عوام طالبانائزیشن سے نجات کیلئے سامنے آئیں

مغزل

محفلین
1236512201_BhataLebuor.jpg

جناب سندھ میں تو کاری کے قبرستان تک ہیں، آپ میری 95 کو میں کمی بیشی کا اختیار رکھتے ہیں ،
کہ وہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے ، آپ اپنےتئیں معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔
عورت استحصال کا شکار ہے
سندھ:عورتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ، نثار کھوکھر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سکھر
 

مغزل

محفلین
پاکستان میں وفاقی دار الحکومت اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں میں جولائی سے ستمبر 2008 تک خواتین کے خلاف2531 تشدد کے واقعات ہوئے ان میں سے 1592 پنجاب ،402 سندھ ،251سرحد،220بلوچستان اور 66 واقعات اسلام آباد میں وقوع پذیر ہوئے 2531واقعات میں سے 1953 کی ایف آئی آر کاٹی گئی جبکہ 323 واقعات کی کوئی رپورٹ درج نہیں کی گئی رپورٹ شدہ واقعات میں سے 441 قتل کے واقعات ہیں جن میں سے 242 پنجاب،50سندھ،129سرحد،18بلوچستان اور 2واقعات اسلام آباد میں رونما ہوئے پاکستان میں عورتوں کے خلاف جولائی تا ستمبر 2008 تشدد کے مختلف واقعات کی رپورٹ جمعرات کے روز اسلام آباد میں جاری کی گئی ہے عورت فاؤنڈیشن کی عہدیداران نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اس رپورٹ میں پاکستان میں خواتین پر تشدد کے اعداد و شمار کا تجزیہ دیا گیا ہے یہ رپورٹ ایک فلاحی تنظیم عورت فاؤنڈیشن نے شائع کی ہے تیسری سہ ماہی کے دوران پاکستان کے چاروں صوبوں اور اسلام آباد میں رپورٹ کے مطابق 2531 خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس میں سے 1592 واقعات ،پنجاب،402سندھ،251سرحد،220بلوچستان اور 66اسلام آباد میں وقوع پذیر ہوئے 2531 واقعات میں سے 1953 واقعات کی ایف آئی آر درج ہوئی ہے جبکہ 323 واقعات کی کوئی رپورٹ درج نہیں کی گئی رپورٹ شدہ واقعات میں سے 441 قتل کے واقعات ہیں جن میں سے 242 پنجاب میں 50 سندھ ،129سرحد،18بلوچستان اور دو اسلام آباد میں وقوع پذیر ہوئے غیرت کے نام پر قتل کے 143 واقعات میں سے 21 پنجاب،70سندھ،2سرحد،49 بلوچستان اور ایک اسلام آباد میں ہوا اقدام قتل کے 38 واقعات میں سے 8 پنجاب 11 سندھ 2 صوبہ سرحد 6 بلوچستان اور ایک اسلام آباد میں رپورٹ ہوئے اغواء کے کل601 واقعات میں سے 805 پنجاب،31سندھ،18صوبہ سرحد،18بلوچستان اور28اسلام آباد میں رپورٹ کیے گئے جسمانی ایذ ارسانی کے 282واقعات میں سے 120پنجاب،21سندھ ،51صوبہ سرحد ،87بلوچستان اور تین اسلام آباد میں رپورٹ ہوئے گھریلو تشدد کے کل 75 واقعات میں سے 44 سندھ،18صوبہ سرحد،13صوبہ بلوچستان اور ایک اسلام آباد میں رپورٹ ہوا خود کشی کے کل216 واقعات میں سے 137 پنجاب،49سندھ،24صوبہ سرحد چار بلوچستان اور دو اسلام آباد میں رپورٹ ہوئے اقدام خود کشی کے کل 47 واقعات میں سے 35 پنجاب،5سوحد سرحد ،7بلوچستان میں رپورٹ ہوئے ریپ کے کل175 واقعات میں سے 127 پنجاب،44سندھ ،1 صوبہ سرحد ،1بلوچستان اور 2اسلام آباد میں رپورٹ ہوئے گینگ ریپ کے کل115 واقعات میں سے 100 پنجاب،13 سندھ ،2اسلام آباد میں رپورٹ ہوئے جنسی ہراساں کر نے کے 46 واقعات میں سے 31پنجاب،13سندھ، ایک بلوچستان ، ایک اسلام آباد میں رپورٹ ہوا حراستی تشدد کے 26واقعات میں سے 24سندھ اور 2اسلام آباد میں ہوئے جلنے کے سات واقعات میں سے چھ پنجاب اور ایک سندھ میں رپورٹ ہوا تیزاب پھینکنے کے آٹھ واقعات میں سے سات پنجاب اور ایک اسلام آباد میں رپورٹ ہوا عورتوں کی تجارت کے 109واقعات میں سے 95پنجاب، ایک صوبہ سرحد ،آٹھ بلوچستان ،پانچ اسلام آباد میں رپورٹ ہوئےتشدد کی دھمکیوں کے نو واقعات میں سے دو سندھ اور سات اسلام آباد میں رپورٹ ہوئے ونی کا ایک واقعہ صوبہ سرحد جبکہ تشدد کے مختلف نوعیت کے 192 واقعات چاروں صوبوں اور اسلام آباد میں رپورٹ ہوئے ۔۔
 
آپ کی تحقیق کی داد دینی پڑے گی مگر میرا سوال سادہ ہے ایک تو 95 فیصد کی دوسرا وڈیروں کی اوطاقوں میں عورت کا کام کرنا۔ مجھے گول جواب نہیں چاہیے۔
 

مغزل

محفلین
صاحب لیجے میں اپنی بات سے پھرتا ہوں ، میں جواب نہیں دینا چاہتا ، مراسلہ سے بھی حذف کردیتا ہوں ۔ جب میں آپ کواختیار دے چکا ہوں تو آپ مانتے کیوں نہیں۔
 
بات سے پھرنے کی کیا ضرورت ہے۔
سیدھی سی بات ہے کہ 95 فیصد کا ماخذ کیا ہے۔ آپ نے یہ کیسے کلکیولیشن کی ہے
اور آپ اوطاق کے بارے میں بھی جانتے کس چیز کوکہتے ہیں۔ اوطاق میں عورت کا کام کرنا!!!!!!
 

چاند بابو

محفلین
آپ کی تحقیق کی داد دینی پڑے گی مگر میرا سوال سادہ ہے ایک تو 95 فیصد کی دوسرا وڈیروں کی اوطاقوں میں عورت کا کام کرنا۔ مجھے گول جواب نہیں چاہیے۔

سولنگی بھیا یہ میں نہ مانوں والی تکرار مناسب نہیں ہے ٹھیک ہے انہوں نے 95 فیصد والی بات یونہی روانی میں کر دی لیکن یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سندھ میں پاکستان کے کسی بھی علاقے سے زیادہ عورت کی تذلیل کی جاتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وڈیرے اپنی اوطاقوں میں عورتوں کو رکھتے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ میں ستی ونی کاروکاری کی بھینٹ سب سے زیادہ عورت چڑھتی ہے اور یہ تمام ایسے حقائق ہیں جن کے ثبوت پیش کرنے کی کسی کو ضرورت نہیں کہ یہ زبانِ زدِ عام اور تحقیق شدہ امر ہیں۔
اب میرا خیال ہے کہ آپ بس کیجئے اور مغل صاحب کو تنگ کرنے کا کوئی نیا فارمولا ڈھونڈیئے۔
 

مغزل

محفلین
بات سے پھرنے کی کیا ضرورت ہے۔
سیدھی سی بات ہے کہ 95 فیصد کا ماخذ کیا ہے۔ آپ نے یہ کیسے کلکیولیشن کی ہے
اور آپ اوطاق کے بارے میں بھی جانتے کس چیز کوکہتے ہیں۔ اوطاق میں عورت کا کام کرنا!!!!!!

جی ہاں‌صاحب ’’ اوطاق ‘‘ ہی کی بات کر رہا ہوں۔ شکر کیجے میں نے اسے قبحہ خانہ نہیں کہا، وگرنہ اس سے بھی بد تر ہوتی یہ بیٹھکیں اور اوطاقیں۔
کیلکو لیش کی جہاں تک بات ہے ،۔ میں اندرونِ سندھ کے خاندانوں سے ملا ہوں، اور یہ نتیجہ اسی بنیاد پر اخذ کیا گیا ہے میں ان دنوں نیپو(nipo) نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک اوپینئین، میں کام کرتا تھا۔ اس کا دفتر خان ہاؤس شاہراہ فیصل ہے ، تحریر مواد وہیں سے ملے گا۔
والسلام
 

مغزل

محفلین
سولنگی بھیا یہ میں نہ مانوں والی تکرار مناسب نہیں ہے ٹھیک ہے انہوں نے 95 فیصد والی بات یونہی روانی میں کر دی لیکن یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سندھ میں پاکستان کے کسی بھی علاقے سے زیادہ عورت کی تذلیل کی جاتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وڈیرے اپنی اوطاقوں میں عورتوں کو رکھتے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ میں ستی ونی کاروکاری کی بھینٹ سب سے زیادہ عورت چڑھتی ہے اور یہ تمام ایسے حقائق ہیں جن کے ثبوت پیش کرنے کی کسی کو ضرورت نہیں کہ یہ زبانِ زدِ عام اور تحقیق شدہ امر ہیں۔اب میرا خیال ہے کہ آپ بس کیجئے اور مغل صاحب کو تنگ کرنے کا کوئی نیا فارمولا ڈھونڈیئے۔

شکریہ چاند بابو ، میں نے اونگی تو نہیں ماری مگر یہ غلطی مجھ سے ہوئی کہ یہ تعداد مجھے بتا نی نہیں چاہیے تھی ، ہم نے یہ کام ایک ایک تحقیقاتی ادارے جس کا حوالہ اوپر دے چکا ہوں کے لیے کیا تھا اس میں ہمیں خطیر رقم اسی لیے دی جاتی ہے کہ ہم وہ معاملات نجی زندگی میں زیرِ بحث نہ لائیں ، مجھ سے یہاں یہ غلطی بہر حال ہوگئی ، خیر ، کمک کو پہنچنے کا شکریہ،والسلام
 

مغزل

محفلین
پیپلزپارٹی کی رکن سندھ اسمبلی حمیرا علوانی نے پیر کو سندھ اسمبلی بلڈنگ کے کمیٹی روم میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین و بچوں پر تشدد عام ہوچکا ہے اور اس حوالے سے کوئی ٹھوس قانون نہ ہونے کے باعث ملک کی آبادی میں 52 فیصد خواتین کے ہونے کے باوجود خواتین کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں عورت کی معمولی لغزش پر سزا دینا ان سے ناروا سلوک اور جسمانی تشدد معمول کا حصہ ہے۔ خبر جنگ
 

چاند بابو

محفلین
شکریہ چاند بابو ، میں نے اونگی تو نہیں ماری مگر یہ غلطی مجھ سے ہوئی کہ یہ تعداد مجھے بتا نی نہیں چاہیے تھی ، ہم نے یہ کام ایک ایک تحقیقاتی ادارے جس کا حوالہ اوپر دے چکا ہوں کے لیے کیا تھا اس میں ہمیں خطیر رقم اسی لیے دی جاتی ہے کہ ہم وہ معاملات نجی زندگی میں زیرِ بحث نہ لائیں ، مجھ سے یہاں یہ غلطی بہر حال ہوگئی ، خیر ، کمک کو پہنچنے کا شکریہ،والسلام

مغل بھیا میرا مقصد آپ کو کمک پہنچانا نہیں بلکہ یہ باور کروانا تھا کہ آپ اور سولنگی بھیا ایک ایسی بات کے لئے بحث میں پڑ گئے تھے جو ہے تو حقیقت اب رہی بات اعدادو شمار کی تو میرے بھائی گندگی تھوڑی سی بھی اتنی ہی گندگی ہوتی ہے جتنی بڑے ڈھیر والی۔
 

مغزل

محفلین
عارف قریشی، ٹنڈو محمد خان، پاکستان
عورتوں کو مارنے کا کسی کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عورتوں پرظٌلم کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ میرے گاؤں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ سندھ میں جتنا ظلم ہو رہا ہے اس کا کوئی تصور ہی نہیں کر سکتا۔
بشکریہ بی بی سی
 
میں نہ مانوں والی بات نہیں۔ مگر بات ہے حقائق کی۔ آپ سب جانتے ہیں کہ اندرون سندہ کا آغاز حیدرآباد سے ہوتا ہے۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں اندرون سندہ میں کتنے شہر ہیں اور کتنے گاؤں۔ اس طرح تو آبادی آدھی آدھی ہوجاتی ہے۔ گاؤں کی عورت کے مسائل اور شہری عورت کے اور۔ میں سندھیوں کو اچھی طرح جانتا ہوں اور وٹا سٹا صرف سندہ کا مسئلہ نہیں۔ باقی سندھی اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ ان کی عورتیں وڈیروں کے اوطاقوں میں کام کریں اور وہ خاموش بیٹھیں۔ گھروں کی اور بات ہے۔ آپ نے لوگوں نے 95 فیصد کی۔
 
جی ہاں‌صاحب ’’ اوطاق ‘‘ ہی کی بات کر رہا ہوں۔ شکر کیجے میں نے اسے قبحہ خانہ نہیں کہا، وگرنہ اس سے بھی بد تر ہوتی یہ بیٹھکیں اور اوطاقیں۔
کیلکو لیش کی جہاں تک بات ہے ،۔ میں اندرونِ سندھ کے خاندانوں سے ملا ہوں، اور یہ نتیجہ اسی بنیاد پر اخذ کیا گیا ہے میں ان دنوں نیپو(nipo) نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک اوپینئین، میں کام کرتا تھا۔ اس کا دفتر خان ہاؤس شاہراہ فیصل ہے ، تحریر مواد وہیں سے ملے گا۔
والسلام
اب اور بھی باقی ہے۔ گویا آپ نے کہ دیا۔ مجھے کوئی افسوس نہیں آپ کی بات کا۔
 
Top