عوامی نیشنل پارٹی اور سرحد کی سیاست

مہوش علی

لائبریرین
اے این پی پر معلومات ایسے ہی کم ہیں۔ اور جو ہیں وہ پرانی ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ یقینا انہوں نے بھی اپنے منشور اور ترجیحات میں تبدیلیاں کی ہوں گی۔

تو بہت اہم ہے کہ اس پارٹی کو سٹڈی کیا جائے۔

۔ کیا یہ پارٹی پاکستان مخالف پارٹی ہے اور ابھی تک متحدہ پشتون ملک کی بات کرتی ہے اور افغانستان کے ساتھ مل جانا چاہتی ہے؟
[میرے خیال میں انکی یہ پالیسی صرف کولڈ وار کے دور تک محدود تھی اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد وہ اس نظریے پر قائم نہیں رہے ہیں۔ ابتدا میں یہ پارٹی سوشلسٹ نظریات سے متاثر نظر آتی ہے۔]

///////////////////////////////

۔ کیا یہ پارٹی ابھی تک صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے پشتونخواہ رکھنا چاہتی ہے؟
[میرا خیال ہے کہ یہ اتنا بڑا ایشو نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سندھی، پنجاب، بلوچی نامی صوبے موجود ہیں۔ جبکہ "صوبہ سرحد" پر بذات خود اعتراضات وارد ہوتے ہیں کیونکہ Nwfp کا نام انگریز دور کی یادگار ہے۔
اسکا منفی رخ یہ ہے کہ صوبہ سرحد میں صرف پشتون قوم نہیں رہتی بلکہ مجھے حیرت ہوئی جب مجھے پتا چلا کہ کوہاٹ سے لیکر پشاور تک لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہے جن کی مادری زبان پشتو نہیں بلکہ پوٹوہاری یا دوسری غیر پشتو زبان ہے۔ اور یہ لوگ اس صوبے کو پشتونخواہ کا نام دینے پر رضامند نہیں۔
پنجاب میں سرائیکی علاقے بھی اپنی شناخت الگ قائم رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں خود کو پنجابی کہلوانا پسند نہیں۔ اللہ یہ شناخت کے پیچھے ہم کب تک بھاگتے پھریں گے]

/////////////////////////////

۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ الیکشن کے دوران ان کے ممبران کو انتہا پسندوں نے کھل کر قتل کیا ہے، تو ان کا حکومت کے آنے کے بعد ردعمل کیا ہو گا۔

۔ اسی طرح یہ لوگ چاہتے ہیں کہ فاٹا اور شمالی علاقہ جات کو ختم کر کے انہیں ان کے صوبہ پشتونخواہ میں ضم کر دیا جائے۔
میرے خیال میں اگر کسی طرح فاٹا کو ختم کیا جا سکے تو یہ پاکستان کے اوپر بہت احسان ہو گا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
زیک،
میں نے ابھی اسفندیار ولی خان کا انٹرویو ایک دوسرے ڈسکشن فورم میں پڑھا ہے، جس میں انہوں نے حکومت میں شامل ہونے کی تین شرائط رکھی ہیں۔

1. The coalition government they form gives them full backing in tackling terrorists in FATA/NWFP and all the resources of the armed forces are used in this regard. He said it shouldn’t just be down to us to rid Pakistan of such people but all of us.


2. That Pakistan is a land of free people and that no ethnic group should have superiority over another group. We are all free men and should work together for the betterment of our land and there should not be slaves to anyone.

3. This issue he described as very “emotional” for us that they will ask for the name NWFP to be removed forever and named something different that reflects the people who live there i.e. Pakhtuns. He talked about other provinces being named after their ethnicities why not our one.


انکی پہلی شرط کے متعلق مجھے پہلے سے ہی دل میں کچھ اندازہ ہو رہا تھا۔
 

ساجداقبال

محفلین
اسکا منفی رخ یہ ہے کہ صوبہ سرحد میں صرف پشتون قوم نہیں رہتی بلکہ مجھے حیرت ہوئی جب مجھے پتا چلا کہ کوہاٹ سے لیکر پشاور تک لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہے جن کی مادری زبان پشتو نہیں بلکہ پوٹوہاری یا دوسری غیر پشتو زبان ہے۔ اور یہ لوگ اس صوبے کو پشتونخواہ کا نام دینے پر رضامند نہیں۔
بالکل غلط۔ پھوٹوہاری کا سرحد میں کوئی وجود نہیں، اگر آپ ہندکو کو اس سے ملا رہی ہیں تو عرض ہے کہ یہ دونوں الگ زبانیں ہیں۔ اور دوسرا نام کے معاملے پر کوئی اختلافات نہیں۔ میر؁ے خیال میں نام تبدیل کرنا کوئی بڑا ایشو نہیں، جب سب صوبوں کے نام اقوام کے مطابق ہیں تو پختونستان میں بھی کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن جسطرح اے این پی نے اسے بڑی ترجیح بنایا ہوا ہے، یہ بھی کوئی سنجیدہ اپروچ نہیں۔ صوبے میں اور مسائل کیا کم ہیں جو نام کا مسئلہ ناگزیر ہے؟
پہلی شرط تو اسفندیار ولی اسی ماہ واشنگٹن میں جا کر طے کر آئے تھے۔ لیکن اگر اے این پی نے بات چیت (الیکشن سے پہلے جس کا راگ الاپ رہے تھے) کی بجائے جنگ کو مسئلے کا حل جانا تو مجھے خطرہ ہے کہ اے این پی کی قیادت کو سال کے اندر اپنے کئی قائدین سے ہاتھ دھونے پڑینگے کیونکہ ایک تو یہ لوگ مقامی ہیں ، دوسرے انکی سیکیورٹی بھی کوئی اتنی خاص نہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ہندکو زبان کے بارے میں تصحیح کا شکریہ۔
جہاں تک پہلی شرط کا تعلق ہے تو مجھے علم نہیں کہ اسفندیار امریکہ بھی گئے تھے یا اُن کی بش سے ملاقات بھی ہوئی تھی یا نہیں، بہرحال ایک بات بہت پکی ہے کہ اے این پی ہمیشہ سے طالبان کی سیاسی طور پر مخالفت کرتی آئی ہے اور اس سیاسی مخالفت کا جواب مقامی طالبان انکے امیدواروں کو جان سے مار کر دیتی رہی ہے۔
طالبان کی طرف سے اے این پی کو سیاست کا جواب سیاست سے دینا مشکل ہے اور اس لیے اُس نے خود کش حملوں کا میدان چنا ہے۔ اور اسکے جواب میں اے این پی اپنا سیاسی اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے یقینی بنانا چاہتی ہے کہ پاکستان کی فوج اپنا فرض پورا کرتے ہوئے انہیں اس مسلح حملوں سے بچائے۔ اگر وہ یہ بھی نہ کرے تو اسکا مطلب ہے کہ وہ بغیر مزاحمت کرے اپنے آپ کو طالبان کی مسلح دھمکیوں اور حملوں پر قربان کر دے۔
 

ساجداقبال

محفلین
پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکہ کی لڑائی اگر روس کیخلاف ہو یا طالبان کے خلاف ، پشتون ہی کیوں لڑیں؟ انکی شامت ہمشیہ کیوں ہو؟ اگر اے این پی نے سابقہ دور کی روش جاری رکھی تو وہ لکھ کے رکھ لے کہ اگلے الیکشن میں اسکا حال ایم ایم اے سے بھی بُرا ہوگا۔
 
Top