عمران خان کی ٹیم

جاسم محمد

محفلین
مسلمان ہونا اور شئے ہے اور اسلامی حکومت کے ذریعے ایمان کا تحفظ الگ شئے ہے۔ جناب عمر رض کی حکومت نہیں عمران کی حکومت ہے ورنہ ابولولو فیروز مجوسی کو اپنا غلام لگا کر شہید بھی ہوجاتے۔ آپکو قرآن کو سب قوانین سے سپریم قانون ماننا ہو گا اور اپنی سگنیچر تبدیل کرنی ہو گی۔ "سلامتی کے ساتھ منتظر مہدی ع۔"
ایمان کا تحفظ کرنا اگر حکومت کا کام ہے تو پھر آپ سرکاری مسلمان ہوئے۔
 

سید رافع

محفلین
ایمان کا تحفظ کرنا اگر حکومت کا کام ہے تو پھر آپ سرکاری مسلمان ہوئے۔

ایمان کسی ایک چیز کا نام نہیں یہ ایک درخت کی مانند ہے۔

حضرت ابوہریرہ ( آپ کا اصل نام عبدالرحمن بن صخر ہے کنیت ابوہریرہ ہے۔ ٥٧ یا ٥٨ھ میں آپ نے مدینہ میں وصال فرمایا۔) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ایمان کی شاخیں ستر سے کچھ اوپر ہیں ان میں سب سے اعلیٰ درجہ کی شاخ زبان و دل سے اس بات کا اقرار و اعتراف ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سب سے کم درجہ کی شاخ کسی تکلیف دینے والی چیز کا راستہ سے ہٹا دینا ہے نیز شرم و حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
 

سید رافع

محفلین
ایمان کا تحفظ کرنا اگر حکومت کا کام ہے تو پھر آپ سرکاری مسلمان ہوئے۔

اس لسٹ میں دیکھیں کہ کون کون سی ایمان کی شاخیں حکومت سے تعلق رکھتی ہیں اور کون کون سی انفرادی اعمال سے۔

امام ابو بکر بیہقی رحمہ اللہ نے ایمان کی شاخوں میں سے ستہتر(77) شاخیں ذکر فرمائی ہیں(١)، یہ شاخیں مختصراً حسب ذیل ہیں:

1۔اللہ عز وجل پر ایمان۔

2۔انبیاء ورسل علیہم الصلاة والسلام پر ایمان۔

3۔فرشتوں پر ایمان۔

4۔قرآن کریم اور تمام آسمانی کتابوں پر ایمان۔

5۔تقدیر پر ایمان کہ بھلی بری تقدیر اللہ عز وجل کی طرف سے ہے۔

6۔یو م آخرت پر ایمان۔

7۔مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان۔

8۔لوگوں کے اپنی قبروں سے اٹھائے جانے کے بعد موقف میں اکٹھا کئے جانے پر ایمان۔

9۔اس بات پر ایمان کہ مومنوں کا ٹھکانہ جنت اور کافروںکا ٹھکانہ جہنم ہے۔

10 اللہ عز وجل کی محبت کے واجب ہونے پر ایمان۔

11۔اللہ عز وجل سے خوف کھانے کے وجوب پر ایمان۔

12۔اللہ عز وجل سے امیدرکھنے کے وجوب پر ایمان۔

13۔اللہ عز وجل پر اعتماد و توکل کرنے کے وجوب پر ایمان۔

14۔نبی کریم ﷺسے محبت کے واجب ہونے پر ایمان۔

15۔غلو کئے بغیر نبی کریم ﷺ کی تعظیم و توقیر اور احترام کے واجب ہونے پر ایمان۔

16۔آدمی کا اپنے دین سے اس قدر محبت کرنا کہ جہنم میں ڈالا جانا اس کے نزدیک کفر کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہو۔

17۔طلب علم: یعنی دلائل کی روشنی میں اللہ عز وجل' اس کے دین اور اس کے نبی ﷺکی معرفت کا حصول۔

18۔ علم کی نشر و اشاعت اورلوگوں کو اس کی تعلیم دینا۔

19۔قرآن کریم سیکھ کر ،دوسروں کو سکھا کر، اس کے حدود و احکام کی حفاظت کرکے، اس کے حلام و حرام کی معرفت حاصل کرکے، ا س کے متبعین کی عزت و تکریم کرکے نیز اس کو حفظ کرکے اس کی تعظیم کرنا۔

20۔طہارت و پاکی اور وضو کی پابندی کرنا۔

21۔پنجوقتہ نمازوں کی پابندی کرنا۔

22۔زکاة ادا کرنا۔

23۔فرض اور نفل روزے رکھنا۔

24۔اعتکاف کرنا۔

25۔خانۂ کعبہ کاحج کرنا۔

26۔اللہ عز وجل کی راہ میں جہاد کرنا۔

27۔اللہ عز وجل کی راہ میں مرابطہ (سازو سامان اور ہتھیار لے کر اسلامی حدود کی نگرانی کرنا)۔

28۔دشمن کے سامنے ثابت قدم رہنا اور میدان جنگ سے نہ بھاگنا۔

29۔مال غنیمت حاصل کرنے والوں کو اپنے امام یا اس کے نائب کو مال غنیمت کا پانچواں حصہ اد اکرنا۔

30۔اللہ عز وجل سے تقرب کی خاطر غلام آزاد کرنا۔

31۔جنایات(جرائم) پر واجب ہونے والے کفاروں کی ادائیگی جو کتاب و سنت میں چار ہیں:قتل کا کفارہ، ظہار کا کفارہ، قسم کا کفارہ اور ماہ رمضان (کے دن ) میں بیوی سے ہمبستری کرنے کا کفارہ۔

32۔معاملات (عہد و پیمان)کو پورا کرنا۔

33۔اللہ عز وجل کی نعمتوں کا شمار اور اس پر واجب شکر گزاری۔

34۔غیر ضروری (لایعنی) چیزوں سے زبان کی حفاظت کرنا۔

35۔امانتوں کی حفاظت اور انہیں ان کے مستحقین کو ادا کرنا۔

36۔کسی جان کے قتل اور اس پر ظلم کرنے کو حرام جاننا۔

37۔ شرمگاہوں کی حفاظت اور ان میں لازم عفت و عصمت اختیار کرنا۔

38۔حرام اموال سے ہاتھ روک لینا، اور اس میں چوری ' رہزنی' رشوت خوری اور شرعاً ناجائز مال کھانے کی حرمت وغیرہ شامل ہے۔

39۔کھانے پینے میں احتیاط کا وجوب، اور کھانے پینے کی ناجائز اشیاء سے اجتناب۔

40۔حرام اورمکروہ لباس' وضع قطع اور حرام کردہ برتنوں سے اجتناب کرنا۔

41۔شریعت اسلامیہ کے مخالف کھیل کود اور تفریحی اشیاء کو حرام جاننا۔

42۔خرچ میں میانہ روی اپنانااور باطل طریقہ سے مال کھانے کو حرام جاننا۔

43۔بغض و حسد سے اجتناب۔

44۔لوگوں کی عزت و ناموس کی حرمت اور ان میں نہ پڑنے کا وجوب۔

45۔اللہ عز وجل کے لئے اخلاص عمل' اور ریاکاری سے اجتناب۔

46۔نیکی پر مسرت و شادمانی اور گناہ پر رنج و غم (کا احساس)۔

47۔ توبۂ نصوح (خالص توبہ) سے ہر گناہ کا علاج کرنا۔

48۔تقرب الٰہی کے اعمال، اجمالی طور پریہ ہدی' قربانی اور عقیقہ ہیں۔

49۔اولو الامر (ائمہ' امراء اور حکام) کی اطاعت۔

50۔ 'جماعت' کے عقیدہ و منہج کی پابندی۔

51۔لوگوں کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرنا۔

52۔بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔

53۔نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں باہمی تعاون۔

54۔شرم و حیا۔

55۔والدین کے ساتھ حسن سلوک۔

56۔صلہ رحمی (رشتہ جوڑنا)۔

57۔ حسن اخلاق۔

58۔غلاموں کے ساتھ حسن سلوک۔

59۔غلاموں پر ان کے آقاؤں (مالکان) کے حقوق۔

60۔اہل و عیال اور بچوں کے حقوق کی ادائیگی۔

61۔دین داروں سے قربت، ان سے محبت اور ان سے سلام و مصافحہ کرنا۔

62۔سلام کا جواب دینا۔

63۔بیمار کی عیادت کرنا۔

64۔اہل قبلہ میں سے مرنے والوں پر نماز جنازہ کی ادائیگی۔

65۔چھینکنے والے کو جواب دینا(یعنی اس کے ''الحمدللہ'' کے جواب میں ''یرحمک اللہ'' کہنا)۔

66۔کفار اور فسادیوں سے دوری اختیار کرنااور ان کے ساتھ سختی کا معاملہ کرنا۔

67۔پڑوسی کی عزت کرنا۔

68۔مہمان کی عزت و تکریم۔

69۔گنہگاروں کی پردہ پوشی کرنا۔

70۔ مصائب پرصبر اور جن لذتوں اور خواہشات کی طرف نفس کا میلان ہوتا ہے ان سے رک جانا۔

71۔دنیا سے بے رغبتی اور قلت آرزو۔

72۔غیرت کا مظاہرہ اور بے جا نرمی سے پرہیز۔

73۔ غلو سے اجتناب۔

74۔سخاوت و فیاضی۔

75۔چھوٹے پر شفقت اور بڑے کا احترام۔

76۔ باہمی اختلافات کی اصلاح۔

77۔آدمی اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی پسند کرے جو خود اپنے لئے پسند کرتا ہے، اور اس کے لئے اس چیز کو ناپسند کرے جسے خود اپنے لئے ناپسند کرتا ہے، اس میں راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانابھی شامل ہے جس کی طرف (ایمان کی شاخوں والی)حدیث میں اشارہ کیا گیاہے(3)

(3)۔شعب الایمان از بیہقی :7/3 تا 540۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس لسٹ میں دیکھیں کہ کون کون سی ایمان کی شاخیں حکومت سے تعلق رکھتی ہیں اور کون کون سی انفرادی اعمال سے۔

امام ابو بکر بیہقی رحمہ اللہ نے ایمان کی شاخوں میں سے ستہتر(77) شاخیں ذکر فرمائی ہیں(١)، یہ شاخیں مختصراً حسب ذیل ہیں:

1۔اللہ عز وجل پر ایمان۔

2۔انبیاء ورسل علیہم الصلاة والسلام پر ایمان۔

3۔فرشتوں پر ایمان۔

4۔قرآن کریم اور تمام آسمانی کتابوں پر ایمان۔

5۔تقدیر پر ایمان کہ بھلی بری تقدیر اللہ عز وجل کی طرف سے ہے۔

6۔یو م آخرت پر ایمان۔

7۔مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان۔

8۔لوگوں کے اپنی قبروں سے اٹھائے جانے کے بعد موقف میں اکٹھا کئے جانے پر ایمان۔

9۔اس بات پر ایمان کہ مومنوں کا ٹھکانہ جنت اور کافروںکا ٹھکانہ جہنم ہے۔

10 اللہ عز وجل کی محبت کے واجب ہونے پر ایمان۔

11۔اللہ عز وجل سے خوف کھانے کے وجوب پر ایمان۔

12۔اللہ عز وجل سے امیدرکھنے کے وجوب پر ایمان۔

13۔اللہ عز وجل پر اعتماد و توکل کرنے کے وجوب پر ایمان۔

14۔نبی کریم ﷺسے محبت کے واجب ہونے پر ایمان۔

15۔غلو کئے بغیر نبی کریم ﷺ کی تعظیم و توقیر اور احترام کے واجب ہونے پر ایمان۔

16۔آدمی کا اپنے دین سے اس قدر محبت کرنا کہ جہنم میں ڈالا جانا اس کے نزدیک کفر کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہو۔

17۔طلب علم: یعنی دلائل کی روشنی میں اللہ عز وجل' اس کے دین اور اس کے نبی ﷺکی معرفت کا حصول۔

18۔ علم کی نشر و اشاعت اورلوگوں کو اس کی تعلیم دینا۔

19۔قرآن کریم سیکھ کر ،دوسروں کو سکھا کر، اس کے حدود و احکام کی حفاظت کرکے، اس کے حلام و حرام کی معرفت حاصل کرکے، ا س کے متبعین کی عزت و تکریم کرکے نیز اس کو حفظ کرکے اس کی تعظیم کرنا۔

20۔طہارت و پاکی اور وضو کی پابندی کرنا۔

21۔پنجوقتہ نمازوں کی پابندی کرنا۔

22۔زکاة ادا کرنا۔

23۔فرض اور نفل روزے رکھنا۔

24۔اعتکاف کرنا۔

25۔خانۂ کعبہ کاحج کرنا۔

26۔اللہ عز وجل کی راہ میں جہاد کرنا۔

27۔اللہ عز وجل کی راہ میں مرابطہ (سازو سامان اور ہتھیار لے کر اسلامی حدود کی نگرانی کرنا)۔

28۔دشمن کے سامنے ثابت قدم رہنا اور میدان جنگ سے نہ بھاگنا۔

29۔مال غنیمت حاصل کرنے والوں کو اپنے امام یا اس کے نائب کو مال غنیمت کا پانچواں حصہ اد اکرنا۔

30۔اللہ عز وجل سے تقرب کی خاطر غلام آزاد کرنا۔

31۔جنایات(جرائم) پر واجب ہونے والے کفاروں کی ادائیگی جو کتاب و سنت میں چار ہیں:قتل کا کفارہ، ظہار کا کفارہ، قسم کا کفارہ اور ماہ رمضان (کے دن ) میں بیوی سے ہمبستری کرنے کا کفارہ۔

32۔معاملات (عہد و پیمان)کو پورا کرنا۔

33۔اللہ عز وجل کی نعمتوں کا شمار اور اس پر واجب شکر گزاری۔

34۔غیر ضروری (لایعنی) چیزوں سے زبان کی حفاظت کرنا۔

35۔امانتوں کی حفاظت اور انہیں ان کے مستحقین کو ادا کرنا۔

36۔کسی جان کے قتل اور اس پر ظلم کرنے کو حرام جاننا۔

37۔ شرمگاہوں کی حفاظت اور ان میں لازم عفت و عصمت اختیار کرنا۔

38۔حرام اموال سے ہاتھ روک لینا، اور اس میں چوری ' رہزنی' رشوت خوری اور شرعاً ناجائز مال کھانے کی حرمت وغیرہ شامل ہے۔

39۔کھانے پینے میں احتیاط کا وجوب، اور کھانے پینے کی ناجائز اشیاء سے اجتناب۔

40۔حرام اورمکروہ لباس' وضع قطع اور حرام کردہ برتنوں سے اجتناب کرنا۔

41۔شریعت اسلامیہ کے مخالف کھیل کود اور تفریحی اشیاء کو حرام جاننا۔

42۔خرچ میں میانہ روی اپنانااور باطل طریقہ سے مال کھانے کو حرام جاننا۔

43۔بغض و حسد سے اجتناب۔

44۔لوگوں کی عزت و ناموس کی حرمت اور ان میں نہ پڑنے کا وجوب۔

45۔اللہ عز وجل کے لئے اخلاص عمل' اور ریاکاری سے اجتناب۔

46۔نیکی پر مسرت و شادمانی اور گناہ پر رنج و غم (کا احساس)۔

47۔ توبۂ نصوح (خالص توبہ) سے ہر گناہ کا علاج کرنا۔

48۔تقرب الٰہی کے اعمال، اجمالی طور پریہ ہدی' قربانی اور عقیقہ ہیں۔

49۔اولو الامر (ائمہ' امراء اور حکام) کی اطاعت۔

50۔ 'جماعت' کے عقیدہ و منہج کی پابندی۔

51۔لوگوں کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرنا۔

52۔بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔

53۔نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں باہمی تعاون۔

54۔شرم و حیا۔

55۔والدین کے ساتھ حسن سلوک۔

56۔صلہ رحمی (رشتہ جوڑنا)۔

57۔ حسن اخلاق۔

58۔غلاموں کے ساتھ حسن سلوک۔

59۔غلاموں پر ان کے آقاؤں (مالکان) کے حقوق۔

60۔اہل و عیال اور بچوں کے حقوق کی ادائیگی۔

61۔دین داروں سے قربت، ان سے محبت اور ان سے سلام و مصافحہ کرنا۔

62۔سلام کا جواب دینا۔

63۔بیمار کی عیادت کرنا۔

64۔اہل قبلہ میں سے مرنے والوں پر نماز جنازہ کی ادائیگی۔

65۔چھینکنے والے کو جواب دینا(یعنی اس کے ''الحمدللہ'' کے جواب میں ''یرحمک اللہ'' کہنا)۔

66۔کفار اور فسادیوں سے دوری اختیار کرنااور ان کے ساتھ سختی کا معاملہ کرنا۔

67۔پڑوسی کی عزت کرنا۔

68۔مہمان کی عزت و تکریم۔

69۔گنہگاروں کی پردہ پوشی کرنا۔

70۔ مصائب پرصبر اور جن لذتوں اور خواہشات کی طرف نفس کا میلان ہوتا ہے ان سے رک جانا۔

71۔دنیا سے بے رغبتی اور قلت آرزو۔

72۔غیرت کا مظاہرہ اور بے جا نرمی سے پرہیز۔

73۔ غلو سے اجتناب۔

74۔سخاوت و فیاضی۔

75۔چھوٹے پر شفقت اور بڑے کا احترام۔

76۔ باہمی اختلافات کی اصلاح۔

77۔آدمی اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی پسند کرے جو خود اپنے لئے پسند کرتا ہے، اور اس کے لئے اس چیز کو ناپسند کرے جسے خود اپنے لئے ناپسند کرتا ہے، اس میں راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانابھی شامل ہے جس کی طرف (ایمان کی شاخوں والی)حدیث میں اشارہ کیا گیاہے(3)

(3)۔شعب الایمان از بیہقی :7/3 تا 540۔
یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ عملا ایمان کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کی انفرادی ذمہ داری ہے۔ بازار میں جو ملاوٹ والا مال بیچ رہا ہے، بچوں کو جو حرام کھلا رہا ہے، سرکاری دفتر میں جو رشوت لے رہا ہے اور دے رہا ہے، مدارس و مساجد میں جو بچوں کا ریپ کر رہا ہے، قومی اسمبلی میں جو ایک دوسرے کو بازاری زبان میں گالیاں دے رہا ہے، وہ کوئی قادیانی، مجوسی، پرویزی، گوہر شاہی نہیں بلکہ سرکاری مسلمان ہی ہے۔ ہر کوئی اپنے ایمان کا محاسبہ خود کرے۔ حکومت پر نہ چھوڑے۔
 

سید رافع

محفلین
یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ عملا ایمان کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کی انفرادی ذمہ داری ہے۔ بازار میں جو ملاوٹ والا مال بیچ رہا ہے، بچوں کو جو حرام کھلا رہا ہے، سرکاری دفتر میں جو رشوت لے رہا ہے اور دے رہا ہے، مدارس و مساجد میں جو بچوں کا ریپ کر رہا ہے، وہ کوئی قادیانی، مجوسی، پرویزی، گوہر شاہی نہیں بلکہ سرکاری مسلمان ہی ہے۔ ہر کوئی اپنے ایمان کا محاسبہ خود کرے۔ حکومت پر نہ چھوڑے۔

قرآن بھی کتاب ہی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اول کام تو ایک مکمل کتاب منتخب کرنا ہے۔
پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت سے متصادم بن نہیں سکتا۔ یہ حتمی بات آئین پاکستان کی پہلی شق قرار داد مقاصد ۱۹۴۹ سے شامل ہے۔ مسئلہ دراصل عمل درآمد کا ہے۔ جیسے سرکاری مسلمان قرآن پڑھ لیتے ہیں عمل نہیں کرتے۔ ویسے ہی ان کی حکومت پاکستان آئین و قانون پڑھ لیتی ہے اس کا عملی نفاذ نہیں کرتی۔
 

سید رافع

محفلین
پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت سے متصادم بن نہیں سکتا۔ یہ حتمی بات آئین پاکستان کی پہلی شق قرار داد مقاصد ۱۹۴۹ سے شامل ہے۔ مسئلہ دراصل عمل درآمد کا ہے۔ جیسے سرکاری مسلمان قرآن پڑھ لیتے ہیں عمل نہیں کرتے۔ ویسے ہی ان کی حکومت پاکستان آئین و قانون پڑھ لیتی ہے اس کا عملی نفاذ نہیں کرتی۔

کتاب پڑھنا کوئی معمولی عمل ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
کتاب پڑھنا کوئی معمولی عمل ہے!
قرآن پڑھے بغیر بھی آپ کو معلوم ہے کہ چوری کرنا، بدکاری کرنا، ملاوٹ کرنا، رشوت لینا دینا، کرپشن وغیرہ غلط پریکٹس ہے۔ اگر معاشرہ کی اکثریت صرف ان بنیادی برائیوں سے باز آجائے تو یہی کافی ہے۔ قرآن کے دیگر احکامات ایک طرف رکھ دیں۔
 

سید رافع

محفلین
قرآن پڑھے بغیر بھی آپ کو معلوم ہے کہ چوری کرنا، بدکاری کرنا، ملاوٹ کرنا، رشوت لینا دینا، کرپشن وغیرہ غلط پریکٹس ہے۔ اگر معاشرہ کی اکثریت صرف ان بنیادی برائیوں سے باز آجائے تو یہی کافی ہے۔ قرآن کے دیگر احکامات ایک طرف رکھ دیں۔

معلوم ہے اسی لیے قرآن محض یاد دھانی ہے۔ سب کو سب معلوم ہے لیکن توفیق صرف اسکو ملتی ہے جو خود پاک ہونا چاہتا ہو۔

قانون پر سختی اوپر سے شروع ہو کر نیچے آتی ہے۔ عمران سول قانون کی پاسداری کر رہا ہو لیکن وہ قرآنی قانون سے واقف نہیں۔

چوری ہر ایک نہیں کر رہا کوئی کوئی کر رہا ہے، بدکاری سے بہت سے لوگ بچے ہوئے ہیں اور اپنی فیملی کے ساتھ ہیں، ملاوٹ بہت سے نہیں کر رہے، رشوت لینا دینا مخصوص سرکاری شعبوں میں ہے، کرپشن ایک مشکل اصطلاح ہے اس میں قلم و روشنی کے اصل مقصد سے ہٹا کر استعمال کرنا بھی آجاتا ہے۔

بہت سے لوگوں کو نیکی کی توفیق ملی ہوئی ہے۔
 
Top