عمران خان کی خوبیاں اور خامیاں

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کی خوبیاں اور خامیاں
سہیل وڑائچ صحافی و تجزیہ کار
  • 29 مئ 2020

Image copyrightTWITTER/@PAKPMO
_112549551_d0e675e4-e516-41a6-a2fa-f0388ca3659d.jpg

افراط و تفریط ہمارے قومی مزاج کا حصہ ہے۔ اپنے پسندیدہ لیڈر کے اوصاف کو ہم بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور نا پسندیدہ شخص میں ہمیں کوئی خوبی نظر نہیں آتی بلکہ اس کے نقائص اس قدر زیادہ لگتے ہیں کہ اسے ہمارے لیے برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

یہ افراط و تفریط اور یہ عدم توازن ہمارے جذباتی پن کی وجہ سے ہے۔ آئیے آج وزیر اعظم عمران خان کی خوبیوں اور خامیوں کا غیر جذباتی جائزہ لیں۔

کرکٹ ہیرو سے وزیر اعظم بننے تک عمران خان نے اپنی ایمانداری اور اصول پسندی کا تاثر ہمیشہ برقرار رکھا ہے۔

پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنتے ہی انھوں نے اپنے سے عمر میں بڑے خالہ زاد بھائی ماجد خان کو ٹیم سے نکال کر اپنی اصول پسندی کی دھاک بٹھا دی تھی۔

Image copyrightTWITTER/@JAHANGIRKTAREEN
_112549198_770400af-a8f3-4740-80f2-aa8cd73f5487.jpg

Image captionاصول پسندی کا تسلسل چینی انکوائری سکینڈل میں جہانگیر ترین، مونس الہی اور اپنے دیگر ساتھیوں کے نام دینے میں نظر آتا ہے
اسی اصول پسندی کا تسلسل چینی انکوائری سکینڈل میں جہانگیر ترین، مونس الہی اور اپنے دیگر ساتھیوں کے نام دینے میں نظر آتا ہے۔

عبد العلیم خان، سبطین خان اور اسد عمر کو بھی عمران خان وزارتوں سے ہٹا کر دوبارہ واپس لائے ہیں۔ 18 ماہ کی حکومت میں ان کی ایمانداری پر کوئی سوال نہیں اٹھا اور انھوں نے بھی مشکوک سودوں سے اپنے آپ کو کوسوں دور رکھا ہے۔

ریاستی اداروں کی طرف سے پیپلز پارٹی اور بعد میں ن لیگ پر حب الوطنی کے حوالے سے سوالات اٹھتے تھے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو ریاست کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں پر تحفظات تھے۔

جواباً ریاستی اداروں کو ماضی کی ان دو بڑی جماعتوں کی قیادت کے خیالات اور بالخصوص انڈیا، امریکہ، افغانستان اور عرب کے حوالے سے پالیسیوں پر تحفظات تھے۔

عمران خان اس حوالے سے ریاستی اداروں کے ساتھ ایک صفحے پر ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے ریاستی ادارے جو بھی اقدامات اٹھا رہے ہیں عمران خان ان کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔

انڈیا کے حوالے سے بھی عمران خان اور پاکستانی ادارے ایک ہی سوچ رکھتے ہیں۔ عمران خان نے ماضی کے سیاسی رہنماؤں کی طرح امریکی قیادت سے بھی ذاتی تعلقات کی پینگیں نہیں بڑھائیں۔

ان مثالوں کی روشنی میں عمران خان ابھی تک حب الوطنی کے ملکی معیار کے عین مطابق چل رہے ہیں۔

عام کھلاڑیوں کے بر عکس عمران خان شروع ہی سے سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ ان کے کزن اور بہنوئی حفیظ اللہ نیازی یہ بتاتے ہیں کہ عمران ہجوم کو دیکھ کر فوراً بتا دیتے ہیں کہ اس میں کتنا جوش و جذبہ ہے۔

Image copyrightPTI/TWITTER
_112549547_fb3de760-b752-462a-9a75-1240633d98b5.jpg

Image captionسرحدی دباؤ اور معاشی بحران کے اس دور میں سیاسی اتحاد کی ضرورت تھی مگر عمران خان کے احتساب نے سیاسی قوتوں میں نفاق اور کشیدگی پیدا کی ہے
عمران خان اپنے سیاسی تاثر کا خود خیال رکھتے ہیں اس لیے سوشل میڈیا ٹیمز کو اپنے مخالفوں کا تیا پانچہ کرنے اور اپنی حمایت کے لیے دلائل مہیا کرنے کا فریضہ بھی وہ خود ہی انجام دیتے ہیں۔ گویا بیانیے کی جنگ میں ابھی تک انھوں نے اپنے مخالفوں کو شکست دے رکھی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنھوں نے اپنے وزرا پر کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے۔ ہر وزیر کے بارے میں رپورٹس وہ خود دیکھتے ہیں اور جس کسی کی غلطی ہو اسے ڈانتے، سمجھاتے اور بعض اوقات ناراض بھی ہوتے ہیں۔

پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے زیادہ تر وزرا اس لیے ناراض ہیں کہ وہ ان سرکاری سمریوں کو منظور نہیں کرتے جن کے بارے میں بعد میں مشکوک سوال اٹھ سکتے ہیں۔ عمران رولز اینڈ ریگولیشنز کا مکمل خیال رکھتے ہیں۔

واقفان حال بتاتے ہیں کہ اکیلے رہنے سے عمران خان میں جو کمزوریاں پیدا ہو گئیں تھیں وہ بشریٰ عمران سے شادی کے بعد کافی حد تک دور ہو گئی ہیں۔ بیگم صاحبہ نے گھر کے ماحول کو مذہبی اور روحانی بنا دیا ہے۔

روحانی سلاسل کے لوگوں کو ماہ رمضان میں عالم عرب کی اعلیٰ ترین کھجوروں کے خوبصورت تحائف بھیجے گئے جن پر بیگم صاحبہ اور وزیر اعظم کے نام درج تھے۔

بیگم بشریٰ عمران آزاد خیال اور غیر مذہبی وزرا کی سرگرمیوں سے بھی وزیر اعظم کو با خبر رکھتی ہیں۔

وزیر اعظم کی کرپشن کے خلاف جنگ اور پھر اس میں کسی مصلحت سے کام نہ لینا ان کی شخصیت اور شہرت کی پہچان بن چکی ہے۔ اسی طرح غریبوں سے ان کی محبت اور نام نہاد اشرافیہ سے ان کی نفرت بھی ان کی شخصیت کی مثبت علامتوں میں سے ہے۔

غریبوں کے لیے کیش احساس پروگرام اور ان کے لیے مسلسل ہمدردی کے بول ان کے دل کی آواز لگتے ہیں۔

اوور سیز پاکستانیوں کے لیے وہ نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کا جب بھی ذکر ہوتا ہے ان کے لہجے میں ہمدردی کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔

Image copyrightGOVERNMENT OF PAKISTAN
_112549194_hi055446861.jpg

Image captionاوور سیز پاکستانیوں کے لیے وہ نرم گوشہ رکھتے ہیں
عمران خان اب کرشماتی ہیرو کے ساتھ ساتھ وزیراعظم پاکستان بھی ہیں۔ اس لیے ان کی شخصی اور حکومتی خامیوں کا احاطہ کرنا بھی ضروری ہے۔

بطور وزیر اعظم پاکستان عمران خان معیشت کے پہیے کو چلانے میں کامیاب نہیں ہوئے نہ ہی وہ تاجروں اور صنعت کاروں کو یہ اعتماد دے سکے ہیں کہ ملک کی فضا سرمایہ کاری کے لیے سازگار ہے۔

یہی معاملہ طرز حکمرانی کا بھی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلی کا انتخاب نہ تو پاکستان کے اداروں کو پسند آیا اور نہ ہی اسے کسی بھی میرٹ پر پرکھا جا سکتا ہے۔

کابینہ پر کڑی نگرانی کے باوجود وزیر اعظم وہ نگاہ دور بین نہیں رکھتے جو جس کا کام اسی کو ساجھے کے تحت وزرا میں ذمہ داریاں تقسیم کر سکیں۔ اسد عمر کو وزیر خزانہ لگایا پھر ہٹا دیا، چودھری فواد کو وزیر اطلاعات لگایا پھر فردوس عاشق کو لے آئے۔ اب نئی ٹیم آگئی ہے۔

وہ پنجاب کے کئی چیف سیکرٹری اور آئی جی تبدیل کر چکے ہیں مگر اصلاح احوال ہونے کو نہیں آرہی۔

لاک ڈاؤن کے حوالے سے جزبز نے یہ ظاہر کیا کہ ان میں قوت فیصلہ کی کمی ہے۔ اسی طرح کرپشن اور احتساب کے ایجنڈے پر عمل کر کے عمران خان نے اپنے سینے پر سیاسی تمغے تو سجا لیے ہیں لیکن قومی اتفاق رائے کو شدید نقصان پہنچایا۔

Image copyrightPUNJAB GOVT
_112549549_38bb347b-8976-4263-9079-a19ab15712b5.jpg

Image captionعبد العلیم خان، سبطین خان اور اسد عمر کو بھی عمران خان وزارتوں سے ہٹا کر دوبارہ واپس لائے ہیں
سرحدی دباؤ اور معاشی بحران کے اس دور میں سیاسی اتحاد کی ضرورت تھی مگر عمران خان کے احتساب نے سیاسی قوتوں میں نفاق اور کشیدگی پیدا کی ہے۔

حزب مخالف کو یہ کہنے کا جائز موقع مل گیا ہے کہ ان سے انتقامی سلوک ہو رہا ہے اس لیے وہ حکومت سے تعاون کیسے کر سکتے ہیں؟

وزیر اعظم عمران خان تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے۔ ان کے نوجوان حامیوں اور اوور سیز ساتھیوں کو توقع تھی کہ وہ عدالتی، انتظامی اور سماجی اصلاحات کا آغاز کریں گے۔

لیکن تاحال اس سمت میں ابتدائی پیش رفت تک بھی نہیں ہو سکی۔ نہ پٹواری اور تھانہ کلچر ختم ہوا، نہ رشوت اور سرخ فیتہ ختم کرنے کی کوئی منصوبہ بندی کی گئی۔ زراعت کا برا حال ہے۔

ترقیاتی بجٹ ختم کر دیے گئے ہیں۔ میڈیا 70 سال کے دوران کبھی اتنے بُرے حال میں گرفتار نہیں ہوا جتنے برے حال میں اب ہے۔

لگتا یوں ہے کہ عمران خان امور مملکت کی گہری گتھیوں کو ایک کھلاڑی کے چوکے یا چھکے کے ذریعے سلجھانا چاہتے ہیں مگر معیشت اور حکمرانی کا جال اتنا پیچیدہ ہوتا ہے کہ اس کی گانٹھوں کو ٹھنڈے دل، گہری سوچ اور تدبر سے ہی کھولنا پڑتا ہے۔

وزیر اعظم میں اپنے تاثر کو ٹھیک رکھنے اور اپنی سیاسی برتری قائم رکھنے کا جذبہ بہ درجہ اتم موجود ہے لیکن پوری قوم کے بیڑے کو اجتماعی طور پر پار لگانے کی صلاحیت پر ان کے ناقدین سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔

گورننس گہرا کام ہے، اس کے لیے زیادہ گہرے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
 
باقی سب تو ٹھیک ہے، وہ پوچھنا تھا کہ لفافہ بدل گیا یا سافٹویئر اپڈیٹ ہوا ہے؟ :p
اسے کہتے نواز شریف کو بیلنس کرنے کے لیے جہانگیر ترین نااہل ٹائپ کالم۔ چاپلوسی کا عمدہ نمونہ اور پاکستانی نصاب صحافت میں میں شامل کرنے کے لیے ایک آئیڈیل تحریر۔
 
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنھوں نے اپنے وزرا پر کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے۔
بہت سیانا ہے کپتان، نا ہینگ لگے نا پھٹکڑی ۔۔۔وغیرہ۔ بغیر کوئی دھیلہ خرچ کیے کمائی کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ نظر ایویں نہیں رکھی۔
بیگم بشریٰ عمران آزاد خیال اور غیر مذہبی وزرا کی سرگرمیوں سے بھی وزیر اعظم کو با خبر رکھتی ہیں
پیرنی صاحبہ آئی ایس آئی لگے نیں ؟
 

جاسم محمد

محفلین
باقی سب تو ٹھیک ہے، وہ پوچھنا تھا کہ لفافہ بدل گیا یا سافٹویئر اپڈیٹ ہوا ہے؟ :p
اس بار حکومت اور اپوزیشن دونوں نے لفافے دئے تھے اس لئے عمران خان کی خوبیاں اور خامیاں دونوں لکھ کر اپنی صحافتی ذمہ داری نبھائی ہے۔ شاید پاکستان میں اس کا رواج نہیں ہے البتہ اصلی صحافت ہوتی ہے وہ جو مکمل طور پر غیر جانبدار ہو۔ عمران خان کے حق میں قصیدے پڑھنا یا سارا وقت نکتہ چینی کرنا صحافت نہیں دلالت ہے۔ بہت عرصہ بعد کسی صحافی کی طرف سے اتنا بیلنسڈ کالم پڑھنے کو ملا۔ کاش پاکستان کے دیگر صحافی بھی اس سے سبق سیکھیں
 
اس بار حکومت اور اپوزیشن دونوں نے لفافے دئے تھے اس لئے عمران خان کی خوبیاں اور خامیاں دونوں لکھ کر اپنی صحافتی ذمہ داری نبھائی ہے۔ شاید پاکستان میں اس کا رواج نہیں ہے البتہ اصلی صحافت ہوتی ہے وہ جو مکمل طور پر غیر جانبدار ہو۔ عمران خان کے حق میں قصیدے پڑھنا یا سارا وقت نکتہ چینی کرنا صحافت نہیں دلالت ہے۔ بہت عرصہ بعد کسی صحافی کی طرف سے اتنا بیلنسڈ کالم پڑھنے کو ملا۔ کاش پاکستان کے دیگر صحافی بھی اس سے سبق سیکھیں
بسا اوقات یہ غیر جانبداری نہیں بلکہ سب کو خوش رکھنے والا معاملہ ہوتا ہے، اور عموماً صحافیوں کی جانب سے ایسا دیکھنے میں آ جاتا ہے۔
وڑائچ صاحب کا صحافت میں اپنا ایک مقام ہے۔
میرا کمنٹ تو اس حوالے سے تھا کہ اب تک ان کا جھکاؤ ن لیگ کی طرف تھا تو وہ لفافی شمار ہوتے تھے، اب شاید سٹیٹس تبدیل ہو جائے گا۔
اور آپ کے اس کمنٹ سے میرے خیال کو تقویت ملی۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
میرا کمنٹ تو اس حوالے سے تھا کہ اب تک ان کا جھکاؤ ن لیگ کی طرف تھا تو وہ لفافی شمار ہوتے تھے، اب شاید سٹیٹس تبدیل ہو جائے گا۔
ن لیگ کی طرف جھکاؤ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ جب صحافی کسی ایک لیڈر یا جماعت کی حمایت میں یکطرفہ گردان شروع کر دیں تو پھر وہ صحافی سے لفافی بن جاتے ہیں۔ صابر شاکر، طلعت حسین، سلیم صافی، جاوید چوہدری جیسے سینیر صحافی انہی حرکات کی وجہ سے عوام میں پہلے ہی کافی بدنام ہو چکے ہیں۔ سہیل وڑائچ بھی اسی کیٹیگری میں جانے والے تھے کہ انہوں نے اپنے کالموں و تجزیوں میں بیلنس پیدا کرکے غیرجانبدار صحافت کا حق ادا کر دیا ہے۔
 
ن لیگ کی طرف جھکاؤ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ جب صحافی کسی ایک لیڈر یا جماعت کی حمایت میں یکطرفہ گردان شروع کر دیں تو پھر وہ صحافی سے لفافی بن جاتے ہیں۔ صابر شاکر، طلعت حسین، سلیم صافی، جاوید چوہدری جیسے سینیر صحافی انہی حرکات کی وجہ سے عوام میں پہلے ہی کافی بدنام ہو چکے ہیں۔ سہیل وڑائچ بھی اسی کیٹیگری میں جانے والے تھے کہ انہوں نے اپنے کالموں و تجزیوں میں بیلنس پیدا کرکے غیرجانبدار صحافت کا حق ادا کر دیا ہے۔


ٹویٹر پر اس کالم کی ٹویٹ پر تبصرے پڑھئے اور جانیے کہ غیر جانبدار صحافت کا حق کیسے ادا کیا جاتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ٹویٹر پر اس کالم کی ٹویٹ پر تبصرے پڑھئے اور جانیے کہ غیر جانبدار صحافت کا حق کیسے ادا کیا جاتا ہے۔
وہاں آپ کی پارٹی کے لوگ ان کو ٹرول کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے اتنا عرصہ ایک ہی لیڈر اور جماعت کی چاپلوسی کی ہے۔ اب بیلنسڈ تجزیہ پیش کیا ہے تو سب کی چیخیں نکل گئی ہیں
 
وہاں آپ کی پارٹی کے لوگ ان کو ٹرول کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے اتنا عرصہ ایک ہی لیڈر اور جماعت کی چاپلوسی کی ہے۔ اب بیلنسڈ تجزیہ پیش کیا ہے تو سب کی چیخیں نکل گئی ہیں
انٹرنیٹ ٹرول اچھا کر رہے ہیں۔ ویسےاصل ٹرول تو آپ کے علاقے میں نہیں ہوتے !!
 

جاسم محمد

محفلین
انٹرنیٹ ٹرول اچھا کر رہے ہیں۔ ویسےاصل ٹرول تو آپ کے علاقے میں نہیں ہوتے !!
معلوم نہیں آپ کی جماعت کے حامیوں کو اس کالم سے ایسی کیا تکلیف ہے۔ حالانکہ اس میں ان کے لیڈران کی پوری ترجمانی کی گئی ہے:
سرحدی دباؤ اور معاشی بحران کے اس دور میں سیاسی اتحاد کی ضرورت تھی مگر عمران خان کے احتساب نے سیاسی قوتوں میں نفاق اور کشیدگی پیدا کی ہے۔
ن لیگ مقتدر حلقوں سے یہی چاہتی ہے نا کہ تحریک انصاف بیشک اقتدار میں رہے لیکن بس عمران خان مائنس ہو جائے۔ یہی بات سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں بیان کر دی ہے۔
 
Top