عوامی تحریک کی قیادت پر خودکش حملہ ہو سکتا ہے،خفیہ ایجنسیوں کا انتباہ

عوامی تحریک کی قیادت پر خودکش حملہ ہو سکتا ہے،خفیہ ایجنسیوں کا انتباہ

اسلام آباد (وسیم عباسی) ملک کی اعلیٰ فوجی ایجنسیوں نے جمعہ کے روز پاکستان عوامی تحریک کی قیادت کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ اسلام آباد میں ان کے احتجاج کے دوران ان پر خودکش حملہ ہو سکتا ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق ایجنسیوں کو باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ عسکریت پسند گروہ پاکستان عوامی تحریک کے احتجاجی جلوس پر خودکش حملہ کر سکتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ اطلاع پارٹی چیف ڈاکٹر طاہرالقادری تک پہنچا دی گئی ہے، ساتھ ہی انہیں محتاط رہنے کا بھی کہا گیا ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ان اطلاعات کی روشنی میں وفاقی دارالحکومت کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ دوسری طرف ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ عوامی تحریک کی قیادت نے ان تازہ ترین سکیورٹی خدشات کے باوجود احتجاج کی کال واپس لینے سے انکار کر دیا ہے۔ قبل ازیں افغانستان کی ایساف افواج اور پاکستان کی اعلیٰ سکیورٹی ایجنسیوں کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے چیف عمران خان اور دوسرے قومی لیڈران کی زندگی کو عسکریت پسند گروہوں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان رپورٹوں کے بعد عمران خان کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ افغانستان میں موجود عالمی افواج نے پاکستانی حکام کو اطلاع دی ہے کہ ان خدشات کی بنیاد وہ ٹیلی فون کالز ہیں جو انہوں نے پاک افغان بارڈر کے علاقے سے انٹرسیپٹ کی ہیں۔ علاوہ ازیں کچھ ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بھی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ عمران خان پر حملہ ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں جب تفتیش کی گئی تو ذرائع سے معلوم ہوا کہ پاکستان کی فوجی ایجنسیوں نے بھی عمران خان اور کچھ دیگر سیاسی رہنمائوں بشمول حکومتی ارکان کو دہشت گردوں کی طرف سے حملے کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ دوسرے سیاست دانوں کے برعکس عمرا ن خان سکیورٹی پرو ٹوکول پر عموماً عمل نہیں کرتے جبکہ ذرائع کی اطلاع کے مطابق انہیں احتیاطیں اختیار کرنا ہوں گی۔ عموماً لیڈرز بلٹ پروف روسٹرم استعمال کرتے ہیں اور سٹیج سے عوام کے درمیان ایک قابل لحاظ فاصلہ رکھا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق قومی اور بین الاقوامی ذرائع سے ملنے والی حالیہ اطلاعات شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کے نتیجے میں موصول ہوئی ہیں۔ مزید برا ں اس وقت وفاقی دارالحکومت کی سکیورٹی پر 9 ہزار سے زیادہ پولیس، رینجرز اور ایف سی کے اہلکار تعینات ہیں۔ حکام کی طرف سے نیا سکیورٹی پلان بھی جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق ریڈ زون میں موبائل سروس معطل کی جا سکتی ہے اور ریڈ زون کی طرف جانے والے رستوں کو خاردار تاروں، کنکریٹ بلاکس اور کنٹینرز کے ذریعے بلاک کر دیا گیا ہے۔ ریڈزون میں داخلے کے دو مقامات ہیں جہاں سے صرف حکومتی ملازم، سفیر اور متعلقہ حکام داخل ہو سکیں گے۔ ریڈزون علاقے میں پارلیمنٹ، صدر اور وزیراعظم ہائوس اور بیرونی سفارت خانے شامل ہیں۔

http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=226474
 
Top