نہیں ۔

٭ جس بات کو کہنے والے اور سننے والے دونوں ہی جھوٹ سمجھیں اس کا گناہ نہیں ہوتا ۔

٭ مونگ پھلی اور آوارگی میں یہ خرابی ہے کہ آدمی ایک دفعہ شروع کردے تو سمجھ میں نہیں آتا ختم کیسے کرے ۔
ربط
 
یوسفی صاحب کی آخری مہم ’’شام شعرِیاراں‘‘ سے ایک اقتباس ،
جس میں وہ اپنی اہلیہ مرحومہ کی رخصتی اور اپنی ’’تیاری‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ اس باب کا عنوان ہے۔کہیں اوڑھ چَدریا سجنی گئیکوئی کفنی پہنے راہ تکت ہےکفن پہنے راہ تکتے ،

" کمرے کے ایک کونے میں میری آرام دہ ’’آرم چیئر‘‘ ہے جس پر صبح نو بجے سے رات کے دو بجے تک (تین گھنٹے کا وقفہ برائے لنچ، قیلولہ اور ڈنر) بیٹھا رہتا ہوں۔ دیکھئے پھروہی سوال نہ کیجئے گا کہ 14گھنٹے اس پر بیٹھے کیا کرتے ہو؟یہ کرسی میرا جو گیا مرگ چھالا ہے اوریہی میرا راج سنگھاسن اور تخت طائوس۔ اس کوہر دو معنی میں بوریائے فلاکت بھی کہہ سکتے ہیں۔ چناں چہ مرزا اس کرسی کو میری تصویر کسمپرسی کہتے ہیں۔اس سے تین انچ کےفاصلے پر میرا 6x3فٹ بیڈ ہے جس پر ٹھیک دو بجے زرد چادر اوڑھ کر سونے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ میرے بےحد پسندیدہ بسنتی رنگ کی یہ چادر مرحومہ نے بڑے شوق سے اپنے ہاتھ سے اپنے لئے سی تھی۔ ہلکے زرد رنگ کی دوہری چادر میں ہلدی سے بھی زیادہ پیلے رنگ کی اریب گوٹ بڑی کتر بیونت کے بعد لگائی تھی۔ آخری دن دمِ وداع یہی چادر اوڑھے ہوئے تھیں۔ رخسار بھی ہمرنگ چادر ہوچلے تھے۔سب نے کہا، یہ چادر بھی فقیر فقراکو دے دلا دو۔ سومیں نے سب سے اتاؤلے باؤلے سوالی، دھجاداری بیراگی کو یہ کفنی سونپ دی۔ کہیں اوڑھ چَدریا سجنی گئی، کوئی کفنی پہنے راہ تکت ہے۔روبینہ نے جب تیسری دفعہ بھری محفل میں مجھے فہمائش آمیز مشورہ دیا کہ آپ ایک سیکرٹری یا اسسٹنٹ کیوں نہیں رکھ لیتے جو ان کتابوں کو ڈھنگ سے رکھے، ڈسٹنگ کرے، دیکھ ریکھ کرے، کیٹلاگ بنائے، سارا گند، سارا دلدر نکال پھینکے۔ کمرے کو انسانوں کے رہنے کے قابل بنائے۔’’دلدر کا نصف بدتر حصہ تو میں خود ہوں۔ جی چاہے تو اسے Augean Stables کہہ سکتے ہیں۔ برا نہیں مانوں گا۔ ایک عمر ایسی بھی آتی ہے جب انسان ان نفاستوں، ایسے بکھیڑوں سے لاتعلق اور بے نیاز ہو جاتا ہے۔ یہ عرفان حیات اور روشن ضمیری کی منزل ہے۔‘‘مرزا محفل میں فقرہ پہ فقرہ یوں چست کرتے ہیں جیسے پالی میں اصیل مرغے لڑا رہے ہوں۔ ہمارے فقرے کا پوٹا چیر کے رکھ دیتے ہیں۔ عرفان حیات سے متعلق ہمارا فقرہ شرارتاً ان تک پہنچایاگیا تو پیٹ پکڑ پکڑ کر ہنسے۔ شام کو ملاقات ہوئی تو اپنے ردعمل کو دہراتے ہوئے فرمایا ’’معاف کرنا Pompous آدمی کی مثال ایک ایسے قوال کی ہے جسے اپنے ہی گانے پر حال آجائےاور مجھ جیسے لوگ پن چبھو چبھو کر دیکھ رہے ہوں کہ ڈھونگ تو نہیں رچارہا۔ تم جسے عرفان حیات کہہ رہے ہو وہ درحقیقت خوف و دہشت ممات ہے اور جسے تم روشن ضمیری سمجھ بیٹھے ہو وہ علامت و ملامت پیری ہے! تم اپنی کوٹھریا کو کتاب محل اورعشرت کدہ کہتے کہتے اب بودھ گیا کہنے لگے ہو۔ اپنے خلجان پر نروان کا دھوکہ ہونے لگا ہے۔"
قارئین!اللہ پاک یوسفی صاحب کو جنت میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ اور قارئین کو صبرکہ اس کے علاوہ کوئی رستہ بھی تو نہیں۔’’کہیں اوڑھ چَدریا سجن گیا‘‘۔
حسن ثنار
 
پاکستان میں اپنے کیریئر کا آغاز یوسفی صاحب نے ایک کلرک کی حیثیت سے کیا اور ترقی کرتے کرتے بینک کے صدر کی مسند تک پہنچ گئے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جب وہ ایک بینک میں اعلیٰ منصب پر فائزتھے تو جنرل ضیاء نے ان کے ساتھ دیگر دو بینکوں کے صدور کو بھی ایوانِ صدر طلب کرکے اپنی شان میں کچھ مداح سرائی کی تحکمانہ درخواست کی۔جس کے جواب میں یوسفی صاحب نے اپنی جیب سے استعفیٰ نکالا اور یہ کہتے ہوئے حاکمِ وقت کو پیش کر دیا کہ اتنے قلیل وقت میں تو مذمت بھی نہیں کی جاسکتی۔

ایک محفل میں جون ایلیا کہنےلگے یوسفی صاحب میرے پاس اب پینتیس کُرتےاورایک پاجامہ رہ گیا ہے۔یوسفی صاحب نے برجستہ کہا،اسےبھی کسی کوبخش دیجئے تاکہ ایک طرف سے تو یکسوئی ہو۔

ایک باریوسفی صاحب اور جون ایلیا میں کسی بات پر شکررنجی پیدا ہوگئی تو جون ایلیا نے عالمِ اشتعال میں انہیں سودخورکہہ دیاجس کے جواب میں یوسفی صاحب شاہدرسام سے صرف اتنا کہہ سکے کہ آپ جون کی بے پناہ حوصلہ شکنی کیجیے۔

یوسفی صاحب کی حاضرجوابی بلکہ حسن ِ طلب کا ایک واقعہ رحمٰن فارس بھی بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک بار یوسفی صاحب لاہور جمخانہ میں ہونے والی کسی تقریب موجود تھے کہ رحمٰن کی جاننے والی ایک خاتون نے یوسفی صاحب سے کہا ’’آپ تو ہمارے قبلہ و کعبہ ہیں‘‘۔یوسفی صاحب نے برجستہ جواب دیا۔’’مادام! وہاں حجرِ اسود بھی تو ہے‘‘۔

صاحب ِ فراش ہونے کے بعد یوسفی صاحب اکثر کہا کرتے کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ شکایت بزرگوں کو یہی رہتی ہے کہ ان کی بات نہیں سنی جا رہی۔ حالانکہ انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ ازکارِ رفتہ ہو چکے ہیں۔اور انہیں بڑھاپے میں چار قلتوں یعنی قلتِ طعام، قلتِ کلام، قلتِ نوم اورقلت العوام کا خود کوعادی بنا لینا چاہیے۔
ربط
 

جاسمن

لائبریرین
مشتاق احمد یوسفی سے ملاقات: قہقہوں بھری چند شریر یادیں

20/06/2018 رحمان فارس n/a Views


”ادھر کچھ ماہ قبل ایک شوخ چنچل لڑکی ہمیں ملی۔ آدھ پون گھنٹے کی گفتگو کے بعد کہنے لگی کہ یوسفی صاحب! بات چیت میں تو آپ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں مگر تحریر میں بالکل لچّے لگتے ہیں“۔
(مشتاق احمد یوسفی)

صاحبو! یہ جملہ ان درجنوں قہقہہ آور غیر مطبوعہ جملوں میں سے ایک ہے جو ہم نے یوسفی صاحب سے ملاقات کے دوران انہی کی زبانی سنے اور آپ کو سنانے والے ہیں۔ جب برسوں پرانے کسی خواب کی تعبیر مل جائے تو انسان خوشی سے گنگ، حیرت سے گم سم اور بے یقینی سے ہکّا بکّا رہ جاتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی سے مل کر ہم پر یہ تینوں شدتیں ایک ساتھ نازل ہوئیں۔ یہ کہنے میں کیا تکلف اور تامل کریں کہ یوسفی نے ہمارے بچپن کی گھنگھور اداسیوں کو سہلایا، نوجوانی کے گھٹا ٹوپ شب و روز کو گرمایا اور گنجلک آلامِ روزگار کو آسان بنایا ہے! ہم ان سے ملے بغیر ان کے ان گنت احسانوں تلے دبے تھے۔ سو جب ملے تو ہمارا ساکت و ششدر رہ جانا ہی بنتا تھا۔

معروف و بےمثال شاعرہ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر کا یہ احسان شاید ہم ساری زندگی نہ چکا پائیں کہ انہوں نے ہمیں یوسفی سے ملوایا۔ حسیب بھائی یعنی عنبر کے شوھرِ نامدار بھی ہمراہ تھے۔ ہم گھر ڈھونڈ ڈھانڈ کر پہنچے تو دروازے پر ایک عدد جیّد کتے کو چشم براہ پایا۔ دیدہ و دل ہی نہیں بلکہ دندان و دم بھی فرشِ راہ کیے بیٹھا تھا۔ یوسفی کا مرحوم کتا (اللہ بخشے) سیزر یاد آگیا۔ یہ موجودہ سگ اس تاریخی سیزر کا سگا پڑپوتا ہے شاید۔ اس کا نام البتہ یوسفی نے ”زار“ رکھ چھوڑا ہے۔ واضح رہے کہ یہ زار و قطار رونے، آہ و زاریاں کرنے یا ”پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیں“ والا زار نہیں، روسی شہنشاہوں والا زار ہے۔ نام تو تھا ہی شہنشاہوں والا، عادات بھی ہوبہو ویسی ہی تھیں۔ دم سادھے فرش پر یوں پڑا تھا جیسے تخت پر نشئی بادشاہ۔ ”جو ناخلف دکھائیں سو ناچار دیکھنا“
کتے نے (کہ جس کو کتا کہنا بدتہذیبی ہوگی) انگڑائی لی تو عنبر سہم کر کہنے لگیں کہ ”ارے ارے دیکھیے! ہمیں ہی کاٹنے کی تیاری کر رہے ہیں یہ“۔ خانساماں نے آکر ترنت اس ناہنجار کو طوق در گلو کیا تو ہماری گلوخلاصی ہوئی اور ہم اندر گھسے۔

یوسفی کے گھر کے ڈرائینگ روم سے جمالیات کا ہر پہلو ہویدا تھا۔ روشنی، رنگ، خوشبو، مصوری، موسیقی، مجسمے اور محبت! ہر شے ترتیب سے رکھی ہوئی۔ یوسفی داخل ہوئے تو ہم سمیت سب اسبابِ جمالیات نے تعظیم سے استقبال کیا۔ شلوار قمیص میں لپٹا چھیانوے سالہ انتہائی لاغر و نحیف جسم، ستا ہوا مگر ہنستا مسکراتا مطمئن چہرہ، آواز ایسی موہوم، ملائم اور مدہم کہ کان لگائے بغیر سننا مشکل (ہم تو خیر ان کے حرف حرف کے لیے ہمہ تن گوش تھے)۔ اٹھک بیٹھک اور چلت پھرت میں نقاھت مانع تھی مگر جب بولنے لگے تو چست و چاق و چوبند چٹکلے تھے کہ رنگ برنگ پھلجھڑیوں کے مانند ان کے لبوں سے پھوٹ رہے تھے۔ باتیں ایسی کہ مارے خوشی کے دل دو پھانک ہوجائے۔ آتے ہی وہ صوفے پر بیٹھ گئے تو ہم بھی ہاتھ باندھے دھڑکتے دل لیے بیٹھ گئے۔

کمرے میں ایک دم گھمبیر خاموشی چھا گئی۔ ہم نے سوچا شاید لیجنڈ کی موجودگی ایسی ہی ہوتی ہے۔ کافی دیر تک یوسفی ٹکٹکی باندھ کر فرش کو اور ہم ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے نگاہ اٹھائی اور عنبر سے کہنے لگے، “بھئی آپ کے جوتے بہت خوبصورت ہیں“۔ عنبر اس غیرمتوقع جملے (حملے) کی تاب نہ لاکر شکریہ ادا کرکے ہنسنے لگیں۔ یوسفی بولے: ”آپ ہی کی عمر کی ہوں گی وہ لڑکی جو ہم سے ملیں۔ ڈاکٹر بن رہی تھیں شاید۔ رخصت ہوتے وقت اٹھلا کر کہنے لگیں کہ یوسفی صاحب! ایک بات تو بتائیے۔ آپ جیسے عمررسیدہ مرد جب مجھ جیسی نوجوان لڑکیوں سے ملتے ہیں تو جاتے جاتے یہ کیوں کہتے ہیں کہ بھئی! ملتی رہا کرو“۔

اب قہقہوں کا دور شروع ہوا۔ ہم نے ازراہ تلطف پوچھا کہ ”سرکار! آج کل طبیعت کیسی ہے؟ “
کہنے لگے، “میاں! اپنے آپ پر پڑا ہوں۔ زندگی میں تو غم سے چھٹکارا نہیں ملنے کا“۔
ہم نے عرض کیا کہ ”جی ہاں! غا-لب نے بھی یہی کہا تھا کہ قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں“۔
ایک دم سنبھل کر بیٹھ گئے اور بولے کہ ”نہیں! قیدِ حیات و بنتِ عم اصل میں دونوں ایک ہیں“۔



ایک اور قہقہہ لگا۔ ہم نے کریدنے کی خاطر پوچھا کہ“مرشد! آپ کی کتابوں میں سے کون سی آپ کے دل کے بہت نزدیک ہے؟ “
آنکھوں میں شرارت بھری چمک لیے بولے کہ ”کتابوں کی تو خبر نہیں البتہ کچھ چہرے ضرور دل کے نزدیک ہیں جن کا نام لینے میں ہمیں تکلّف ہے“۔

جملے کی داد دیجے، صاحبو! ایسے جملے بولنے والے اب ایک ہاتھ کی ایک انگلی پر گنے جاسکتے ہیں۔ یوسفی کے معاملے میں ہم ایک سے آگے کی گنتی کے قائل نہیں کیونکہ ان کا کوئی ثانی ہے ہی نہیں۔
ہم نے سگِ زار کا ذکر چھیڑا کہ ماشا اللہ سے بہت صحت مند، چوکس اور ہوشیار کتا ہے۔ اللہ نظرِ بد اور مست ماداؤں سے بچائے۔
سوچ میں پڑ گئے۔ پھر فرمایا: ”ایک فرانسیسی ادیبہ کا قول ہے کہ مَیں مردوں کو جتنا قریب سے دیکھتی ہوں، اتنا ہی مجھے کتے اچھے لگتے ہیں“

اس سے پہلے کہ ہمارا فلک شگاف قہقہہ ان کی سماعت پر گراں گزرتا، بولے: ”مرزا کے ایک دوست ہیں جو کتیا کو کتیا نہیں کہتے، ازراہِ احترام و عقیدت فی میل (Female) کہتے ہیں۔ مرزا کو جب سے اس بات کی خبر ہوئی ہے وہ بھی احتیاطاً اپنی بیگم کو فی میل کہنے لگے ہیں“۔

بلند بانگ قہقہے ذرا تھمے تو یوسفی پینترا بدل کر عنبر سے پوچھنے لگے“ آپ کہاں ہوتی ہیں؟ اور کیا شغل فرماتی ہیں؟ “
عنبر نے بتایا کہ ”ہم کراچی ہی میں ہوتے ہیں اور شاعری کرتے ہیں“۔ نسیان کے باعث یوسفی بار بار بھول جاتے تھے کہ وہ عنبر سے یہ سوال پہلے پوچھ چکے ہیں لہٰذا اگلے ڈھائی گھنٹے میں بہت معصومیت سے بہتیری بار یہ سوال پوچھا اور ہر بار عنبر نے مسکرا کر وہی جواب دیا۔ اور تو اور ”لچّے“ والے جملے سے بھی ہم بارہا شاد کام ہوئے اور یوسفی کے انداز و ادا کچھ ایسے شاداب ہیں کہ ہربار پہلے سے زیادہ ہنسی آئی۔

ایک بار تو ہم نے جی کڑا کر کے پوچھ ہی لیا کہ ”مرشد! جس لڑکی نے آپ کو لچا کہا، آپ اس پر برہم نہیں ہوئے؟ “
معصوم سی شکل بنا کر کہنے لگے: ”نہیں، میاں! کہتی تو وہ ٹھیک ہی تھی“

پھر کمرے کے اطراف و اکناف پر ایک یوسفیانہ نظر ڈال کر بولے کہ ” وہ سامنے راجھستانی آرٹ کے دو نایاب نمونے ہیں۔ راجھستانی راجہ اور رانی کی ایسی انوکھی شبیہیں جو منّے منّے موتیوں سے بنائی گئی ہیں۔ ہماری کتاب آبِ گم کا ہندی میں ترجمہ ہوا۔ پبلشر موصوف ہم سے ملنے آئے تو کہنے لگے کہ یوسفی صاحب! رقم کی صورت میں نذرانہ تو ہم دے نہیں پائیں گے سو یہ دو نادر پینٹگز نذر ہیں۔ گر قبول افتد وغیرہ۔ سو ہم نے رکھ لیں کہ ”نہیں جو مال میسر، مصوّری ہی سہی۔“

ہم نے قریب سے جاکر مصوری کے وہ شاہکار دیکھے۔ واقعی شاہکار تھے۔ واپس آکر صوفے پر بیٹھے تو یوسفی کہنے لگے کہ ”آئل پینٹنگ اور ادھیڑ عمر عورت دور ہی سے دیکھنے پر اچھی لگتی ہیں“

ہم اس جملے کی ادھیڑ بن میں گم تھے کہ عنبر نے پوچھ لیا کہ ”یوسفی صاحب! آج کل آپ انٹرویو دیتے ہیں کیا؟ “
بولے: ”کچھ دن قبل ایک محترمہ انٹرویو لینے آ دھمکیں۔ پہلا سوال ہی یہ کیا کہ یوسفی صاحب! آپ نے کبھی عشق کیا ہے؟ ہم نے کہا: بی بی! ابھی تو آپ ٹھیک سے بیٹھی بھی نہیں اور یہ مطالبہ؟ “
ہنس ہنسا چکنے کے بعد ہماری باری تھی کچھ کہنے اور (کھری کھری) سننے کی۔ سو ہم نے پوچھ لیا کہ آج کل کیا مصروفیات ہیں؟

کہنے لگے کہ ”میاں! انسان اس وقت تک کلچرڈ نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی ہی کمپنی سے محظوظ ہونا نہ سیکھ لے۔ ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال“
ہم نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ ”مرشد! آپ ہی نے لکھا ہے کہ کلچرڈ آدمی کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ مارلین منرو کے سراپا کی گولائیوں کو ہاتھ ہلائے بغیر بیان کرسکے“۔
کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ اتنے میں عنبر نے پوچھا کہ ”یوسفی صاحب! پھلوں میں کیا پسند ہے؟ “

بولے: ”ڈرائی فروٹ۔ خاص کر نکاح کا چھوارا۔ ویسے تو مونگ پھلی بھی پسند ہے مگر مونگ پھلی اور آوارگی میں خرابی یہ ہے کہ آدمی ایک دفعہ شروع کردے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ختم کیسے کرے“
تھوڑا سا ہنس ہنسا کر بولے: ”بھئی آجکل مونگ پھلی پھانکنے کا وقت کس کے پاس؟ اب تو کمپیوٹرائزڈ تیزرفتار دور ہے۔ ہماری یہ حالت ہے کہ ایک اچھا جملہ تین چار دن تک نہال اور سرشار کیے رکھتا ہے“

ڈیڑھ گھنٹے کی لذت آمیز و قہقہہ آور گفتگو کے بعد ہم اور عنبر آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اٹھنے کے اشارے کرنے لگے کہ یوسفی زیادہ دیر بیٹھ کر کہیں تھک نہ جائیں سو ہمیں چلنا چاھئے اب۔
یہی بات ان سے کہی تو بولے: ”بھئی جانے کا کوئی اور بہانہ تلاش کرو“
عنبر بولیں کہ ”یوسفی صاحب! ہم تو جانے کا نام نہیں لیں گے۔ آپ ہی کی تھکان کا خیال ہے“
جواب میں عنبر سے کہنے لگے: ”بھئی آپ کی قمیص بہت خوبصورت ہے۔ (پھر ہلکے سے توقف کے ساتھ) اب ہم قمیص سے دھیرے دھیرے شمال کی جانب جائیں گے۔ (ھلکی سی مسکراھٹ کے ساتھ) یہ قمیص اتنی خوبصورت ہے کہ ہمارا بھی ایسے کپڑے پہننے کو دل چاہ رہا ہے“۔

یوسفی اب مکمل چارج ہوچکے تھے۔ عنبر نے پوچھا کہ ”اپنی کمپنی انجوائے کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ “
بولے: ”ایسے دوست بنائیے اور ایسی کتابیں پڑھیے کہ جو آپ کو سوچنے کی تحریک دیں“
عنبر بولیں ”اور اگر ایسے دوست نہ ہوں تو؟ “
”ایسی حالت میں عام طور سے لڑکیاں شادی کرلیتی ہیں“

حسیب بھائی کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے۔ ہم نے کہنی سے ٹہوکا دیا کہ کچھ کہیے تو کہنے لگے کہ ”یوسفی صاحب! ہم نے اور عنبر نے شادی تک ایک دوسرے کو نہیں دیکھا تھا“
یوسفی بولے: ”پرانے زمانے میں بھی دلہا دلہن کو ایک دوسرے کے چہرے آئینے میں دکھانے کی رسم (آرسی مصحف) نکاح کے بعد ہوا کرتی تھی۔ نکاح سے پہلے چہرے دکھانے میں کسی ایک یا دونوں فریقوں کے بدکنے اور نکاح کینسل ہوجانے کا ڈر تھا“

ہم نے ہنستے ہوئے کہا“ حالانکہ آپ نے خود ہی لکھا ہے کہ نکاحِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں“
کہنے لگے: ” بھئی ہمارے ہاں کراچی میں مردِ مومن کو مردِ میمن کہا جاتا ہے“
باتوں باتوں میں انور مقصود، فاطمہ ثریا بجیا اور زبیدہ آپا کا ذکر آیا تو کہنے لگے کہ ”زبیدہ آپا کو دال بگھارنے کی رائلٹی ملتی ہےجبکہ ہمیں شیخی بگھارنے کی“

قہقہے لگ چکے تو ہم نے پوچھا کہ ”آج کل کیا پڑھ رہے ہیں؟ “
ھلکے سے تبسم کے ساتھ فرمایا: ”انگریزی ادب زیرِ مطالعہ ہے۔ کیونکہ اردو کا فکشن اور بیشتر ناول ایسے ہیں کہ بندہ بیوی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہتا“
حسیب بھائی دوبارہ گفتگو میں تشریف لائے: یوسفی صاحب! آپ کو کونسا موسم اچھا لگتا ہے؟ “
فرمایا: ”اپنے اندر کا موسم۔ اس سے جڑ جائیں تو باہر کی گرمی سردی کی کیا فکر! “

پھر عنبر سے کہنے لگے: ”اقبال کا مصرعہ ہے کہ گوہرِ تابدار کو اور بھی تابدار کر۔ اس میں آپ گوہر کے لفظ کو شوہر سے بدل کر اپنے شوہر کو سنا سکتی ہیں“
ھر ہر جملہ ایسا تھا کہ قربان جائیے۔ ہم نے پوچھا کہ ”آپ نے اپنی تمام تصنیفات میں کھانے پینے کا بہت ذکر کیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ “
کہنے لگے: ”لڑکپن اور جوانی میں جب بدمعاشی کے تمام ذرائع بزرگوں نے بند کردیے تو کھانا پینا ہی بچا تھا“

عنبر نے موقع دیکھ کر کہا کہ ”فارس! بہت باکمال شاعر بھی ہیں“
ہمیں دیکھ کر کہنے لگے: ”میاں! کچھ ہوجائے پھر؟ “


ہم ایک دم گڑبڑا گئے، کہاں یوسفی جیسا نابغۂ روزگار، کہاں ہماری تک بندیاں۔ عرض کی کہ ”یوسفی صاحب! اب آپ کو بھلا ہم کیا سنائیں“
کہنے لگے: ”اچھا! تو آپ ہمیں اس قابل نہیں سمجھتے“
ہم نے ڈرتے ڈرتے تین شعر پیش کیے۔ پہلے دو پر بھرپور داد دی جو تاعمر ہمارا اثاثہ رہے گی۔ شعر یوں تھے:

خوشبوئے گل نظر پڑے، رقصِ صبا دکھائی دے
دیکھا تو ہے کسی طرف، دیکھیے کیا دکھائی دے

تب مَیں کہوں کہ آنکھ نے دید کا حق ادا کیا
جب وہ جمالِ کم نما دیکھے بِنا دکھائی دے!

تیسرا شعر پڑھا تو یوسفی نے ایک تاریخی جملہ کہا۔ شعر تھا کہ:
دیکھے ہوؤں کو بار بار دیکھ کے تھک گیا ہوں مَیں
اب نہ مجھے کہیں کوئی دیکھا ہوا دکھائی دے!

شعر سن کر مسکرائے اور فرمایا: ” بھئی! مردوں کی بدنیتی کی کیا خوب شاعرانہ تاویل لائے ہیں آپ“
ہم عش عش کر اٹھے حالانکہ غش کھانے کا مقام تھا۔

ڈھائی گھنٹے کی نشست کے بعد بھی یوسفی کے وہی چہچہے تھے، وہی ہمھمے اور وہی ولولے۔ ہم نے یوسفی کے ساتھ ڈھیر ساری تصاویر بنائیں اور رخصت چاھی۔ اٹھتے اٹھتے عنبر نے مشہور جملہ داغنے کی کوشش کی کہ ”ہم اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں زندہ ہیں۔ “
کہنے لگے: ”جو کہتا ہے کہ ہم اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں زندہ ہیں وہ خود کو زلیخا سمجھتا ہے“

ہم قہقہے لگاتے اٹھے اور کمرے سے دالان تک آنے کے لیے مرشد کو اپنے کاندھے کا سہارا پیش کیا۔ ہمارے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر دوسری طرف کھڑی عنبر سے کہنے لگے: ” بھئی! آپ بھی تو سہارا دیجے“
پھر عنبر کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے: ”ہماری عمر میں لاکھوں میں سے ایک آدھ مرد میں شرارت اور بدمعاشی بچتی ہے۔ ہم وہی ایک آدھ ہیں“

رخصتی قہقہے سے ان کے گھر کا دالان گونج اٹھا۔ ہم بے اختیار یوسفی صاحب کے گلے لگ گئے۔ پاؤں چھوئے۔ عقیدت آنسو بن کر آنکھوں سے جاری تھی۔ مشتاق احمد یوسفی کروڑوں لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں مگر ہم ان کے خاص الخاص عاشق ہیں۔ مولائے سخن ان کو عمرِ خضر عطا فرمائے کہ ریاکار لکھاریوں، شاعر نما مداریوں اور شہرت کے پجاریوں کے دور میں یہ شخص سَچّا، سچّا، کھرا اور خالص فنکار ہے!

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، ات ہم نفَسو! وہ خواب ہیں ہم

Feb 12, 2018
 
Top