ساحر عورت ، نظم

لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
روح بھی ہوتی ہے اس میں کہاں سوچتے ہیں

روح کیا ہوتی ہے اس سے انہیں مطلب ہی نہیں
وہ تو بس تن کی تقاضوں کا کہا مانتے ہیں
روح مرجائے تو یہ جسم ہے چلتی ہوئی لاش!
اس حقیقت کو سمجھتے ہیں نہ پہچانتے ہیں

کتنی صدیوں سے یہ وحشت کا چلن جاری ہے
کتنی صدیوں سے ہے قائم یہ گناہوں کا رواج
لوگ عورت کی ہر ایک چیخ کو نغمہ سمجھے
وہ قبیلوں کا زمانہ ہو کہ نہروں کا رواج

جبر سے نسل بڑھے، ظلم سے تن میل کریں
یہ عمل ہم میں ہے، بے علم پرندوں میں نہیں
ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

اک بجھی روح لیے جسم کے ڈھانچے میں لیے
سوچتی ہوں میں کہاں جا کے مقدر پھوڑوں
میں نہ زندہ ہوں کہ مرنے کا سہارا ڈھونڈوں

کوں بتلائے گا مجھ کو کس سے جا کر پوچھوں
زندگی قہر کے سانچوں میں ڈھلے گی کب تک
کب تلک آنکھ نہ کھولے گا زمانے کا ضمیر!
ظلم اور جبر کی یہ ریت چلے گی کب تک؟

ساحر لدھیانوی
 
Top