عمرِ آخر میں سبھی اُس سے خفا ہونے لگے۔۔۔ عبید الرحمٰن عبید

محمداحمد

لائبریرین
غزل

عمرِ آخر میں سبھی اُس سے خفا ہونے لگے
رفتہ رفتہ پیڑ سے پتے جُدا ہونے لگے

شور اتنا تھا سماعت میں دراڑیں پڑ گئیں
ایسا سناٹا کہ سانس اپنی صدا ہونے لگے

اک دیا ہم نے جلا کر اُن کو بھی ترغیب دی
وہ دیا تو کیا جلاتے خود ہوا ہونے لگے

اِن دنوں میرا بدن زخموں سے کیوں محفوظ ہے
کیا نشانے دوستوں کے بھی خفا ہونے لگے

ظلم ایسا سسکیاں، چیخیں، عبادت بن گئیں
کرب کچھ ایسا لرزتے لب، دعا ہونے لگے

اک ہتھیلی پر نہیں موقوف اب رنگِ حنا
یاں تو زخموں سے بدن سارے حنا ہونے لگے

اُن کو پتھر سے حسیں پیکر بنایا تھا عبید
اور وہ اپنے تئیں میرے خدا ہونے لگے

عبید الرحمٰن عبید
 
Top