عنیزہ سید

نیلم

محفلین
شکریہ نیلم کیا شبِ آرزوکا عالم کتابی شکل میں آگیا؟
شب گزیدہ اوردیارِدل میں میرے پاس اورمیں نے صبح سے نکال کے رکھے کہ کچھ شئیرکرو
ایک ناول نہیں مل رہا اس میں سیدہ بی بی کا تعارف بھی ہے اورڈائجسٹ میں سے کاٹ کررکھا ہوا
افسانہ دورِ جنوں بھی - شبِ آرزوکا عالم کی چند اقساط پڑھیں تھیں میں نے
جی بالکل آگیا ہے اور آئن لائن بھی دستیاب ہے میں بھی پڑھ رہی ہوں ابھی مکمل نہیں ہوا :)
میں لنک دیتی ہوں آپ کو
 

نیلم

محفلین
شکریہ نیلم کیا شبِ آرزوکا عالم کتابی شکل میں آگیا؟
شب گزیدہ اوردیارِدل میں میرے پاس اورمیں نے صبح سے نکال کے رکھے کہ کچھ شئیرکرو
ایک ناول نہیں مل رہا اس میں سیدہ بی بی کا تعارف بھی ہے اورڈائجسٹ میں سے کاٹ کررکھا ہوا
افسانہ دورِ جنوں بھی - شبِ آرزوکا عالم کی چند اقساط پڑھیں تھیں میں نے

http://kitaabghar.net/bookbase/aneezasyed/ShabeArzooKaAlam.php?page=45
اس ناول کا ڈرامہ بھی بن گیا اور اے آر وائی پہ چل رہا ہے لیکن میں دیکھ نہیں رہی ،،،سارہ مزہ خراب کر دیتے ہیں یہ ڈرامے ناول کا
 

زبیر مرزا

محفلین
http://kitaabghar.net/bookbase/aneezasyed/ShabeArzooKaAlam.php?page=45
اس ناول کا ڈرامہ بھی بن گیا اور اے آر وائی پہ چل رہا ہے لیکن میں دیکھ نہیں رہی ،،،سارہ مزہ خراب کر دیتے ہیں یہ ڈرامے ناول کا
اچھا سیدہ بی بی توبارہا منع کرچکی ہیں ناول کی ڈرامائی تشکیل کے لیے اب کس نے اتنا اصرار کیا کسی واقف کے ذریعے ہی مانایا ہوگا
نیلم مجھ سے آن لائن کتاب نہیں پڑھی جاتی - پاکستان جاؤں گا توخرید کا پڑھوں گا
 

نیلم

محفلین
اچھا سیدہ بی بی توبارہا منع کرچکی ہیں ناول کی ڈرامائی تشکیل کے لیے اب کس نے اتنا اصرار کیا کسی واقف کے ذریعے ہی مانایا ہوگا
نیلم مجھ سے آن لائن کتاب نہیں پڑھی جاتی - پاکستان جاؤں گا توخرید کا پڑھوں گا
اچھا آپ کو کیسے معلوم ؟کسی انٹریو میں بتایا تھا انہوں نے؟
جی مجھے معلوم تھا آپ کتاب سے ہی پڑھنا پسند کرو گے۔:)
 

نیلم

محفلین
"گل صرف اتنی سی ہے باؤ صیب! کہ صرف فقیر ہی جانتا ہے۔ فقیر کا دیس کون سا ہے۔ فقیر کا بھیس کیا ہے، اس کا پتا کسی کو نہیں چلتا۔ وہ کبھی بھی کدھر بھی موجود ہو سکتا ہے۔"
"اچھا! تو بھر اس کا مطلب ہے کہ جوگی کا، فقیر کا کوئی دیس نہیں ہوتا۔ اس کی ذات اور صفات کیا ہوتی ہیں‘ جن سے کوئی کوتاہ نظر اندازہ ہی لگانے کی کو شش کرے کہ وہ کون ہے۔" اختر کے مخاطب نے سوال کیا۔
"او باؤ جی! گھنٹہ ہوگیا یہی سمجھاتے‘ فقیر کی کوئی ذات نہیں ہوتی‘ کوئی ایسی صفات نہیں ہوتیں کہ پہچانا جائے۔
ممولے کو دیکھا ہے کبھی؟ اختر نے اپنی سرخ سرخ نظریں اپنے مخاطب کے چہرے پر گاڑتے ہوئے سوال کیا۔
"لڑادے ممولے کو شہباز سے" والا۔" اس کے مخاطب نے اپنے ساتھی کو کہنی مار کر اپنے جواب کی تائید چاہی۔
"کونجیں کس طرح سفر کرتی ہیں‘ دیکھا ہے کبھی؟" اختر نے اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر پوچھا۔ اس کے مخاطب نے اپنی لاعلمی پر شرمندہ ہوتے سر کھجایا۔
"کائنات کے نظام میں باؤ جی!" اس کی لاعلمی پر اختر نے مسکرا کر کہا۔ ان گنت مخلوق موجود ہے‘ جو اپنے اپنے طریقے سے زندگی گزارتی ہے۔ انسان‘ حیوان سے مختلف‘ حیوانوں کے اپنے اپنے درجے‘ کچھ درندے‘ کچھ بے ضرر‘ کچھ دوپائے‘ کچھ چارپائے‘ کچھ جنگلوں کے باسی‘ کچھ شہریوں کے پالے ہوئے‘ پرند آسمانوں پر اڑتے‘ پانی کی مخلوق پانی اندر تیرتی‘ کبھی پانی کے نیچے سانس لیتے پیڑوں کی‘ درختوں کی‘ جھاڑیوں اور بیلوں کے الگ الگ ضابطہ حیات اختر دم لینے کو رکا۔
"جس کی باریکیوں پر نظر ہوئی...." دم لینے کے بعد اس نے ایک بار پھر گڑگڑی کا کش لگاتے ہوئے کہا۔" وہ کائنات کا راز پا گیا اور جو کائنات کے راز پا گیا‘ وہ آپ سے آپ فقیری لائن میں چلا گیا۔ "اختر نے جھونپڑی کے باہر چلتے الاؤ کے دھویں سے آنکھوں میں اترتے پانی کو صاف کرتے ہوئے کہا۔
"اور..." بھر اس نے انگلی سے اشارہ کیا۔ "یاد رکھنا! کائنات کے راز سمجھ جانے والا دیسوں‘ بھیسوں‘ ذاتوں‘ صفاتوں کی حد سے بالا ہوجاتا ہے۔
"!Thank you for your interpretation sir"
اختر کے مخاطب نے جو اب تک پنجوں کے بل فرش پر اکڑوں بیٹھا تھا اٹھتے ہوئے کہا۔
"فقیر کو القاب یا خطاب سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ "اختر نے تیزی سے جواب دیا۔ "ماسٹر‘ سر‘ سردار‘ آقا‘ بادشاہ سلامت‘ ہزہائی نس‘ میڈم‘ میم‘ مس‘ محترمہ‘ ہرہائی نس‘ یہ سب بڑے لوگوں کی تسلیاں ہوتی ہیں۔ فقیر اس حد سے بھی آگے جا چکا ہوتا ہے۔"
"اوہ! آئی ایم سوری۔ "اختر کا مخاطب اختر کے چمک کر بولنے پر خجالت سے بولا۔
"لیکن یاد رکھو‘ فقیر کہیں بھی کدھر بھی موجود ہو سکتا ہے‘ سرکی کے جھونپڑے میں یا مٹی کی کٹیا میں ہی نہیں‘ بڑے بڑے دفتروں میں سوٹ بوٹ پہن کر‘ رنگ برنگی ٹائیاں لگا کر‘ فائلوں میں سر کھپاتے بھی فقیر ہو سکتے ہیں۔ یہ صرف مولا ہی جانتا ہے کہ اس نے کس کو کون سے کام لگا کر یہ لائن چلانی ہے۔"

(اقتباس: عنیزہ سیّد کے ناول "جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم" سے)
 

زبیر مرزا

محفلین
عنیزہ سید کی پیدائش سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں ہوئی - ان کی والدہ کا تعلق سیالکوٹ کے ایک علمی وادبی گھرانے سے
ہے ، جس کا ایک روشن نام شمس العلماءمولوی سید میرحسن کاہے جن کے گوشہء تربیت سے
علامہ محمد اقبال جیسی زیرک، نامور، نابالغہء روازگار شخصیت نے فیض حاصل کیا اور جن کی تصانیف کے بارے میں پوچھے
جانے والے ایک سوال کے جواب میں علامہ اقبال نے فرمایا" میں خود اُن کی کی مجسم تصنیف ہوں"
اسی خاندان کے مرد "اقبال کے حضور" اور مکتوبات اقبال بنام نذیرنیازی جیسی کُتب کے مصنف معروف اسکالر اور ماہرِ اقبالیات
پروفیسر سید نذیرنیازی بھی ہیں -علم وادب سے لگاؤ عنیزہ سید کو وراثت میں ملا-
گورئمنٹ اسلامیہ گرلزاسدکول ڈسکہ سے میٹرک کرنے کے بعد لاہورکالج فارویمن میں داخلہ لیااسی کالج کے سیکنڈ ائیر میں
ان کا پہلا افسانہ شعاع ڈائجسٹ میں شائع ہوا- عنیزہ سید نے پنجاب یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم -اے کیا اورکے بعد علمی زندگی کا آغاز
2000 تا 2004 کیڈٹ کالج سیالکوٹ میں بطوراستاد اور پھر ڈائرکیٹریس آف اسٹڈیز کے فرائض انجام دیئے- 2004 میں دی ایجوکیٹر ڈسکہ
برانچ میں بطورپرنسل تعینات ہوئیں - 2009 میں سیالکوٹ گرامر اسکول ڈسکہ میں بطور ایڈمن کام شروع کیا جو تا حال جاری ہے-
بطورمصنفہ سیدہ نے اپنے منفرد اندازِ تحریر سے ایک وسیع حلقہءقارئین کو متاثرکیا
 

نیلم

محفلین
کبھی کبھی ہم فاصلے پیدا کرنے کے لیے دور نہیں بھاگتے ،بلکہ اس لیے بھاگتے ہیں کہ دیکھے ہمارے پیچھےکون آتا ہے
(شب آرزو کا عالم )
 

قیصرانی

لائبریرین
عنیزہ سید کا لکھنے کا انداز اچھا ہے لیکن جملوں کو غیر ضروری طوالت دے جاتی ہیں کبھی کبھی
 

نیلم

محفلین
عنیزہ سید کا لکھنے کا انداز اچھا ہے لیکن جملوں کو غیر ضروری طوالت دے جاتی ہیں کبھی کبھی
ہر ایک لکھاری کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے جو اُسے دوسروں سے الگ بناتا ہے ۔اور پڑھنے والوں میں بھی ہر طرح کی سوچ کے لوگ ہوتے ہیں ۔ہوسکتاہے جو انداز آپ کو ناپسند ہو وہ کسی اور کو پسند ہو :)
اور بہت شکریہ :)
 

قیصرانی

لائبریرین
ہر ایک لکھاری کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے جو اُسے دوسروں سے الگ بناتا ہے ۔اور پڑھنے والوں میں بھی ہر طرح کی سوچ کے لوگ ہوتے ہیں ۔ہوسکتاہے جو انداز آپ کو ناپسند ہو وہ کسی اور کو پسند ہو :)
اور بہت شکریہ :)

اسی لئے میں اپنی رائے دی ہے :)
 

قیصرانی

لائبریرین
بالکل آپ کو حق حاصل ہے :)
آپ بھی ناولز پڑھتے ہیں ؟آپ کی پسندیدہ لکھاری کون ہیں ؟اُردو ناولز کا بتایئے گا :)

فی میل لکھاریوں میں بانو قدسیہ ہی تھیں، لیکن جب سے راجہ گدھ پڑھا ہے، انہیں پڑھنا چھوڑ دیا ہے
این ڈیوران جو کہ کارل ساگان کی بیوی تھیں، کا لکھنے کا انداز بھی اچھا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
راجہ گدھ کی پنچ لائن صرف ایک ہے کہ حرام کھانے سے جینیٹک میوٹیشن ہوتی ہے۔ اسی بات کو انہوں نے اتنا پھیلایا ہے کہ پورا ناول بن گیا ہے۔ مزے کی بات جب بہاولپور میں قائد اعظم میڈیکل کالج میں بانو قدسیہ کو اس موضوع پر بات کرنے کے لئے دعوت دی گئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ حرام کھانے اور جینیٹک میوٹیشن کے بارے کچھ بھی نہیں جانتیں
اس طرزِ تحریر کی ایک مثال مستنصر حسین تارڑ کی ہے۔ انہوں نے اسی طرح کی پنچ لائن پر بہاؤ لکھا جو سائز میں زیادہ بڑا نہیں اور اس میں اتنا تنوع ہے کہ بندہ پڑھتے ہوئے بور نہیں ہوتا۔ مستنصر حسین تارڑ نے اس پنچ لائن کو بخوبی استعمال کیا ہے
 

نیلم

محفلین
راجہ گدھ کی پنچ لائن صرف ایک ہے کہ حرام کھانے سے جینیٹک میوٹیشن ہوتی ہے۔ اسی بات کو انہوں نے اتنا پھیلایا ہے کہ پورا ناول بن گیا ہے۔ مزے کی بات جب بہاولپور میں قائد اعظم میڈیکل کالج میں بانو قدسیہ کو اس موضوع پر بات کرنے کے لئے دعوت دی گئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ حرام کھانے اور جینیٹک میوٹیشن کے بارے کچھ بھی نہیں جانتیں
اس طرزِ تحریر کی ایک مثال مستنصر حسین تارڑ کی ہے۔ انہوں نے اسی طرح کی پنچ لائن پر بہاؤ لکھا جو سائز میں زیادہ بڑا نہیں اور اس میں اتنا تنوع ہے کہ بندہ پڑھتے ہوئے بور نہیں ہوتا۔ مستنصر حسین تارڑ نے اس پنچ لائن کو بخوبی استعمال کیا ہے
میں نے راجہ گدھ نہیں پڑھا ہوا ہے صرف چند اقتباسات پڑھے ہوئے ہیں ۔کبھی پورا پڑھوں گی :)
 
Top