عوام کی کھال حاضر ہے.... ہے کوئی طلبگار....؟

ذی الحجة کا چاند نظر آتے ہی شہروں میں مختلف سائز کے بینرز اور اشتہارات نظر آنے لگتے ہیں، پمفلٹ تقسیم ہونے لگتے ہیں اور مخیر حضرات کے نام اپیلیں نشر ہونے لگتی ہیں یعنی آپ کی قربانی کی کھالوں کے مستحق کون کون ہیں : فلاں ہسپتال، فلاں ادارہ، فلاں یتیم خانہ، فلاں ترس خانہ .... عید سے ایک دن پہلے باقاعدہ ٹینٹ لگ جاتے ہیں کہ جس کو جس ادارے سے ہمدردی یا عقیدت ہے وہ کھال کا ہدیہ وہاں پہنچا دے وہاں عملہ بھی بیٹھا ہوتا ہے باقاعدہ آپ کو رسید دیتا ہے۔ ایسے میں بندے کو بکرے کی قسمت پر رشک آنے لگتا ہے کہ بکرے کے بدن کے اندر اور باہر کوئی شے رائیگاں نہیں ہے خون، انتڑیاں، اوجڑی، سری پائے، گردہ کلیجی، مغز، زبان اور سارا گوشت اور تو اور بلوں کتوں کے رسیا سارے پھیپھڑے بھی خرید کر لے جاتے ہیں، آخر میں بکرے کی کھال بھی اچھے داموں بک جاتی ہے۔ بکرے کو اپنی قسمت پر ناز کرنا چاہیے کہ وہ اپنی مختصر عمر صرف اپنی خیر منانے میں ہی گزار دیتا ہے۔ یوں تو ہمارے ہاں کافی عرصہ سے مہنگائی کا واویلا ہو رہا ہے یہ واویلا ایوانوں تک بھی پہنچا۔ کسی نے ایک تحریک پیش کر دی تو بحث ایسا رُخ اختیار کر گئی کہ مہنگائی زیر بحث ہی نہ آ سکی۔ اگر مہنگائی پر پورا ایوان بحث کر بھی لیتا تو کیا ہوتا ۔؟ کیونکہ مہنگائی کا توڑ تو حکمرانوں کے پاس بھی نہیں ہے.... دراصل وہ کسی مسئلے کو حل کرنے کے لئے تشریف نہیں لائے، مسائل میں وہ خودکفیل ہیں اسی لئے اپنے لئے مسئلہ پیدا کر لیتے ہیں پھر اسی کو حل کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرتے رہتے ہیں۔ سیلاب کے دوران ابتلا کا زمانہ آیا تھا.... بروقت کوئی تدبیر نہ کرنے کی وجہ سے وہ زمانہ ٹھہر گیا۔ منڈیوں میں خدا خوفی کا رواج نہیں ہے، حکمرانوں میں خدا ترسی کا راج نہیں ہے، عیدین کے موقع پر ہمیشہ پاکستان کے اندر بلاجواز مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔
اس مرتبہ حکومت نے پٹرول کی قیمت بڑھا دی تو پھر ساری مارکیٹوں کے اندر مہنگائی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ایوان کے اندر جب ایک رکن نے چینی کے دام بڑھ جانے کا رونا رویا.... تو متعلقہ وزیر صاحب نے ایک گھڑا گھڑایا جواب پڑھ کر سنا دیا جس میں لکھا تھا کہ یوٹیلٹی سٹور میں چینی 55 روپے کلو عام بک رہی ہے اور باقی سٹوروں پر 60 روپے کلو.... یوٹیلٹی سٹورز نے اشیاءکی تعداد مقرر کر رکھی ہے اتنی مقدار میں باقی اشیاءخریدیں گے تو چینی ملے گی مگر اس لاہور شہر میں 80 سے 90 روپے تک چینی مل رہی ہے.... حکومت کی دور اندیشی کو داد دینے کو دل چاہتا ہے۔ جب تجویز آئی کہ عوام کو قائل کیا جائے کہ وہ ہفتے کے دو دن چینی نہ استعمال کریں تو ان سے یہ بھی کہا جائے کہ کوشش کریں ہفتے کے دو دن کوئی بچہ پیدا نہ ہو، ہفتے کے دو دن کسی کی شادی نہ ہو، یہ قوم ہفتے کے دو دن فاقہ کیوں نہ کرے.... فاقہ کرنا بڑی اچھی عادت ہے شرط یہ ہے کہ حکمران بھی فاقہ کریں۔ سالوں پہلے ایک منصوبہ بنایا گیا تھا کہ ہفتے میں دو دن گوشت کا ناغہ ہو گا.... تو اس سے کیا فرق پڑا جو صاحب حیثیت گوشت خور ہیں وہ دو دن کا گوشت فریزر میں سنبھالنے لگے، نہ تو اس عمل سے گوشت کی کھپت میں کمی ہوئی اور نہ گوشت سستا ہوا۔ پالیسیاں بنانے والوں کی عقل پر رونا آتا ہے کیا وہ ملک بھر کی مٹھائیوں کی دوکانیں بند کروا سکتے ہیں، بیکریاں بند کروا سکتے ہیں، مشروبات کی فیکٹریاں بند کروا سکتے ہیں، سہولتیں وافر کرنے کی بجائے یہ خردمند سانس بند کر دینا چاہتے ہیں۔
غریب لوگ پہلے بھی کتنی چینی استعمال کرتے ہوں گے.... محض صبح کی چائے کے لئے.... اور پھر غریبوں اور متوسط لوگوں کو تو گوشت بھی نصیب نہیں ہوتا، دودھ بھی نصیب نہیں ہوتا، دو چمچ چینی سے بھی آپ انہیں محروم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک زرعی ملک ہے۔ یہاں گنے کی کاشت عام ہے.... زیادہ سے زیادہ گنا اگایا جا سکتا ہے۔ ملکی ملوں کا منہ کھلوایا جا سکتا ہے، مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اپنی چینی آپ مہنگے داموں باہر فروخت کر دیں یا سٹور کر لیں اور باہر سے ناقص اور مہنگی چینی منگوا کے عوام کو ترسائیں۔ ایک چینی پر منحصر نہیں آج ہر طبقے کے لئے پیٹ بھر کے روٹی کھانا محال ہے۔ پیاز 80 روپے کلو ہے، لہسن 240 روپے کلو ہے، آلو 60 روپے کلو ہیں، کوئی سبزی کوئی دال اس قیمت پر نہیں بک رہی کہ غریب طبقہ دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کھا سکے۔
روز غربت مٹانے کی باتیں ہوتی ہیں مگر وہ ایک طبقہ جو مزدور پیشہ یا گھریلو ملازمت پیشہ ہے اس کا سب سے بڑا مسئلہ ذرائع آمد و رفت ہیں پٹرول مہنگا ہو جانے سے بسوں اور رکشوں کے کرائے بڑھ گئے ہیں۔ ایک گھر کے چار آدمی اگر بس پر سفر کر کے آئیں جائیں تو ان کی آدھی تنخواہ خرچ ہو جاتی ہے۔
روٹی میں الجھا ہوا غریب کٹہرے اور مکان کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ کیسی نحوست اس ملک کے اندر آ گئی ہے.... برکت اڑتی جا رہی ہے.... غلاظت پھیلتی جا رہی ہے کوئی تدبیر نہیں کرتا کہ زرعی ملک کو آباد کر کے زراعت کو فوقیت دے۔ یہ ملک اپنی خوراک میں خودکفیل ہو سکتا ہے مگر جب کبھی یہ سوال اٹھایا جائے تو اقتدار کے بنچوں سے ہمیشہ یہ سوال سننے کو ملتا ہے کہ پچھلی حکومتوں نے کیا کیا تھا جو آپ ہم سے توقع رکھتے ہیں یا یہ سب پچھلی حکومت کا کیا دھرا ہے وغیرہ وغیرہ.... انتخابات میں آنے والی ہر جماعت اس وعدے کے ساتھ آتی ہے کہ وہ سارے مسائل حل کر دے گی، سارے دلدر دور کر دے گی مگر تخت پر بیٹھتے ہی اس کا حافظہ کمزور ہو جاتا ہے اور وہ سارا وقت پچھلی حکومتوں کے عیب گنوانے میں صرف کر دیتی ہے.... ایک شور سا ہے پورے ملک میں.... ایک بے سکونی ہے ایک انتشار ہے اسی سبب سے عجیب و غریب حادثات بھی ہوتے رہتے ہیں جن کے نفسیاتی عوامل حالاتِ حاضرہ سے جا ملتے ہیں۔
جب پیٹ بھر روٹی کھانے کو نہیں ملے گی۔ بل ادا کرنے کے پیسے نہیں ہوں گے۔ بچوں کے سکولوں کی فیسیں نہیں ادا ہو سکیں گی تو پھر گھروں کے اندر بات بات میں خنجر چل جائیں گے.... گولی چل جائے گی، دوہرے تہرے قتل ہو جائیں گے۔ اس قوم کو کوئی آسانی دو....سہولت دو.... وگرنہ اس عید پر عوام خود اپنی کھال پیش کرتے ہیں۔ عوام کہتے ہیں سفید پوش کہتے ہیں، متوسط لوگ کہتے ہیں ہماری کھال حاضر ہے.... اب کھال بھی اتار لیں ۔۔۔ شاید آپ کے کام آئے.... ہے کوئی جیالا متوالا کیمپ، کوئی زرداری گیلانی کیمپ، کوئی شریف تاثیر کیمپ .... کوئی قائم مرزا کیمپ، کوئی اسفند ہوتی کیمپ، کوئی بگتی رئیسانی کیمپ.... کوئی رحمانی اعوانی کیمپ.... کوئی موروثی نشانی کیمپ ....؟
عوام کی کھال حاضر ہے .... عوام کی کھال حاضر ہے۔!
دلڑی تپے سینہ جلے
جیڑا ڈکھے جیندڑی گلے
ہڈ چم سڑے لُوں لُوں تلے
اکھیاں ڈکھن دیداں سکن!
(خواجہ غلام فرید)
ترجمہ:۔ دل جل رہا ہے سینہ تپ رہا ہے، جان دکھی ہے زندگی تباہ حال ہے، ہڈیاں اور گوشت گل سڑ چکا ہے، رواوں رواوں دہائی دے رہا ہے.... آنکھیں دیکھنے کو ترس رہی ہیں۔ !

http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakista...rdu-online/Opinions/Columns/15-Nov-2010/16265
 
Top