یوسف سلطان
محفلین
عہد پُختہ کیا رندوں نے ، یہ پیمانے سے
خاک ہوجائیں گے، نکلیں گے نہ میخانے سے
میرے ساقی!ہوعطا مجھ کوبھی پیمانے سے
فیض پاتا ہے زمانہ ترے میخانے سے
یک بہ یک اور بھڑک اُٹھتا ہے سمجھانے سے
کوئی کیا بات کرے آپ کے دیوانے سے
رند مِل مِل کے گلے روئے تھے پیمانے سے
جب مری لاش اٹھائی گئی میخانے سے
ہم تو کیا پیتے پلاتے سرِمیخانہ،مگر
دل لگی ہوتی رہی پُھول سے، پیمانے سے
مجھ سے پوچھے کوئی،کیا مجھ پہ جُنوں میں گزری
قیس و فرہاد کے قصے تو ہیں افسانے "سے"
واعظِ شہر کی توبہ نہ کہیں ٹوٹی ہو
آج "ہُو حق"کی صدا آتی ہے میخانے سے
كون يہ آگ لگا ديتا ہے،معلوم نہيں
روز اٹھاتا ہے دھواں سا مرے كاشانے سے
ترکِ ثابت قدمى ایک قيامت ہو گى
اور گِھرجاؤ گےآلام ميں، گھبرانے سے
پا ليا آپ كو، اقرارِ محبت نہ كريں
بن گئی بات مرى،آپ كےشرمانےسے
رِند کے ظرف پہ ساقی کی نظر رہتی ہے
اِسے چُلّو سے پِلا دی ،اُسے پیمانے سے
شیخ کے ساتھ یہ رِندوں پہ قیامت ٹوٹی
پینے والے بھی نکالے گئے میخانے سے
باغباں! پھونک، مگر شرط يہ ہےگلُشن ميں
آگ پھولوں پہ نہ برسے ميرے خَسخانے سے
اس سےبہترنہ ملے فرشِ سكينت شايد
ہم پُكاريں گے اُنہيں بيٹھ كے ويرانے سے
بات سُنتے جو نصؔيرآپ، تو اک بات بھى تھى
بات سُنتےنہيں، كيا فاٸدہ سمجھانے سے
پیر نصیرالدین نصیر رحمتہ اللہ علیہ