عمار ضیاء خاں کی شاعری

تمام ساتھیوں کو دل کی گہرائیوں سے آداب عرض ہے۔
میں نے شاعری کرنے کا آغاز بہت کم عمری سے کیا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا رہا، کانٹ چھانٹ ہوتی رہی۔ کچھ حصہ دیوان سے خارج ہوا، کچھ میں ترمیم ہوئی۔
یہاں میں اپنی منتخب شاعری سے آپ حضرات کے ذوق پر بار بننے کی پوری کوشش کروں گا۔ :wink: امید ہے کہ ناگوار گزری تو درگزر فرمائیں گے۔
آپ کی آراء کا منتظر
 
عجیب رنگ یہ والا حضور دیکھتا ہوں

عجیب رنگ یہ والا حضور، دیکھتا ہوں
جھلک رہا ہے جو رخ سے غرور، دیکھتا ہوں

دبائے دانت میں انگلی، کھڑا ہوں میں حیراں
سماگیا ہے جو تجھ میں فتور، دیکھتا ہوں

تمام شہر تجھے آنکھ بھر کے دیکھتا ہے
تمام شہر کو میں گھور گھور دیکھتا ہوں

بھرے جہان میں عزت مِری اچھالی ہے
ملا ہے آپ کو کتنا سرور دیکھتا ہوں

وہ مجھ سے لاکھ بھی چُھپتا رہے مگر عمار!
اسے میں ایک جھلک تو ضرور دیکھتا ہوں
 
عجیب کچھ بھی نہ تھا

عجیب کچھ بھی نہ تھا، پھر بھی کچھ عجیب ہی تھا
وہ مجھ سے دور تھا لیکن مِرے قریب ہی تھا

خبر انوکھی نہیں یہ کہ میں مرا لیکن
انوکھا یہ ہے کہ قاتل مِرا طبیب ہی تھا

مجھے قبول کہ غلطی نہ تھی امیر کی کچھ
کچل دیا جسے گاڑی نے وہ غریب ہی تھا

جسے میں اپنا سمجھتا تھا غم دیا اس نے
سکون جس سے ملا وہ مرا رقیب ہی تھا

نہیں ہے غم کہ اسے پاکے کھودیا عمار!
کہ اس سے مل کے بچھڑنا مِرا نصیب ہی تھا
 
میں نے سیکھا ہے یہ ہنر عمار

خوب روتے ہوئے مچل جانا
ہم نے سیکھا ہے یوں بہل جانا

مشکلوں سے بہت ملی منزل
ساتھیوں نے اسے سہل جانا

بے وفا! تجھ کو یہ اجازت ہے
اب کے موسم میں تُو بدل جانا

کوئی پروا نہیں، وہ حاسد ہے
اس نے سیکھا ہے صرف جل جانا

جو مجھے چھوڑ کر نہیں لوٹا
اس کو اپنا گزشتہ کل جانا

مجھ کو آتا ہے یہ ہنر عمار
جو ہو ماحول اس میں ڈھل جانا
 
مٹے جب نقش

مٹے جب نقش، باقی رہ گئی ہلکی سی پرچھائی
چلو آئی تمہیں آخر ہماری یاد تو آئی

تمہیں یہ زعم تھا دنیا سے کٹ کر رہ سکو گے تم
محل سپنوں کا جب ٹوٹا، نئی دنیا نظر آئی

اگر ظاہر نہ ہوں باتیں دلوں کی، ہے یہی بہتر
کسی کے شوقِ شہرت سے کسی کو خوفِ رسوائی

مجھے ایسا لگا کہ دل کی دھڑکن رکنے والی ہے
پری وش نے گھڑی بھر چہرے سے چادر جو سرکائی

جسے ڈھونڈا ملا وہ سب، مگر عمار اک حسرت
محبت ہے کہ دنیا میں کہیں ہم نے نہیں پائی
 
Top