عمران ٹرمپ ملاقات: خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے

جاسم محمد

محفلین
عمران ٹرمپ ملاقات: خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے
عمران خان اور ٹرمپ کی ذہنی سطح پر بڑی ہم آہنگی ہے اور شاید یہ مثبت طریقے سے دونوں ممالک کے موجودہ مشکل تعلقات میں بہرتی لانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔

عاقل ندیم
سابق سفارت کار
28351-844644058.jpg

(اے ایف پی)

وزیر اعظم عمران خان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ 22 جولائی کو واشنگٹن ڈی سی میں ملاقات کریں گے۔ وزیر اعظم کا یہ دورہ بظاہر انتہائی پراسرار طور پر طے ہوا ہے۔ پچھلے ہفتے تک امریکی وزارت خارجہ کو اس کا علم نہیں تھا اور نہ ہی ہماری وزارت خارجہ کچھ یقین سے اس بارے میں کہہ پا رہی تھی۔

وائٹ ہاؤس کے اعلان کے باوجود ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہوسکا کہ کیا یہ سرکاری دورہ ہے یا ورکنگ دورہ۔

وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ وہ دورہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کی رہائش گاہ پر ٹھہریں گے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ورکنگ دورہ ہے۔ سرکاری دورے میں وہ حکومت امریکہ کے مہمان ہوتے اور انہیں سرکاری رہائش گاہ بلیئر ہاؤس میں ٹھہرایا جاتا۔ ان کے وفد کو بھی سرکاری مہمان کا درجہ دیا جاتا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ سارے وفد کے واشنگٹن میں رہائش کے اخراجات حکومت پاکستان کو ادا کرنے پڑیں گے۔ امید ہے کہ وزیر اعظم کے وعدوں کے مطابق یہ دورہ مختصر وفد اور متعلقہ افراد پر مشتمل ہو گا اور اس سفر کے لیے کمرشل پرواز استعمال کی جائے گی۔

وزیر اعظم اور صدر ٹرمپ میں کئی خصوصیات مشترک ہیں اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان کی ذاتی کیمسٹری خوب بنے گی۔ دونوں رہنما صدر اور وزیر اعظم بننے سے بہت پہلے مشہور شخصیات رہی ہیں۔ دونوں نے اپنی شہرت کے دور میں کم ہی سیاسی مستقبل کے بارے میں سوچا تھا۔ دونوں کے دیوانہ وار چاہنے والے ہیں جن کے لیے شخصی کوتاہیاں کوئی خاص معنی نہیں رکھتیں۔ یہ مداح دوسرے رہنماؤں سے تو بہت اعلیٰ درجے کے اخلاقی اصولوں کا تقاضا کرتے ہیں لیکن اپنے لیڈروں کی انہی اصولوں کی پامالی ان کے لیے کوئی خاص معنی نہیں رکھتی۔ ان کوتاہیوں کو ڈھانپنے کے لیے ہر جواز پیدا کر لیا جاتا ہے۔

یہ دونوں رہنما اپنے مخالفین کے لیے انتہائی اشتعال انگیز زبان استعمال کرتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کی جانب سے اسی زبان کے استعمال کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ دونوں ایک متنازع انتخابی مرحلے کے بعد اقتدار میں آئے ہیں۔ دونوں وزارتوں کے مہیا کردہ ٹاکنگ پوائنٹس پر مکمل توجہ نہیں دے پاتے اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پر پروٹوکول کا خیال رکھتے ہیں۔ دونوں ایسی باتیں کرتے ہیں جو قومی و بین الاقوامی سطح پر مذاق کا سبب بنتی ہیں۔ دونوں کو بہت بولنے کا شوق ہے اور اکثر غیرضروری باتیں کر جاتے ہیں۔ یہ باتیں حقیقت سے بھی دور ہوتی ہے اور وہ بعض اوقات ان کی سبکی کا سبب بھی بنتی ہیں۔

لیکن ایسے لگتا ہے جیسے یہ دونوں لیڈر ان تمام منفی اثرات سے مبرا ہیں یا انہیں اپنی اساسی حمایت کے اعتماد کی وجہ سے اس بات کی پروا ہی نہیں کہ ان کے مخالفین یا بین الاقوامی رہنما ان کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔ دونوں سیاستدان میڈیا میں تقسیم کا باعث بنے ہوئے ہیں اور ایک جمہوری معاشرے کی طرح آزاد میڈیا کے لیے موزوں حالات پیدا کرنے کی بجائے غیرضروری محاذ آرائی کی فضا پیدا کیے ہوئے ہیں۔ دونوں مشہور درسگاہوں کے فارغ ‏التحصیل ہیں اور دونوں کا ان درسگاہوں نے بظاہر ان کا کچھ خاص نہیں بگاڑا۔

دونوں مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے ادب و آداب کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے۔ اور دونوں میں یہ خوبی بھی بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ اپنے یا ملک کے تمام مسائل کا الزام دوسروں پر لگاتے ہیں۔ وہ اپنی ناکامی یا پسپائی کی وجہ دوسرے لوگوں میں ڈھونڈتے ہیں۔ انہیں اپنی ہی کہی ہوئی باتوں کی تردید کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ دونوں میں اتنی مماثلت ہے کہ مشہور کمیڈین ٹریور نووا نے ان دونوں کی شخصیات پر ایک مکمل پروگرام تک کر ڈالا۔

یہ تمام مماثلت اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان دونوں رہنماوں کی ذہنی سطح پر بڑی ہم آہنگی ہے اور شاید یہ مثبت طریقے سے دونوں ملکوں کے موجودہ مشکل تعلقات آگے بڑھانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔

پچھلے چند ماہ میں افغانستان کے مسئلے پر امریکہ اور طالبان کی بات چیت میں کافی اہم پیش رفت ہوئی ہے اور زلمی خلیل زاد کے مطابق تقریبا تمام بڑے مسائل کے حل پر اتفاق ہوچکا ہے اور آخری پیچیدہ مسئلے کے بارے میں بھی وہ کافی پرامید نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم کا دورہ واشنگٹن اسی سلسلے کی کڑی لگتا ہے۔ افغان صدر کا طویل عرصے کے بعد دورہ پاکستان اور افغان قائدین کی پاکستان میں پچھلے ماہ امن مذاکرات میں شرکت اور اس مہینے وزیراعظم کا دورہ امریکہ اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ افغانستان ایک بڑا اور شاید واحد موضوع گفتگو ہو۔

صدر ٹرمپ افغانستان کے مسئلے کو جلد از جلد حل کرنا چاہتے ہیں تاکہ اگلے سال کی صدارتی مہم میں اس کا سیاسی فائدہ اٹھا سکیں۔ افغان مسئلے کا پرامن حل نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے سود مند ہوگا اور ہمیں اس کی کامیابی کے لیے پوری مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان ہمارے لیے ایک رستا ہوا زخم ہے جوکہ نہ صرف ہمارے معاشرے، ہمارے بین الاقوامی تعلقات بلکہ ہماری معیشت کو بھی بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ اس کا پرامن حل ہماری معاشی ترقی و سلامتی کے لیے از حد ضروری ہے۔ موجودہ حالات میں اس مسئلے کے حل کی امیدیں اس لیے بھی حوصلہ افزا ہیں کیونکہ حکومت اور دفاعی ادارے ایک لمبے عرصے کے بعد بہت سارے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں متفق ہیں۔ پرامن افغانستان ہم دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری پیدا کرے گا اور قدرتی طور پر ہماری حکمت عملی کی گہرائی میں اضافہ کرے گا۔

ہمیں اس ملاقات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افغان مسئلے میں تعاون کو ہمارے بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کو مہارت کے ساتھ مشروط کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں اور کرتارپور کا اعلان اس سلسلے میں ایک اہم پیش قدمی تھی۔

وزیراعظم کو صدر ٹرمپ کو اپنے انداز میں ان تعلقات میں بہتری کے فوائد کے بارے میں سمجھانے کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں شخصیات کے سوچنے کا انداز تقریباً ایک جیسا ہے اور صدر ٹرمپ غیر روایتی سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کاروباری شخصیت بھی ہیں تو انہیں تعلقات کے نفع اور نقصان کو سمجھانے اور سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ جیسے شمالی کوریا کے لیڈر کے ساتھ صدر ٹرمپ کی دوستی بڑھی ہے اور وہ شمالی کوریا کی تشویش کو بہتر طور پر سمجھ رہے ہیں اسی طرح وزیر اعظم بھی بھارت کے بارے میں پاکستان کی تشویش سے صدر ٹرمپ کو آسان لفظوں میں آگاہ کر سکتے ہیں۔ گو اس سلسلے میں کوئی بہت بڑی پیش رفت فوراً نظر نہیں آئے گی لیکن یہ اپنا اثر ضرور چھوڑے گی۔

صدر ٹرمپ اپنی وزارت خارجہ کے مشوروں پر کم عمل کرتے ہیں اور خارجی امور پر اپنا ذہن خود بناتے ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کی رائے پاکستان کے بارے میں کچھ بہتر بھی نہیں اور یہی مناسب موقع ہوگا کہ صدر ٹرمپ کو اچھے الفاظ میں حقائق کے ساتھ تصویر کا دوسرا رخ پیش کیا جائے خصوصا کشمیر میں جاری حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے بارے میں انہیں آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ قوی امکان ہے صدر ٹرمپ ہماری تشویش کو سمجھنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔

ہمیں FATF کی بارے میں بھی پرزور طریقے سے پاکستان کی تشویش کا اظہار کرنا چاہیے اور پوری تیاری سے پاکستان کے ساتھ جانبدارانہ سلوک پر احتجاج کرنا چاہیے۔

شاید اداروں کی سطح پر اس دورے سے فورا کچھ فوائد حاصل نہیں ہوں لیکن یہ دونوں پر اثر شخصیات اگر ذاتی تعلق قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں میں کافی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہ ملاقات دونوں ملکوں کے لیے سود مند ہوگی۔
 
ایک بات سمجھ نہیں آتی باہر ملکوں سے اتنی امداد ملی قرضے لئے اپنے ملک کے بڑے بڑے سیاستدانوں کی جائیدادیں ضبط کی گئیں چھوٹے چھوٹے مزدوروں کی روزی پر لات ماری گئی عوام کو ٹیکسوں کا بھاری بھاری بوجھ اُٹھانا پڑا ڈیم کے نام پر عوام سے پیسا بٹورا گیا کیا عمران خان یہ بتائیں گے کہ یہ سب پیسا کہاں گیا یا اِس پیسے کو کہاں لگایا گیا کون سی مہنگائی کم ہوئی اِس پیسے سے کون سے غریبوں کے حالات بدلے اِن پیسوں سے عمران خان صاحب کے حمایتی جواب دیں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
ایک بات سمجھ نہیں آتی باہر ملکوں سے اتنی امداد ملی قرضے لئے اپنے ملک کے بڑے بڑے سیاستدانوں کی جائیدادیں ضبط کی گئیں چھوٹے چھوٹے مزدوروں کی روزی پر لات ماری گئی عوام کو ٹیکسوں کا بھاری بھاری بوجھ اُٹھانا پڑا ڈیم کے نام پر عوام سے پیسا بٹورا گیا کیا عمران خان یہ بتائیں گے کہ یہ سب پیسا کہاں گیا یا اِس پیسے کو کہاں لگایا گیا کون سی مہنگائی کم ہوئی اِس پیسے سے کون سے غریبوں کے حالات بدلے اِن پیسوں سے عمران خان صاحب کے حمایتی جواب دیں۔
زیادہ تر پیسا پرانے قرضوں کی ادائیگی، فوج کے بجٹ اور صوبوں کے این ایف سی ایوار کی مد میں گیا ہے۔
وفاقی حکومت تو یہ تمام واجب ادائیگیاں کرنے کے بعد اچھے خاصے خسارہ سے اپنا مالی سال شروع کرتی ہے۔
 
زیادہ تر پیسا پرانے قرضوں کی ادائیگی، فوج کے بجٹ اور صوبوں کے این ایف سی ایوار کی مد میں گیا ہے۔
وفاقی حکومت تو یہ تمام واجب ادائیگیاں کرنے کے بعد اچھے خاصے خسارہ سے اپنا مالی سال شروع کرتی ہے۔
یہ سب تو پہلے بھی ہوتا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ سب تو پہلے بھی ہوتا تھا۔
جی ہاں البتہ اب داڑھی مونچھ سے بڑھ چکی ہے۔
اب ہم صرف پرانے قرضے اتارنے کیلئے نئے قرضے لے رہے ہیں۔ ملک چلانے کیلئے جو قرضے پی پی پی اور ن لیگ دور میں لئے گئے تھے وہ اب نہیں لئے جا سکتے۔
اسی لئے معیشت جمود کا شکار ہو گئی ہے۔ کیونکہ پاکستانی معیشت کئی دہائیوں سے بیرونی قرضوں پر چلنے کی عادی ہو چکی تھی۔ اب اسے اپنے پیروں پر خود کھڑے ہونا ہے۔
 
Top