احمد ندیم قاسمی عورت - احمد ندیمؔ قاسمی

عورت
وجود میرا کہیں ہے بھی ، یا کہیں بھی نہیں

اُدھر میں دعوتِ شرب و طعام کے ہمراہ
وہ ناگزیر ضرورت رہی ہوں، جس کے بغیر
ہر ایک عیش کی تقریب نامکمل ہے

اِدھر میں چلتی ہوئی اِک مشین کا پرزہ
جو گھس گیا ہو تو کوڑے کے ڈھیر کا حصہ

اُدھر میں ملکہِ عالم کہ جس کے حسن کا سحر
شہنشہوں کو کھلونا بنائے رکھتا ہے

اِدھر میں صبح سے تا صبح ایک خادمہ ہوں
کہ جس کا ہاتھ ذرا سا رُکے ،تو بارشِ سنگ
کچھ ایسے برسے کے سب کچھ اُدھیڑ کر رکھ دے

میں اس تضاد کی چکی میں پِس رہی ہوں سدا
مرا وجود قیامت بھی اور مصیبت بھی!​
احمد ندیمؔ قاسمی
 
Top