عنیزہ سید

نیلم

محفلین
" انسانوں کو ایک دوسرے سے کسی نہ کسی غرض نے باندھ رکھا ہے۔۔ غرض نہ ہو تو شاید ہر انسان اپنے محور میں ایک تنہا زندگی گزارتا رہے، شاید ہم جیسے گنہگاروں نے خدا تعالٰی کے ساتھ بھی غرض اور طلب کا رشتہ باندھ رکھا ہے، یہ نہ ہو تو ہم شاید خدا کو بالکل بھلا ڈالیں۔


"دل من مسافر من" از عنیزہ سّید سے اقتباس
 

نیلم

محفلین
اتنی جلدی نتائج اخذ کرنے سے گریز کیا کرو۔ ایک دو یا پھر تین ملاقاتوں میں ہی ہم کسی کے بارے میں حتمی رائے دینے کے قابل نہیں ہو جاتے، ایسا کرنے میں اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی شخصکی شخصیت کا کوئی نیا روپ سامنے آنے پر بری طرح مایوس بھی ہو جائیں اور اپنی رائے پر شرمندہ بھی۔

(اقتباس: عنیزہ سید کے ناول "جو رکے تو کوہِ گراں تھے" سے) —
 

نیلم

محفلین
وقت!" جو کبھی تو گزرنے میں ہی میں نہیں آتا اور کبھی یوں گزرتا ہے کہ پتا تک نہیں چلتا... اور اس کے گزر جانے کے بعد انسان اس کے چھوڑے ہوئے خس و خاشاک چنتا رہ جاتا ہے۔

(اقتباس: عنیزہ سیّد کے ناول "جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم" سے)
 

نیلم

محفلین
رسی پر چلنے کا کرتب‘ چھ انچی بار پر پاؤں کی انگلیوں کے بل کھڑے ہونا اور گھوم کر ہوا میں قلابازی کھاتے ہوئے واپس اسی پوزیشن میں پنجوں کے بل بار پر آکر ٹک جانا۔۔۔ تماشائی مبہوت ہو جاتے ہیں۔ ان کی آنکھیں فنکار کی جنبش کے ساتھ ساتھ حرکت کرتی ہیں۔ ان کا اوپر کا سانس اوپر‘ نیچے کا نیچے رہ جاتا ہے۔۔۔ دم بخود اور جب‘ تماشا ختم ہوتا ہے تو وہ خوشی کے عالم میں تالیاں پیٹتے ہیں‘ سیٹیاں بجاتے ہیں‘ نعرے لگاتے ہیں۔ کبھی کسی تماشائی نے اس فنکار کے دل پر گزرنے والی کیفیت کو سوچا ہے‘ جو تماشا دکھانے کے بعد ابھی ابھی رنگ سے باہر نکلا ہے۔ ایک جنبش غلط‘ انگلی کا فرق‘ آنکھ کا ذرا سا چوک جانا‘ ذہن کا لمحہ بھر کا بھٹک جانا۔۔۔ اسے کیسے حادثے سے دوچار کرا سکتا ہے‘ وہ تماشا نہیں دکھاتا‘ موت کے منہ میں خود کو ڈال دیتا ہے‘ کبھی کسی نے اس بات پر غور کیا؟

(اقتباس: عنیزہ سیّد کے ناول "جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم" سے)
 

نیلم

محفلین
ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ ہر چیز کی قیمت پر بحث ہوتی تھی اور کچھ پیسے تو ہر صورت کم کراہی لیے جاتے تھے‘ اب تم لوگ قیمتوں کے اسٹیکرز اس لیے چیزوں پر چیکا دتیے ہو کہ کوئی بولے نہ بات کرے۔

(اقتباس: عنیزہ سیّد کے ناول "جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم" سے)
 

نیلم

محفلین
“کسی کو پسند کر لینے سے آگے دل میں کیا چیز پیدا ہوتی ہے؟” جویریہ نے خاموش مجمع کے سامنے اپنے سوال کو سادہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔
“تجس” کرن نے کہیں سے جواب نہ آنے پر سینڈوچ کا آخری ٹکڑا ختم کرنے کے بعد گردن گھما کر جواب دیا۔
جویریہ
نے مسکراتی نظروں سے اپنے گروپ کی طرف دیکھا۔
“اور تجس کس جزبے کو ابھارتا ہے؟” اس نے سوال کیا۔
“شوق کو۔” کرن نے ٹشو پیپر سے ہاتھ پونچتھے ہوئے کہا۔
“شوق کس چیز کو جنم دتیا ہے؟” جویریہ نے سوال کیا۔
“ارادے کو۔” کرن نے گرم چائے کا پہلا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔
“ارادے سے آگے کیا ہوتا ہے؟” جویریہ نے سوالات کا سلسلہ دراز کیا۔ اب وہاں موجود سب لوگ ان دونوں کی جانب متوجہ ہو چکے تھے۔
“غالبا محبت۔” کرن نے دوسرا گھونٹ لینے کے بعد کہا۔
“محبت۔” جویریہ نے چونک کر کہا۔
“It has come late isn’t it”
مگر کرن کی بے نیازی دیکھ کر اس نے نیا سوال کیا، محبت کے بعد کیا ہوتا ہے؟”
“Lust” کرن نے چائے کا چوتھا گھونٹ لیتے ہوئے سکون سے کہا۔
“Lust” اس بار وہ سب ہی چونکے۔
“اوئے۔” جویریہ نے بھی چونک جانے کے بعد سنبھل کر کہا۔ “Lust سے آگے کیا ہوتا ہے؟” اب سب پوری طرح اس کی طرف متوجہ تھے۔
“گناہ۔” کرن کو اب اس سوال جواب میں مزا آنے لگا تھا۔
“گناہ سے آگے کیا ہے؟” جویریہ نے ایک متوقع سوال کیا۔
“اذیت۔” کرن نے اس کا جواب پہلے سے ذہن میں سوچا ہوا تھا۔
“اور اذیت کس چیز کو جنم دیتی ہے؟” اب کی بار جویریہ کی بجائے سینئرز کے گروپ سے اسد نے پوچھا تھا اس کے لہجے میں اپنے سوال کا جواب جان لینے کی بے قراری تھی۔
“آزمائش۔” کرن اس سوال کا جواب بھی پہلے سے سوچ چکی تھی۔
“آزمائش کیا لاتی ہے؟” جویریہ نے سوال کرنے میں جلدی کی۔
“حساب۔”
“اف۔” جویریہ کو اس سوال کا جواب غیر متوقع لگا۔ “حساب سے آگے کیا ہے؟”
“Destination” جسے مقدر بھی کہہ سکتے ہیں۔” کرن کے کپ میں چائے کا ایک گھونٹ باقی رہ گیا تھا۔
“اس Destination سے آگے؟” جویریہ کو گو جواب نہیں آیا سمجھ میں۔
“اس سے آگے کچھ نہیں۔ یا تو بہت روشنی ہے یا بہت اندھیرا ہے۔” کرن نے آخری گھونٹ بھرتے ہوئے جواب دیا۔
“اس کیفیت سے آگے بھی کچھ یے؟” اسد نے بے صبری سے سوال کیا۔
“اس سے آگے تقدیر کی آخری حد ہے۔” کرن نے کھڑے ہوتے ہوئے جواب دیا۔
(اقتباس: عنیزہ سید کے ناول "شبِ آرزو کا عالم" سے)
 

نیلم

محفلین
‫محرومی دو طرح کی ہوتی ہے، کسی چیز کا کبھی نہ ہونا اور کسی چیز کا مل کر کھو جانا، زیادہ تلخ تجربہ ہوتا ہے اور جو اس تجربے سے گزرتا ہے وہ ایسی ہی باتیں کرتا ہے جو تمھاری سمجھ میں شاید کبھی نہ آئیں۔۔

(عنیزہ سید کے ناول " جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم " سے اقتباس)
 

عسکری

معطل
‫محرومی دو طرح کی ہوتی ہے، کسی چیز کا کبھی نہ ہونا اور کسی چیز کا مل کر کھو جانا، زیادہ تلخ تجربہ ہوتا ہے اور جو اس تجربے سے گزرتا ہے وہ ایسی ہی باتیں کرتا ہے جو تمھاری سمجھ میں شاید کبھی نہ آئیں۔۔

(عنیزہ سید کے ناول " جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم " سے اقتباس)
یہ تو میری اور عنیزہ میم کی سٹوری ملتی ہے یہاں پر
484349_128119054037047_1065980611_n.jpg
 

زبیر مرزا

محفلین
شکریہ نیلم کیا شبِ آرزوکا عالم کتابی شکل میں آگیا؟
شب گزیدہ اوردیارِدل میں میرے پاس اورمیں نے صبح سے نکال کے رکھے کہ کچھ شئیرکرو
ایک ناول نہیں مل رہا اس میں سیدہ بی بی کا تعارف بھی ہے اورڈائجسٹ میں سے کاٹ کررکھا ہوا
افسانہ دورِ جنوں بھی - شبِ آرزوکا عالم کی چند اقساط پڑھیں تھیں میں نے
 
Top