عمل پیہم( حصہ دوم )

با ادب

محفلین
ا

آپ شدید الجھن کا شکار ہیں اور کسی سے اپنی الجھن بیان کرتے ہیں ... جواب میں وہ پند و نصائح کی گھٹڑی کھول کر تمام ٹوٹکے اور طریقے آپکی بُدھی میں ڈال دینا چاہتا ہے ۔
کچھ بیبے بچے نصیحت سن کر لائن پہ آجاتے ہیں اور زندگی کو بہتر طور پہ گزارنے کی اپنی سعی کرتے رہتے ہیں ..لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن پہ دنیا کی کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی .. وہ اندر سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں انکے دماغ میں اتنی نصیحتیں ٹھونسی جا چکی ہوتی ہیں کہ باقی کسی نصیحت کی جگہ ہی نہیں رہتی .. انکی اسٹوریج فل ہوتی ہے ... اب جب آپ انھیں نصیحت کرتے ہیں تو وہ آگ بگولہ ہو جاتے ہیں ۔

یہ انسانوں کی وہ قسم ہے جو اچھائی اور برائی کے فرق سے آگاہ ہوتی ہے لیکن وہ خود ایسے مدوجزر کا شکار ہوتے ہیں کہ انکی تمام توانائیاں خود کو زندہ ساحل تک پہنچانے میں صرف ہو رہی ہوتی ہیں .. ایسے میں کوئی ساحل پہ کھڑا آواز لگائے کہ تیرتے ہوئے دین کے احکام کا بھی خیال کیا جائے ...

جس کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوں جو تیرنے کے قواعد و ضوابط سے ہی واقف نہیں جو اس سوچ میں غلطاں ہے کہ اب ڈوبا کہ تب ڈوبا عین ان لمحات میں آپ ساحل پہ کرسی سے ٹیک لگائے اس ڈوبتے شخص کو الف ب سکھانا شروع کریں گے تو کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ سیکھ جائے گا؟ ؟؟

ہر گز نہیں ....

یہاں عام اصول لاگو نہیں ہوتا ... پہلے اس کی سن کر اسے ہاتھ دے کے اس گرداب سے باہر نکالیے ... پھر اسکے بعد اسکی تکلیف اور درد کو سنیے ...
آپ نہیں جانتے بعض اوقات کسی کی سن لینے میں بھی اس کے لیے کتنی بڑی خیر پوشیدہ ہوتی ہے ..
.ہم عموماً غم گساری کے فن سے آشنا نہیں ہوتے .. ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی ہمیں اپنی تکلیف بتا رہا ہے تو ہم پہ لازم ہے کہ ہم فوراً اسے اس تکلیف کا حل بھی بتا دیں .. حل بتانا ضروری نہیں ہے ...آپ فقط غم گساری کیجیے حل اسے خود ڈھونڈنے دیجیے ..
.
جب انسان اپنی سنا دیتا ہے تو وہ جو اسٹوریج فل ہو چکا ہوتا ہے وہ ڈیلیٹ ہو کے خالی اسپیس فراہم کر دیتا ہے .. اس اسپیس کے بعد اب وقت ہوتا ہے اسے کچھ سمجھانے کا راستہ دکھانے کا ...
انسان روبوٹس نہیں ہوتے کہ آپ نے جو کہا اسے مان لیں .. پہلے ان کے دل کی بنجر زمینوں کو نرم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے .. جب زمین نرم ہو جائے تو اللہ کی للہیت اسکی محبت کا بیج بو دیجیے ..

اسے احکام و فرائض میں مت الجھائیے ...جب وہ اللہ سے محبت کرنے لگے گا تو خود بہ خود اس کے حکم کے آگے سر جھکا دے گا ... اہم چیز اللہ سے تعلق جڑ جانا ہے اور یہ تعلق تب ہی جڑ سکتا ہے جب آپکے آس پاس غمگساری کرنے والے اور خود اللہ کی محبت میں سرشار لوگ موجود ہونگے ..

اچھی صحبت ہی آپکی للھیت اور روحانیت کو بحال کرنے میں آپکی مدد کر سکتی ہے ... نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے سے انسان کے اندر خود بہ خود نیکی کے جراثیم پیدا ہونے لگتے ہیں ..ان سے نکلنے والی مثبت لہریں آپکو بھی مثبت طرز فکر عطا کرتی ہیں

.. جبکہ مسلسل مایوس اور منفی ذہنیت کے حامل لوگوں کے ساتھ رہنا آپکو نا امید اور قنوطی بنا دیتا ہے ...
انسان فقط نصیحتو ں سے راہ راست پہ نہیں آتے دوسرے کو راستہ دکھانے کے لیے خود اس راہ پہ چلیے کچھ بعید نہیں آپکے پیچھے وہ بھی اسی راہ پہ گامزن ہو جائیں ....
.
سمیرا امام
 

سید عمران

محفلین
زندگی کا بہترین مشاہدہ اور تجربہ اس تحریر میں سمو دیا ہے۔۔۔
ہر انسان کے ساتھ ریپو بلڈ کرنا اور کتھارسس کرنا اسے نہ صرف آپ کے قریب لاتا ہے بلکہ وہ آپ کی بات بھی توجہ سے سنتا ہے ۔۔۔
اور سب سے بڑھ کر اس پر عمل بھی کرتا ہے!!!
 
Top