علی پور کا ایلی(666-695)

قیصرانی

لائبریرین
صاحب آپ کا ہمارے گھر جانا یا کسی قسم کا کوئی رابطہ پیدا کرنا ہمارے لیے تکلیف کا باعث ہوگا اور اب جب کہ ہمارے دوستانہ مراسم ہو چکے ہیں اگر آپ نے چوری چھپے کوئی بات کی یا کوئی بات مجھ سے چھپائی تو مجھے دکھ ہوگا"۔
"آپ شاید یہ سوچ رہے ہیں کہ یہاں آپ کو کیوں لایا گیا ہے۔ مجھے دفعتاً خیال آیا کہ اس حالت میں آپ کو اپنے لاج میں نہیں جانا چاہیئے۔ ابھی ٹھیک ہو جائیں گے۔ آپ لیجئے سگرٹ پیجئے۔ اوہ میں ہمیشہ بھول جاتا ہوں کہ آپ سگرٹ نہیں پیتے۔ لیکن اس میں میرا قصور نہیں کیونکہ اس عمر میں کم و بیش لوگ سگرٹ پینا شروع کر دیتے ہیں۔"
سائیکل پر ہوا کھانے کے بعد ایلی کی حالت اور بھی خراب ہو چکی تھی۔ اس کے تمام جسم میں شعلے بھڑک رہے تھے ۔ منہ سخت کڑوا ہو رہا تھا طبیعت مالش کر رہی تھی۔
"آپ کچھ دیر کے لئے یہاں آرام کیجئے۔ لیٹ جائیے۔" لیکن ایلی اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"میں ابھی آیا" کہہ کر منصر چلا گیا اور ایلی کمرے میں اکیلا رہ گیا۔
پھر دفعتاً اس کی طبیعت گھبرائی وہ باہر بھاگا۔ سامنے اس زینے کا دروازہ تھا جہاں وہ پہلے کئی ایک بار آچکا تھا لپک کر کنڈی کھولی اور اندر پہنچتے ہی شدت سے قے کرنا شروع کر دیا۔
قے کے بعد اس کی طبعیت ہلکی ہو گئی۔ اس نے اس کمرے کی طرف حسرت بھری نظر ڈالی۔ فرش پر ابھی تک سگرٹوں کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ سیڑھیوں پر ایک ماچس پڑی تھی۔ اسے ان ملاقاتوں کا خیال آگیا۔ یہاں وہ بیٹھ جایا کرتا تھا اور کوئی کہا کرتی تھی "آپ بیٹھ کیوں گئے۔ا ٹھئے نا۔"
"آئیے نا۔" اس کی پشت پر منصر کھڑا تھا۔ "یہاں کھڑے کیا کر رہے ہیں۔ آپ۔"
اسی روز باتوں باتوں میں منصر نے پردے کا موضوع چھیڑ دیا۔ "پردے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔"
"میں سمجھا نہیں۔" ایلی نے کہا۔ "میرا مطلب ہے۔" منصر نے کہا "جہاں تک اس گھرانے کا تعلق ہے آپ کی حیثیت ایک اجنبی کی ہے ایک بیگانے کی۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ آپ سے خصوصی سلوک کیا جائے۔"
ایلی کو منصر کی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔
منصر کہنے لگا۔ "اگر ہمارے لوگ آپ نے سامنے آئیں تو تخصیص کیوں کی جائے کیوں نہ وہ منظر عام پر آئیں سب کے سامنے۔"
"میں نہیں سمجھا۔" ایلی نے جواب دیا۔
"دقت تو یہ ہے کہ میں خود بھی نہیں سمجھ رہا۔" منصر چلایا۔ "اگرچہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ مسئلہ اس قدر ٹیڑھا ہے کہ۔۔۔ اور میں نے آج تک اس مسئلے پر غور نہیں کیا تھا۔ لیکن اب۔۔۔ "وہ خاموش ہو گیا۔ اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ کسی کشمکش میں گرفتار ہے۔
"جی" ایلی نے کہا۔
"جی کیا۔" وہ بولا۔ "کیا سمجھے آپ۔"
"کچھ بھی نہیں۔" ایلی نے کہا۔ منصر نے ایک قہقہہ لگایا۔
"تعجب کی بات ہے۔" وہ بولا۔ "ہم دونوں اس قدر قریب ہیں بہت قریب اتنے قریب کہ آپ کو اندازہ نہیں ہوسکتا اور پھر ہم دونوں بیک وقت اس قدر بیگانہ ہیں اس قدر دور کہ۔۔۔" منصر رک گیا۔ "سگرٹ پیجئے۔ اوہ۔۔۔ سگرٹ تو آپ پیتے ہی نہیں۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں۔۔۔" وہ ہنسنے لگا۔ "ہاں۔۔۔ آپ نے واستووسکی کا ناول برادرز کیراموزوز پڑھا ہے؟"
"جی نہیں۔" ایلی نے کہا۔ " میں نے صرف ایڈیٹ اور کرائم اینڈ پنشمنٹ پڑھے ہیں۔"
"ضرور پڑھئے۔" وہ بولا۔۔۔۔ "اسے پڑھے بغیر آپ ہم کو نہیں سمجھ پائیں گے۔"
"آپ کی کتنی ہمشیریں ہیں؟" منصور نے دفعتاً بات بدلی۔
"ایک" ایلی نے کہا۔
"بڑی ہیں یا چھوٹی۔"
"بڑی۔"
"تو آپ نہیں سمجھ سکتے کہ چھوٹی بہن کا مفہوم کیا ہے۔ "منصر نے جوش اور جذبے سے کہا۔
ایلی نے سوچا کہ شاید منصر نشے میں باتیں کیے جا رہا ہے۔ لیکن خصوصی طور پر آج کیوں؟وہ یہ نہ سمجھ سکا "مجھے اپنی ہمشیرگان سے بے حد محبت ہے۔" منصر بولا۔ " آپ اندازہ نہیں کر سکتے ہیں۔ بہرحال پردے کا میں تو قائل نہیں ہوں میرا مطلب رسمی پردے سے ہے۔ پردے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔" اس نے ایلی سے پوچھا۔
"میں تو رسمی پردے کو فضول سمجھتا ہوں۔"
"ہاں۔" دفعتاً منصر نے پھر بات کا رخ بدلا۔ "آپ کو ٹینس سے دلچسپی ہے؟"
"جی ہاں کچھ کچھ ہوسٹل میں کھیلا کرتا تھا۔"
"آپ کو معلوم ہے کہ پنجاب ٹینس چیمپئن شپ کا فائنل ہو رہا ہے۔"
"جی نہیں۔"
"تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کل شام کے چار بجے لارنس باغ کی گراؤنڈ میں یہ میچ ہوگا اور آپ ہمارے ساتھ وہاں جا رہے ہیں۔ آپ چار بجے از خود پہنچ جائیے گا۔ وہاں ملاقات ہوگی۔"
منصر کی اس روز کی باتیں ایلی کو قطعی طور پر سمجھ میں نہ آئیں۔ نہ جانے وہ رنگیلا راجہ کیا کچھ کہہ رہا تھا شاید گپ ہانک رہا ہو۔ لیکن ان کہی بات کرنے میں منصر کو کمال حاصل تھا اور اس حقیقت سے ایلی واقف تھا۔ پھر بھی اس روز کی باتیں تو نہ کہی تھیں نہ ان کہی۔
منظر عام
اگلے روز جب ایلی ٹینس کے میدان میں پہنچا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی منصر کے ہمراہ سادی باجی اور ایک معمر خاتون تھیں وہ تینوں بے نقاب تھیں۔ ایلی انہیں دیکھ کر گھبرا گیا۔
"آئیے آئیے" منصر چلایا۔ ؔیہ ہیں الیاس صاحب" اس نے خاتون کو مخاطب کرکے کہا "اور آپ والدہ صاحبہ ہیں۔ اور انہیں" اس نے سادی اور باجی کی طرف دیکھ کر کہا "انہیں تو آپ جانتے ہیں۔" ایلی نے جھک کر والدہ کو سلام کیا۔
ایلی نے شدید خواہش کے باوجود سادی اور باجی کی طرف نہ دیکھا اس میں ہمت نہ پڑی۔ اسے منصر کے الفاظ یاد آرہے تھے۔ اس نے کہا تھا نا کہ پھر تخصیص کیوں کی جائے۔ منصر نے سادی اور باجی کو منظر عام پر لانے سے گریز نہ کیا تھا۔ ایلی نے حیرت بھرے احترام سے منصر کی طرف دیکھا۔ کس قدر پروقار تھا وہ چھوٹا سا خوبصورت آدمی۔
کھیل کے دوران میں ایلی نے دو ایک بار چوری چوری سادی کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ کھیل رہی تھی جیسے وہ سادی نہیں بلکہ سکندر ہو جو دریائے جہلم کے کنارے کھڑا ہو۔
کھیل کے وقفے میں والدہ کے اشارے پر منصر نے بیرے کو آواز دی لیکن اس کی آواز کسی نے نہ سنی اور وہ اٹھ کر چلا گیا۔
والدہ نے مسکرا کر ایلی کی طرف دیکھا۔
"آپ کے مزاج اچھے ہیں۔" ایلی نے کچھ کہنے کے لئے کہا۔
وہ مسکرائیں اور پھر کہنے لگیں۔ "کبھی مجھ سے ملو نا، مجھے تم سے باتیں کرنا ہے۔"
"جی" ایلی نے جواب دیا۔
"گھر پرآئیے۔ کوئی بارہ بجے کے قریب۔" والدہ نے کہا۔
"بہت اچھا۔" ایلی نے جھکی جھکی نگاہوں سے جواب دیا۔
"گھڑی دے دیجئے انہیں"سادی چمک کر بولی۔
"جی۔" ایلی نے سادی کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ "کہیں دو بجے نہ آجائیں۔" وہ بولی۔
"ضرور آنا بیٹا" والدہ نے یوں جواب دیا جیسے اس کی بات سنی ہی نہ ہو۔
"جی۔۔۔"
اور۔۔۔
"میں انتظار کروں گی۔" والدہ بولیں اور۔۔۔ پھر منصر کی آمد پر وہ دفعتاً چپ ہو گئیں۔
منصر آکر کرسی پر بیٹھ گیا۔
والدہ صاحبہ کا وہ۔۔۔"اور۔۔۔" ایلی کے سامنے آکھڑا ہوا اور اس پر مسلط ہو گیا۔ اس کے عقب میں گہری پرمعنی خاموشی تھی۔ مفہوم سے لبریز خاموشی کیا وہ اشارہ اور کنایہ کی عظمت سے اس حد تک واقف تھے۔ ایلی حیرت سے اس معزز خاتون کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کا سن پچاس کے لگ بھگ ہوگا اس کے چہرے پر وقار کی نسبت محبت کے نقوش زیادہ پھیلے ہوئے تھے۔ اس کی مسکراہٹ میں ایک حسرت زدہ مٹھاس تھی۔
اگلے روز دوپہرکے وقت جب ایلی سفید منزل میں داخل ہوا تو وہ "اور" وضاحت سے اس کے روبرو اگیا۔ والدہ پہلے ہی سے اوپر جنگلے میں اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ ایلی کو دیکھتے ہی والدہ نے اسے رکنے کا اشارہ کیا۔ کچھ دیر تک وہ دستک دیئے بغیر دروازے پر کھڑآ رہا پھر دروازہ کھلا۔ جب وہ اندر داخل ہوا تو دروازہ بند کرلیا گیا۔ نچلی منزل ویران پڑی تھی۔
رسمی باتوں کے بعد والدہ نے کہا۔ "مجھے اپنی بچیوں سے بڑی محبت ہے۔ بڑی محبت۔" اس کی آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں۔ کیا کروں مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اور چھوٹی تو بڑی ہی لاڈلی ہے۔ بڑی ہی۔" اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
"تم بڑے اچھے ہو۔" دفعتاً والدہ نے موضوع بدلا "تم سے مل کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔۔۔"
"مجھے تم سے اتنی ہی محبت ہے جتنی" وہ رک گئی۔
"آپ کی بڑی نوازش ہے۔" ایلی نے کہا۔
"مجھے باتیں نہیں کرنا آتیں بیٹا۔" وہ بولی۔
"جی" ایلی نے اس رسمی جملے پر شرمندگی سی محسوس کی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ اس معمر خاتون کو یوں آغوش میں لے لے جیسے وہ ایک ننھی سی بچی ہو مگر اس کی ہمت نہ پڑی ابھی وہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ کمرے کا دروازہ آہستہ سے بجا۔
"آؤ نا ادھر اس کمرے میں آجاؤ۔ اس بغلی کمرے میں آئیے اگر امان کو پتہ چلا کہ تم اس گھر میں آئے ہو۔ توقیامت آجائے گی۔"
"امان؟" ایلی نے دہرایا۔
"ہاں۔ وہ ہمارا عزیز ہے اللہ رکھے بڑی کا منگیتر ہے۔ چھوٹی کی منگنی ابھی نہیں ہوئی امان بڑا جوشیلا ہے۔ پتہ نہیں کیا کردے۔۔۔ آؤ ادھر آجاؤ۔"
جب وہ بغلی دروازے میں داخل ہوا تو قریب ہی ہنسی کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ دونوں سادی اور باجی بیٹھی کانا پھوسی کر رہی تھیں۔
"بیٹھ جاؤ بیٹا۔ اب تم سے کیا پردہ ہے۔ بیٹھ جاؤ"
ایلی سر جھکا کر ادب سے بیٹھ گیا۔
سادی نے باجی کے کان میں کہا۔ "دوپٹہ لا دو انہیں باجی۔" اور اس نے جان بوجھ کر ایسی آواز میں کہا کہ ایلی سن لے۔
ایلی خاموش بیٹھارہا اور والدہ سے رسمی باتیں کرنے کی کوشش میں لگا رہا۔
"دیکھو تو۔" سادی پھر بولی "جیسے منہ میں زبان نہ ہو۔"
"اب میں کیا کہوں۔" ایلی نے والدہ کو مخاطب کرکے کہا۔
"کیا کہا تم نے میں سمجھی نہیں۔" وہ بولیں۔
"میں نے عرض کیا کہ۔۔۔" ایلی رک گیا۔
"جملہ مکمل کر دو باجی۔" سادی پھر بولی۔
"جملہ نہیں" وہ بولا۔ "۔۔۔۔کہانی۔"
"وہ کیا میں تھوڑا ہی کروں گی۔" سادی قہقہہ مار کر ہنسی۔
"نہ جانے تم کیا کہہ رہے ہو۔" والدہ بولیں۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ بیٹھیں "میں ذرا دیکھوں تو امان تو نہیں آیا۔" یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئی۔
"یہ کس مشکل میں ڈال دیا مجھے نہ جی۔" وہ چمک کر بولا۔
"اٹیچی نہ اٹھانے کی سزا بھی تو ملنی چاہیے باجی انہوں نے ضد کرکے سب کچھ کھو دیا۔"
"کھویا تو نہیں پا لیا ہے۔" ایلی نے کہا۔
"اونہوں پا لیا ہے۔" وہ بولی۔ "بڑی ہمت والے تو دیکھو یہ تو مابدولت کی محنت کا نتیجہ ہے۔"
"جی" ایلی نے کہا "مابدولت تو غش کھا کر گرنا جانتے ہیں۔"
وہ قہقہہ مار کر ہنسی "غش نہ کھاتے تو بات نہ بنتی۔"
"میں نے سنا تھا تم بیمار تھیں سادی۔"
"اپنی تو وہی بات ہے کہ فراق یار میں گھل گھل کے بن گئے ہاتھی۔" وہ ہنسے لگی۔
"جھوٹ۔" باجی نے کہا۔
"خاموش باجی۔" سادی اٹھ بیٹھی۔
"دراصل۔۔۔" باجی نے بات کرنے کی کوشش کی۔
"ایک لفظ منہ سے نکالنے کی اجازت نہیں۔" سادی نے کہا "ور کل" وہ ایلی سے مخاطب ہوئی۔
"یوں ٹینس بال پر نگاہیں جما کر بیٹھے رہے جیسے حافظ حلوے پر جمائے رہتے ہیں۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک گھنٹہ برباد کر دیا۔ کیوں جی۔ ہم سے بات بھی نہ کی۔"
"تم سے باتیں کرنے کا مزا تو چکھ لیا۔"
"ابھی سے گھبرا گئے۔ اور ہم تو حضور سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں وہ کیا ہوں گی۔" سادی چمک کر بولی۔
"ایک کال کلوٹے سے۔۔۔" ایلی رک گیا۔
"خاموش۔۔۔" سادی نے ایلی کو ڈانٹا۔ "ہائے باجی یہ تو ساری عمر معاف نہ کریں گے مجھے" وہ ہنسنے لگی۔
"اور وہ سنہری بال خوامخواہ پٹ گیا بیچارا۔"
"ہئے واقعی۔" باجی بولی۔
"دونوں طرف پٹ گیا۔" ایلی نے کہا۔
"کچھ کہتے تھے وہ۔" سادی نے پوچھا۔
"کہتا تھا یار یہ لڑکیاں بھی کیا ہوتی ہیں کبھی کچھ کبھی کچھ سمجھ میں ہیں نہیں آتین۔"
"آپ انہیں ساتھ کیوں لائے تھے جی۔ ساتھ لا کر پٹوا دیا۔" سادی نے پوچھا۔
"خود ضد کرکے آیا تھا۔" ایلی نے کہا۔
"مجھے حیرانی ہے۔" سادی ہنسی "انہوں نے انہیں کیوں پکڑ لیا۔ آپ کوکیوں نہ پکڑا۔"
"اس میں حیرانی کی کیا بات ہے۔" ایلی بولا۔
"کیوں ۔" باجی نے پوچھا۔
سنہری رنگ والی گوری کے ساتھ گلفام ہی ہونا چاہئے تھا نا۔"
"بس اب ان سے بات بھی نہ کرو باجی۔" سادی غصے میں اٹھ بیٹھی۔
"مجھے دیر ہوگئی۔" والدہ نے داخل ہوتے ہوئے کہا "لیکن امان نہیں ہے چلو فکر تو دور ہوا۔"
کیراموزوز
اس کے بعد ایلی کے شب و روز میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگیا۔ دوسرے یا تیسرے دن اسے گھر بلایا جاتا۔و ہ چاروں چھوٹے کمرے میں بیٹھ جاتے سادی زیرلب بات چھیڑتی۔ ایلی والدہ سے باتیں کرتا لیکن روئے سخن سادی کی طرف ہوتا۔ وہ دونوں ہنستی۔ چھیڑتیں اور ایلی کے جواب پر والدہ حیرانی سے کہتی "میں نہیں سمجھی۔"
پھر والدہ امان کو دیکھنے کے لئے باہر چلی جاتیں اور وہ اکیلے رہ جاتے اور پھر وہ بچوں کی طرح لڑتے جھگڑتے حتیٰ کہ ہاتھا پائی کی نوبت آجاتی اور والدہ واپس آجاتی اور ان کا وہ شور شرابا پھر سے دب کر اشارات کی شکل اختیار کر لیتا۔
شام کو ایلی منصر کے دفتر جا پہنچتا اور پھر لاہور کی سڑکوں پر شاہ کی سواری نکلتی اور لوگ بصد ادب و احترام دو رویہ کھڑے ہو کر کورنش بجا لاتے اور پھر ہوٹل میں وہ اس عظیم شخصیت کے روبرو ادب و احترام کے جذبات لیے بیٹھ جاتا اور حیرت سے اس کی طرف دیکھے جاتا۔ اسے منصر سے محبت ہو چکی تھی۔ والہانہ محبت۔
پھر ایک روز جب وہ چاروں چھوٹے کمرے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے تو دروازے پر کسی نے لٹھ دے ماری۔
"دروازہ کھولو۔" کوئی راکشش چنگھاڑا۔
والدہ صاحبہ نے آواز سنی چہرا زرد پڑ گیا۔ "ہے" وہ ہاتھ ملنے لگیں "اب کیا ہوگا۔ امان کو پتہ چل گیا۔"
"کون ہے۔" اماں نے پوچھا۔
"میں ہوں اماں" وہ چیخنے لگا "دروازہ کھولو۔"
"اے ہے۔" اماں بولیں۔"اس وقت کیا ہے ہم کمرے میں بیٹھی باتیں کر رہی ہیں۔"
"مجھے معلوم ہے۔" وہ چلایا "کہ کمرے میں کیا ہو رہا ہے۔ میں جانتا ہوں۔ دروازہ کھولو۔" اس نے دروازے پر مکے مارنے شروع کر دئیے۔ کھول دو ورنہ میں اسے توڑ دوں گا۔"
"کھولتی ہوں" اماں بولیں۔"ذرا ٹھہر تو ۔"
"ابھی کھولو ابھی۔ میں اس کی گردن مروڑ دوں گا۔" وہ چلایا۔
"کس کی گردن مروڑو گے"ماں نے ہنس کر کہا۔
"مجھے معلوم ہے کس کی گردن مروڑنا ہے مجھے" وہ غرایا۔
"ان لڑکیوں نے بگاڑا کیا ہے تمہارا۔"
"بعد میں انہیں بھی دیکھ لوں گا میں۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
"ایسی دھمکی ہے تو نہیں کھولتے ہم۔ توڑ دو دروازے کو" ماں بولی۔
"اچھا" اس نے دانت پیسے "کہاں ہے میری بندوق۔" وہ دیوانہ وار سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
"یا اللہ یا اللہ۔۔۔" اماں گھبرا کر دعائیں مانگنے لگی۔
"میں جانتا ہوں" ایلی نے کہا۔
"وہ گولی چلا دے گا چلا دے گا" اماں نے کہا۔
"دیکھوں گی میں کیسے چلائیں گے" سادی جوش میں آگئی اس نے ایلی کا ہاتھ تھام لیا۔
"مجھے جانے دو سادی۔" ایلی نے کہا۔
"نہیں میں ساتھ جاؤں گی۔ میں آپ کو گھر چھوڑ کر آؤں گی۔" غصے میں سادی کی آنکھوں سے انگارے جھڑ رہے تھے۔
"سادی۔" ماں کی آنکھیں گویا ابل کر باہر نکل آئیں۔
"پہلے مجھ گولی مارنا پڑے گی انہیں! چلئے۔" وہ ایلی سے بولی۔
"سادی یہ تمہاری عزت کا سوال ہے مجھے جانے دو۔" ایلی نے کہا۔
اماں سادی کے پاؤں پڑ گئی۔
ایلی بھاگا خوش قسمتی سے صدر دروازے کا ایک پٹ کھلا تھا۔ دروازے میں پہنچ کر وہ رک گیا۔ دیوار کے ساتھ لگ گیا تاکہ اوپر سے اسے کوئی دیکھ نہ سکے کافی دیر وہ کھڑا رہا۔ پھر جب شور سے معلوم ہوا کہ امان زینہ اتر رہا ہے تو ایلی چپکے سے پڑوس کے مکان کی ڈیوڑھی میں داخل ہو کر کونے میں دبک گیا۔ پھر امان گلی میں چلا رہا تھا۔ "کہاں ہے وہ کہاں ہے۔"
ایک اونچے لمبے تنومند مرد کو ہاتھ میں بندوق لیے دیکھ کر گلی کے تمام لوگ کھڑکیوں میں آگئے۔ وہ اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
"کہاں ہے وہ کہاں ہے وہ۔" امان گلی میں یوں چکر کاٹ رہا تھا جیسے شیر پنجرے میں چکر کاٹتا ہے۔ پھر منصر آگیا اور امان کو پکڑ کر اندر لے گیا۔
عین اسی وقت کوئی اس ڈیوڑھی میں داخل ہوا جہاں ایلی چھپا ہوا تھا۔ بیشتر اس کے کہ وہ ایلی کو دیکھتا ایلی کونے سے نکل آیا اور معصومانہ انداز میں پوچھنے لگا "جی یہ مولوی محمد علی کا گھ رہے۔"
"محمد علی کون محمد علی۔" نووارد نے مشکوک نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
"جو اسلامیہ کالج میں پروفیسر ہیں۔" اس نے کہا۔
"نہیں" نووارد بولا۔ "یہ ان کا مکان نہیں۔"
تکلیف معاف کہہ کر وہ باہر نکلا اور گلی میں اس سمت کو چل پڑا جو ناؤ گھر سے بر عکس جاتی تھی لارنس باغ میں پہنچ کر ایک پلاٹ میں وہ ڈھیر ہو کر گر پڑا۔
ایلی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ آخر امان کون تھا۔ اس سے ان کی والدہ کیوں خائف تھی وہ کس کی گردن مروڑنے کی بات کر رہا تھا۔ پھر وہ چیخ کیوں رہا تھا۔ بھلا بندوق کی کیا ضرورت تھی اور یوں گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانے اور محلے والوں کو اکٹھا کرنے میں کیا مصلحت تھی۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اس کے روبرو منصر کھڑا مسکرا رہا تھا "الیاس صاحب آپ نے واستو وسکی کی برادرز کیراموزووز نہیں پڑھی۔۔۔(Brothers Karamozoves) ضرور پڑھئے۔
ایک اور
۔۔۔شام کے قریب نیم چھتی میں لیٹے ہوئے ایلی کو یاد آگیا کہ اسے منصر سے ملنے جانا ہے۔ چونکہ خصوصی طور پر منصر نے طے کر رکھا تھا۔ کہ اس روز وہ دفتر میں ملیں گے۔ لیکن ہمت نہ پڑی۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھنا محال تھا۔ چلو نہ سہی اس نے سوچا کوئی بہانہ بنا دوں گا۔ اور پھر وہ لیٹ گیا۔
دفعتاً اسے پھر خیال آیا۔ نہ گیا تو منصر سمجھے گا کہ کوئی خصوصی بات ہے۔ اور دوپہرکا واقعہ اس کی نظر میں حقیقت کا روپ اختیار کر لے گا اور وہ سمجھے گا کہ واقعی ایلی سفید منزل گیا تھا۔
"نہیں نہیں" وہ اٹھ بیٹھا۔ "یہ نہیں ہوسکتا۔ نہیں ہو سکتا۔ منصر پر یہ ظاہر نہ ہونے پائے کہ میں وہاں جاتا ہوں۔"
شام کے وقت جب وہ منصر کے دفتر پہنچا تو منصر کے طبعی اخلاق کے باوجود اس کے انداز سے تلخی کا اظہار ہو رہا تھا۔
"میں فارغ ہو لوں تو ابھی چلتے ہیں۔" منصر نے حسب معمول کہا۔
"آج پریشان معلوم ہوتا ہے۔ شاید دوپہر کے واقعہ کے متعلق کبیدہ خاطر ہے۔ ضرور مجھ سے استفسار ہوگا۔ نہیں میں کبھی تسلیم نہیں کروں گا۔" ایلی سوچ رہا تھا۔ "اس میں اماں کی عزت کا سوال ہے۔ اماں کتنی قابل تعظیم ہے۔ لیکن امان نے اماں کا بھی خیال نہیں کیا نہ جانے کون ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
وہ امان" پھر وہ منصر کی طرف دیکھنے لگا۔ منصر اپنے کام میں مصروف تھا۔ وہی حسین اور پر ذہانت چہرا۔ وہی شان استغنٰے وہی وقار۔ لیکن ان سب پر پژمردگی کا پردہ پڑا ہوا تھا۔ اس کی مسکراہٹ میں جاذبیت کے باوجود شکستگی کی جھلک تھی جیسے پیمانے میں بال آگیا ہو۔
ایلی نے شدت سے محسوس کیا کہ منصر دکھی ہے۔ اگرچہ وہ اپنے دکھ کو چھپانے کی کوشش میں شدت سے مصروف تھا۔
"پریشان سے دکھتے ہیں آپ" اس نےمنصر سے کہا۔
وہ چونکا "ہاں" اس نے ہنسنے کی کوشش کی"آج ایسا کام آن پڑا ہے کہ۔۔۔"
"تو دفتری پریشانی ہے۔" ایلی نے کہا۔
"اور کیا ہو سکتا ہے۔" وہ بولا۔
لیکن ایلی نے محسوس کیا کہ وہ بات ٹال رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے احساس وقار پر ضرب پڑی ہے ورنہ دفتری معاملات کو اتنی اہمیت کون دیتا ہے اور پھر منصر۔۔۔ ضرور یہ دوپہر کے واقعہ کا اثر ہے۔ ایلی نے محسوس کیا کہ تمام تر ذمہ داری ایلی پر عائد ہوتی ہے۔ وہی ان کی پریشانی اور دکھ کا باعث ہے۔ احساس گناہ سے اس کی نس نس بھیگ گئی۔
جب وہ ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے تو دفعتاً منصر نے کہا کیا اتفاق سے آج آپ ہماری گلی سے تو نہیں گزرے تھے۔"
ایلی چونکا۔ اور سوچنے لگا۔ منصر کا سوال اس کی خوش اخلاقی پر دلیل تھا۔
"میرا مطلب ہے ۔" منصر نے کہا "شاید آپ ادھر سے گزرے ہوں۔"
ایلی کا جی چاہتا تھا کہ چلا چلا کر کہے نہیں نہیں یہ بہتان ہے دروغ بیانی ہے۔ لیکن منصر کے دکھ بھرے چہرے کو دیکھ کر نہ جانے اسے کیا ہوا اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"تو آپ ادھر گئے تھے؟"
"جی۔"
"گھر گئے تے۔"
"جی ہاں۔"
وہ سوچ میں پڑ گیا۔
"خود سے گئے تھے" اس نے سر اٹھا کر پوچھا۔
"جی ہاں۔"
"یہ کیسے ہو سکتاہے۔" وہ بولا "آپ مذاق کر رہے ہیں یا۔۔۔"
"خود سے گیا تھا۔"
"بیرا" وہ چلایا "ایک بڑا۔۔۔ بیرا۔۔۔ جلدی ایک بڑا۔"
تعارف
اس روز واپسی پر منصر ایلی کو اپنے گھر لے گیا۔ اسے کمرے میں بٹھا کر اس نے آوازیں دینا شروع کر دیا۔ امان صاحب ہوں تو انہیں ذرا نیچے بھیجئے ابھی۔"
امان ایک اونچا لمبا جاٹ نما شخص تھا۔ انداز میں وہ بات نہیں تھی۔ جو منصر اور سادی میں بدرجہ اتم نظر آتی تھی۔ "آئیے آپ کو اپنے نئے دوست سے ملواؤں۔" منصر نے کہا "یہ ہیں الیاس صاحب۔"
امان چونکا لیکن جلدی اس نے اپنے آپ پر قابو پالیا۔
"آپ میرے عزیز ہیں۔" منصر نے امان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "بھائی ہی سمجھ لیجئے بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہ زمیندار ہیں اور میں مزدور۔"
امان نے کوئی استفسار نہ کیابلکہ چپ چاپ بیٹھ کر ایلی کو بغور اور بے تکلف دیکھنا شروع کر دیا۔ غالباً وہ ایلی کو جانچ رہا تھا۔ ایلی کو یقین نہ آ رہا تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو دوپہر کو شیر کی طرح دھاڑ رہا تھا اور پھر بندوق لے کر اس کے پیچھے بھاگا تھا۔
"امان صاحب کا گاؤں یہاں سے کچھ زیادہ دور نہیں اگر آپ کبھی ان کے ہمراہ گاؤں جائیں تو آپ کو معلوم ہو کہ زمیندار کس شے کا نام ہے۔" منصر ہنسنے لگا۔ "اگر یہ جلال میں ہوں تو میز پر پڑا ہوا گلاس جلترنگ کی طرح بجنے لگتا ہے۔ اور ہاں۔" منصر نے کہا۔" آپ میرے دوسرے بھائیوں سے ملے ہی نہیں۔ ان سے بھی تعارف ہو ہی جائے تو اچھا ہے۔ آج اتفاق سے آپ یہاں آئے ہیں تو ان سے بھی مل لیجئے۔ امان صاحب آپ اوپر جائیں تو انور اور محمد علی کو بھیج دیں شکریہ۔"
امان اٹھ بیٹھا اور جواب دیئے بغیر جلا گیا۔
انور ایک شوخ نوجوان تھا جس کی آنکھیں بے حد جاذب تھیں اس کے خدو خال بہت موزوں تھے۔ ان دنوں وہ کالج میں پڑھتا تھا۔ محمد علی کی آنکھیں دکھنے والی تھیں اور انور کی طرح
 

قیصرانی

لائبریرین
دیکھنے والی نہیں۔ اس کے چہرے پر خوابوں کا دبیز پردہ پڑا تھا۔ اسے دیکھ کر محسوس ہوتا تھا جیسے وہ خوابوں کی بستی سے باہر نکل کر حقائق کی دنیا کو دیکھنے سے گھبراتا ہو۔ وہ وائلن کا ریسا تھا اور اس کے انداز میں برہا کے گیت کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔
"باقی رہا رانا۔" منصر کے متعارف کرانے کے بعد کہ "وہ یہاں نہیں ہے لہٰذا اس وقت اس سے ملاقات کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔"
"آپ شاید سوچ رہے ہیں کہ یہ تعارف کیوں کرائے جا رہے ہیں آپ سے۔ آپ سے یہ الفاظ خود ہی کہہ دوں تو کیا حرج ہے کہ ہم نے آپ کو اپنا لیا ہے الیاس صاحب۔"
"ذرہ نوازی ہے" ایلی نے کہا۔
"نہیں اس میں ذرہ نوازی کی کوئی بات نہیں عام حالات میں شاید آپ کو درخوار اعتنا نہ سمجھا جاتا۔ حالات کا تقاضا ہے کہ آپ کو اپنا لیا جائے اور اگر اپنا لیا جائے یعنی اگر اپنانا ہی ہے تو کیوں نہ فراغ دلی کو کام میں لایا جائے۔" وہ خاموش ہو گیا۔
"والدہ صاحبہ مجھ سے زیادہ سمجھدار ہیں۔" کچھ دیر کے بعد اس نے پھر سے بات شروع کی۔ "اور یہ حقیقت ہے کہ ہم سب ان کے تابع فرمان ہیں۔" وہ ہنسنے لگا۔
"دیکھیے" وہ پھر جوش میں بولا۔ "اس سے یہ اندازہ نہ لگا لیجئےگا کہ یہ ایک وعدہ ہے کسی قسم کا واضح یا مبہم وعدہ اس سلسلے میں کرنے کا میں مجاز نہیں ہوں کیونکہ اس معاملے میں میری کوئی حیثیت نہیں۔ البتہ یہ ہمارے خلوص کا نشان ضرور ہے۔"
"ہم سب مخلصانہ کوشش کریں گے کیونکہ آخری فیصلہ والد صاحب نے کرنا ہے جو اس وقت یہاں نہیں اور جنہیں ابھی تک حالات سے مطلع نہیں کیا گیا۔ نہ جانے انہیں کب مطلع کیا جا سکے گا۔ چونکہ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ یہ بات والد صاحب کی خدمت میں کسی احسن انداز سے پیش کی جائے۔ خیر۔ اب آپ سفید منزل میں آسکتے ہیں لیکن مناسب ہوگا کہ آپ یہاں اس وقت تشریف لایا کریں جب میں یہاں موجود ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس چھوٹی سی تفصیل کو اہمیت دیں گے۔"
اس روز ایلی ناؤ گھر پہنچا تو اس کی خیالات بے حد پریشان تھے۔
راست گو
اس روز کے واقعات کس قدر عجیب تھے۔ سفید منزل کے تمام افراد کس قدر انوکھے اور دلچسپ تھے اور ان کے کرداروں میں کس قدر تنوع تھا۔ خاموش غم زدہ باجی۔ زندگی اور رنگینی سے بھرپور سادی! محبت اور خلوص بھری والدہ رنگ اور وقار سے پر منصر اور سادہ اور پرجوش امان، ذہنی طور پر وہ سب ایک دوسرے سے دور تھے لیکن جذباتی طور پر وہ ایک ہاتھ کی انگلیوں کے مصداق تھے۔
مسلسل دو روز تک ایلی ان بیتے واقعات کو ذہن میں دہراتا رہا۔ گذشتہ چند ایک ہفتوں میں کیا کیا واقعات بیت گئے تھے۔ اسے یقین نہیں پڑتا تھا کہ وہ واقعات اس پر بیتے ہیں اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ ایلی نہ ہو بلکہ کوئی اور ہو۔ وہ اپنی شخصیت کا دورخا پن شدت سے محسوس کرنے لگا تھا۔
تیسرے روز سے ڈاک سے سادی کا خط موصول ہوا جس میں سادی نے اس کی راست گوئی کا مذاق اڑایا تھا۔
لکھا تھا:۔
میرے راست گو! میں بناتی ہوں آپ بگاڑتے ہیں میں چنتی ہوں آپ بکھیرتے ہیں۔۔ میں سیتی رہوں آپ کاٹنے میں مصروف رہئے دیکھئے کہیں آپ پر جھوٹ بولنے کا فرد جرم نہ لگ جائے۔ چاہے کچھ بھی ہو آپ اپنی راست گوئی قائم رکھئے۔
توبہ اس روز آپ کی راست گوئی کی وجہ سے کتنا ہنگامہ برپا ہوا۔ اتنا ہنگامہ ہوا کہ امان صاحب کی بندوق بھی بھول گئی۔ ایک راستہ نکالا تھا وہ بھی آپ نے مسدود کر دیا۔ کئی بار کہہ چکی ہوں کہ انہیں آپ سے براہ راست کوئی لگاؤ نہیں۔ ان کا بس چلے تو نہ جانے کیا ہو جائے۔ یہ لگاؤ محض میری وجہ سے ہے لیکن آپ ہیں کہ راستے سے لگن لگا رہے ہیں اور منزل کو بھولے جا رہے ہیں۔ اس طرح آپ کھو جائیں گے اور میری کوششیں بے اثر ہو جائیں گی۔
مگر آپ ایسا نہیں کریں گے۔ کہہ جو دیا نہیں کریں گے خدا کے لئے ایسا نہ کیجئے۔"
سادی کا خط پڑھ کر ایلی کو بے حد افسوس ہوا۔ ظاہر تھا کہ اب سادی سے ملاقات نہ ہوگی ادھر منصر بھی دو ایک روز کے لئے باہر چلا گیا تھا لہٰذا اس سے ملاقات کی صورت بھی نہ رہی تھی۔
ایلی نے کتابوں کی طرف توجہ منذول کی لیکن اس کا دل مطالعہ سے اچاٹ ہو چکا تھا۔ لہٰذا
 

قیصرانی

لائبریرین
امتحان کی تیاری کرنے کا سوال پیدا نہ ہوتا تھا۔ سارا دن وہ نیم چھتی میں کتاب اٹھائے پڑا رہتا۔ سوچتا اور پھر تھک کر پڑ جاتا۔ وقت اس کے لئے گویا تھم گیا تھا۔ کسی چیز میں دلچسپی باقی نہ رہی تھی۔ ناؤ گھر پھیل کر جہاز بن گیا تھا۔ اور وہ جہاز کسی نامعلوم سمت میں بہہ رہا تھا۔ بے مقصد بے مصرف
منزل اور راہی
امتحان ختم ہونے کے بعد وہ سب اپنے گھر جانے کے لئے تیاری کر رہے تھے جاہ بھا پال اور جمال جاہ کے لئے کہیں سے آنے کے میں قطعی طور پر دلچسپی نہ تھی البتہ بھا پال اور جمال تینوں خوش تھے۔ وہ ہمیشہ کے لئے ناؤ گھر چھوڑ رہے تھے۔
ایلی سوچتا رہا اور آخر اس نے فیصلہ کر لیا کہ علی پور جانے سے پہلے وہ سفید منزل جائے گا تاکہ منصر سے آخری ملاقات کرسکے۔ دل ہی دل میں وہ یہ چاہتا تھا کہ جب وہاں پہنچے تو منصر موجود نہ ہو اورسادی اسے جنگلے سے دیکھ لے اور وہ دونوں اس چھوٹے کمرے میں جا بیٹھیں اور سادی اس کی راست گوئی کا مذاق اڑائے۔ "لیجئے باجی آگئے ہمارے راست گو۔ جھوٹ صرف ہم سے بولتے ہیں۔ دوسروں سے نہیں۔ کیوں جی ٹھیک ہے نا۔"
لیکن جب وہ امتحان سے فارغ ہو کر سفید منزل میں گیا تو وہاں انور اور محمد علی کے سوا کوئی نہ تھا۔ انور نے اسے بتایا کہ وہ سب ہسپتال گئے ہوئے ہیں۔ لیکن کوشش کے باوجود وہ یہ نہ معلوم کر سکا کہ آخر وہ ہسپتال کیوں گئے تھے۔
اسی روز امتحان کے بعد منصر اسے ملا تھا۔ امتحان کے دوران میں منصر اسے تقریباً روز ملتا رہا تھا۔ پہلے روز جب ایلی پرچہ دے کر ہال سے نکلا تھا تو اس نے دیکھا تھا کہ سامنے منصر اپنے موٹر سائیکل پر آرہا ہے۔ اور منصر نے حسب عادت کہا تھا۔ "کیا عجیب اتفاق ہے میں ابھی لنچ کھا کر آرہا تھا۔ آئیے آئیے چلئے آپ کو لے چلوں پر چہ کیسا ہوا۔" اس کے بعد ان کا معمول ہو گیا تھا کہ عین اسی وقت منصر لنچ کھا کرادھر سے واپس آتا جب ایلی کے پرچے ختم ہونے کا وقت ہوتا اور سرسری طور پر اس سے پوچھتا کہئے پرچہ کیسا ہوا۔ اس روز بھی وہ اس سے ملا تھا اور سرسری باتوں کے بعد اس نے کہا تھا۔ "تو آج آپ جا رہے ہیں اور ناؤ گھر کے دروازے پر اسے موٹر سائیکل سے اتار کر کہا تھا کہ اچھا الیاس صاحب خدا حافظ۔ خط تو آپ لکھا ہی کریں گے میرا مطلب ہے جب کوئی ضروری بات ہو اور آپ تو لاہور آتے ہی رہتے ہوں گے علی پور قریب ہی تو ہے انشا اللہ جلد ملاقات ہوگی"۔
اس روز منصر نے تو ہسپتال کی بات نہ کی تھی۔
ایلی محروم واپس اگیا۔ اس کا جی تو نہیں چاہتا تھا کہ سامان باندھے یا جانے کی تیاری کرے لیکن سب تیاریوں میں مصروف تھے اور وہ لاج چھوڑ رہے تھے ناچار اسے بھی تیاری میں مصروف ہونا پڑا۔ لیکن اس کی تمام توجہ گلی کی طرف لگی ہوئی تھی۔ نہ جانے وہ لوگ کب ہسپتال سے واپس آ جائیں لیکن گاڑی کا وقت ہو گیا اور گلی میں سے کوئی موٹر یا تانگہ نہ گزرا۔ ناچار وہ جاہ اور بھا کے ساتھ تانگے میں سوار ہو گیا۔ اس نے ناؤ گھر اور سفید منزل پر آخری حسرت بھری نگاہ ڈالی اس وقت ایلی نے محسوس کیا جیسے وہ منزل کو چھوڑ کر راہی بن رہا ہو۔ منزل اس کے سامنے تھے۔ لیکن وہ متضاد راستے پر جانے پر مجبور تھا۔ کالی سڑک دوڑ رہی تھی۔ دوڑے جا رہی تھی گھوڑے کے سم یوں بج رہے تھے جیسے کوئی چھاتی پیٹ رہا ہو۔ ریل گاڑی کے پہیے اس پر ہنس رہے تھے۔ اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ لاہور سمٹ رہا تھا نیلا آسمان چاروں طرف سے یورش کر رہا تھا چھائے جا رہا تھا مسلط ہوا جا رہا تھا۔
بیگم
علی پور پہنچ کر وہ بلا سوچے سمجھے سیدھا محلے کی طرف چل پڑا۔ اس کا ذہن ایک خلا میں تبدیل ہوچکا تھا۔ اسے قطعی طور پر احساس نہ تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ کیوں جا رہا ہے یا علی پور کے گلی کوچوں میں جا رہا ہے۔ اسے راستے میں کوئی نہ ملا۔ کچی حویلی سنسان پڑی تھی۔ لالٹین مدھم لو سے جل رہی تھی۔ میدان میں اندھیرا تھا علی احمد کے مکان کے دروازے بند تھے چند ایک کھڑکیوں میں دھندلی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ وہ سر جھکائے چل رہا تھا۔
جب وہ شہزاد کے چوبارے میں پہنچا تو اسے کھلا دیکھ کر وہ چونکا اسے یاد آگیا کہ وہ تو باہر گئی ہوئی تھی۔ یہ دروازے کیسے کھلے ہیں اور میں ادھر کیسے آگیا۔
سامنے چارپائی پر شہزاد بیٹھی تھی۔ قریب ہی ایک نومولود بچہ لیٹا ہوا تھا۔ شہزاد نے اس کی طرف دیکھا اور وہ یوں حیران بیٹھی رہ گئی جیسے پتھر کی بنی ہوئی ہو۔ جانو چلانے لگی۔
"لو یہ تو ایلی آیا ہے۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
"کون آیا ہے۔" قریب ہی سے ایک ان جانی باوقار آواز سنائی دی۔ اور پھر بیگم اس کے سامنے آکھڑی ہوئی۔
"ہئے۔" شہزاد بولی۔ "ایلی کے لئے چائے بناؤ جانو منہ کیا دیکھ رہی ہو۔ اتنی دیر کے بعد آیا ہے چلو آیا تو ہے"۔
وہ مسکرائی "اب بھی نہ آتا تو اس کا کیا بگاڑ لیتے۔ اب تو جا کہاں رہا ہے۔" وہ براہ راست ایلی سے مخاطب ہوئی۔ "ادھر کون ہے وہ تو سبھی کابل گئے ہوئے ہیں"۔
ایلی نے بیگم کی طرف دیکھا۔ بیگم بڑے رعب سے اسے گھور رہی تھی۔
"بیگم کو نہیں پہچانا تو نے ایلی۔"
بیگم۔ اسے وہ نام جانا پہچانا معلوم ہو رہا تھا۔
"اب یہ کیوں پہچانے گا۔" بیگم نے کہا "اب تو جوان ہو گیا ہے۔"
"جوان" شہزاد ہنسی۔ "شکل تو دیکھو جوان کی جیسے راستہ کھو کر ادھر آ نکلا ہو۔"
"راستہ کھو کر ادھر آ نکلا ہو۔" کسی نے اس کے کان میں دہرایا۔ اس کی نگاہوں میں سفید منزل آکھڑی ہوئی۔ راستہ اور چیز ہے منزل اور! سادی مسکرائی۔ منزل! منزل!! منزل!!! مسجد پر چمگادڑ چیخی۔ "چلو راستہ بھول کر ہی سہی۔" شہزاد ہنسی۔ "اب بیٹھ بھی جا۔"
وہ بیٹھ گیا۔
"مجھ سے نہیں تو اماں سے ہی بات کر کوئی۔" شہزاد پھر ہنسی۔
"اماں۔۔۔" دفعتاً اسے یاد آیا۔ ہاں بیگم شہزاد کی ماں تھی۔ پھر اس کی نگاہوں میں وہ دن پھر گئے جب محلہ گوکل کا بن بنا ہوا تھا۔ سانوری کی نیم وا آنکھیں ڈول رہی تھیں۔ اس کے ڈھلکے ہوئے شانے پر اس کی ترچھی نگاہ اور مرچیلی مسکراہٹ نیچے ارجمند چلایا تھا۔ "ہئے ہئے کیا شے ہیں یہ گوکل کے کنہیا جب سے آئے ہیں۔ سارا محلہ پنگھٹ بن گیا ہے۔ ہئے ہئے اب میں کیا کروں۔"
پھر تھیٹر کی سٹیج پر رٹیک اپنا سونٹا لہرا رہا تھا۔ اس کی نگاہیں سامنے گیلری پر لگی ہوئی تھیں جہاں سانوری تخت پر جلوہ افروز تھی اور گلدم اور گلخیرو آہستہ آہستہ چلا رہے تھے۔ ابے دیکھ کر بے لیکن تینوں ہی گیلری کی طرف دیکھ رہے تھے۔
شہزاد کے والد غلام علی بانکے رنگیلے شخص تھے۔ عورت ان کی واحد کمزوری تھی لیکن علی احمد کی طرح وہ عورتوں کو گھ رلانے کے عادی نہ تھے۔ وہ اس نکتہ کو خوب سمجھتے تھے کہ عورت کو بیوی بنا لینے سے شوق کی تسکین نہیں ہوتی۔ وہ عورت کو محسوس کرتے اور اس کے حصول کی کوشش کرتے۔ ان کے نزدیک حصول وقتی ملاپ کے مترادف تھا اور اسے دوام بخشنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ طبعاً وہ ایک بھنورا تھے۔ کلی کلی کا رس چوسنا ان کا شغل تھا۔ لیکن گھر میں پھولوں کے تختے لگانا انہیں پسند نہ تھا۔ گھر میں صرف ایک پھول تھا۔۔۔۔ بیگم۔ چونکہ غلام علی گھر کے معاملات میں دخل دینے کے قائل نہ تھے گھر پر بیگم کی حکومت تھی۔
یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آیا بیگم طبعاً حاکم تھی یا برسوں کی حکومت کے بعد اس میں حکمرانی کا عنصر پیدا ہو گیا تھا۔ بہرحال گھر کے معاملات میں وہ دخل اندازی گوارا نہیں کرتی تھی۔ اور چاہتی تھی بلکہ اسے اپنا حق سمجتھی تھی کہ کوئی بات اس کی رضامندی کے بغیر واقعہ نہ ہو۔ وہ نوکروں، کام کرنے والوں اور حتٰی کہ محلے والوں پر حکم چلاتی تھی۔ دراصل اسے کسی محلے میں رہنے کا کبھی اتفاق نہ ہوا تھا چونکہ اس کا خاوند محکمہ ریل میں سٹیشن ماسٹر تھا اس لئے ساری عمر بیگم نے ریلوے سٹیشنوں کے کوارٹروں میں بسر کی تھی۔ جہاں ارد گرد قلی خوانچے والے کارندے اور بابو لوگ رہتے تھے جو سب غلام علی کے ماتحت کام کرتے تھے۔ لہٰذا بیگم ان سب کو اور ان کے متعلقین کو براہ راست اپنے ماتحت سمجھتی تھی۔ اس تفصیل کی وجہ سے اس کے انداز میں حکومت جابریت اور نور جہانیت کے سے عناصر پیدا ہو چکے تھے۔
بیگم کو خاوند کی کمزوری کا علم تھا۔ اسے صرف ایک دکھ تھا کہ خاوند اس کے حکم سے کیوں باہر تھا۔ اس بات پر اکثر گھر میں فساد ہوتا تھا لیکن غلام علی اپنی رنگیلی اور شوخ باتوں کے بل بوتے پر ٹال دیا کرتے۔
اس کے علاوہ چونکہ غلام علی کا جادو صرف ان عورتوں پر چلتا جن کی کوئی سماجی حیثیت نہ ہوتی تھی۔ اس لیے بیگم ان کی خوش فعلیوں پر حقارت کا اظہار کرتیں اور خاوند کی ہر ایسی خوش فعلی پر بیگم کی اپنی حیثیت اور بھی بڑھ جاتی۔
البتہ گھر کے ایک معاملے پر گھر میں غلام علی کی حکومت تھی۔ وہ مقوی اور لذیذ غذا کھانے کے عادی تھے چونکہ ان کا خیال تھا کہ ایسے شوق کو پورا کرنے کے لئے غذا بے حد اہم چیز ہے۔ لہٰذا گھر میں کھانے سے متعلقہ کوئی بات ان کی رضامندی اور خواہش کے بغیر عمل میں نہ آسکتی تھی۔ وہ بڑے اہتمام سے خصوصی غذائیں حاصل کرتے خصوصی اہتمام سے انہیں تیار کرواتے
 

قیصرانی

لائبریرین
"کون آیا ہے۔" قریب ہی سے ایک ان جانی باوقار آواز سنائی دی۔ اور پھر بیگم اس کے سامنے آکھڑی ہوئی۔
"ہئے۔" شہزاد بولی۔ "ایلی کے لئے چائے بناؤ جانو منہ کیا دیکھ رہی ہو۔ اتنی دیر کے بعد آیا ہے چلو آیا تو ہے"۔
وہ مسکرائی "اب بھی نہ آتا تو اس کا کیا بگاڑ لیتے۔ اب تو جا کہاں رہا ہے۔" وہ براہ راست ایلی سے مخاطب ہوئی۔ "ادھر کون ہے وہ تو سبھی کابل گئے ہوئے ہیں"۔
ایلی نے بیگم کی طرف دیکھا۔ بیگم بڑے رعب سے اسے گھور رہی تھی۔
"بیگم کو نہیں پہچانا تو نے ایلی۔"
بیگم۔ اسے وہ نام جانا پہچانا معلوم ہو رہا تھا۔
"اب یہ کیوں پہچانے گا۔" بیگم نے کہا "اب تو جوان ہو گیا ہے۔"
"جوان" شہزاد ہنسی۔ "شکل تو دیکھو جوان کی جیسے راستہ کھو کر ادھر آ نکلا ہو۔"
"راستہ کھو کر ادھر آ نکلا ہو۔" کسی نے اس کے کان میں دہرایا۔ اس کی نگاہوں میں سفید منزل آکھڑی ہوئی۔ راستہ اور چیز ہے منزل اور! سادی مسکرائی۔ منزل! منزل!! منزل!!! مسجد پر چمگادڑ چیخی۔ "چلو راستہ بھول کر ہی سہی۔" شہزاد ہنسی۔ "اب بیٹھ بھی جا۔"
وہ بیٹھ گیا۔
"مجھ سے نہیں تو اماں سے ہی بات کر کوئی۔" شہزاد پھر ہنسی۔
"اماں۔۔۔" دفعتاً اسے یاد آیا۔ ہاں بیگم شہزاد کی ماں تھی۔ پھر اس کی نگاہوں میں وہ دن پھر گئے جب محلہ گوکل کا بن بنا ہوا تھا۔ سانوری کی نیم وا آنکھیں ڈول رہی تھیں۔ اس کے ڈھلکے ہوئے شانے پر اس کی ترچھی نگاہ اور مرچیلی مسکراہٹ نیچے ارجمند چلایا تھا۔ "ہئے ہئے کیا شے ہیں یہ گوکل کے کنہیا جب سے آئے ہیں۔ سارا محلہ پنگھٹ بن گیا ہے۔ ہئے ہئے اب میں کیا کروں۔"
پھر تھیٹر کی سٹیج پر رٹیک اپنا سونٹا لہرا رہا تھا۔ اس کی نگاہیں سامنے گیلری پر لگی ہوئی تھیں جہاں سانوری تخت پر جلوہ افروز تھی اور گلدم اور گلخیرو آہستہ آہستہ چلا رہے تھے۔ ابے دیکھ کر بے لیکن تینوں ہی گیلری کی طرف دیکھ رہے تھے۔
شہزاد کے والد غلام علی بانکے رنگیلے شخص تھے۔ عورت ان کی واحد کمزوری تھی لیکن علی احمد کی طرح وہ عورتوں کو گھ رلانے کے عادی نہ تھے۔ وہ اس نکتہ کو خوب سمجھتے تھے کہ عورت کو بیوی بنا لینے سے شوق کی تسکین نہیں ہوتی۔ وہ عورت کو محسوس کرتے اور اس کے حصول کی کوشش کرتے۔ ان کے نزدیک حصول وقتی ملاپ کے مترادف تھا اور اسے دوام بخشنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ طبعاً وہ ایک بھنورا تھے۔ کلی کلی کا رس چوسنا ان کا شغل تھا۔ لیکن گھر میں پھولوں کے تختے لگانا انہیں پسند نہ تھا۔ گھر میں صرف ایک پھول تھا۔۔۔۔ بیگم۔ چونکہ غلام علی گھر کے معاملات میں دخل دینے کے قائل نہ تھے گھر پر بیگم کی حکومت تھی۔
یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آیا بیگم طبعاً حاکم تھی یا برسوں کی حکومت کے بعد اس میں حکمرانی کا عنصر پیدا ہو گیا تھا۔ بہرحال گھر کے معاملات میں وہ دخل اندازی گوارا نہیں کرتی تھی۔ اور چاہتی تھی بلکہ اسے اپنا حق سمجتھی تھی کہ کوئی بات اس کی رضامندی کے بغیر واقعہ نہ ہو۔ وہ نوکروں، کام کرنے والوں اور حتٰی کہ محلے والوں پر حکم چلاتی تھی۔ دراصل اسے کسی محلے میں رہنے کا کبھی اتفاق نہ ہوا تھا چونکہ اس کا خاوند محکمہ ریل میں سٹیشن ماسٹر تھا اس لئے ساری عمر بیگم نے ریلوے سٹیشنوں کے کوارٹروں میں بسر کی تھی۔ جہاں ارد گرد قلی خوانچے والے کارندے اور بابو لوگ رہتے تھے جو سب غلام علی کے ماتحت کام کرتے تھے۔ لہٰذا بیگم ان سب کو اور ان کے متعلقین کو براہ راست اپنے ماتحت سمجھتی تھی۔ اس تفصیل کی وجہ سے اس کے انداز میں حکومت جابریت اور نور جہانیت کے سے عناصر پیدا ہو چکے تھے۔
بیگم کو خاوند کی کمزوری کا علم تھا۔ اسے صرف ایک دکھ تھا کہ خاوند اس کے حکم سے کیوں باہر تھا۔ اس بات پر اکثر گھر میں فساد ہوتا تھا لیکن غلام علی اپنی رنگیلی اور شوخ باتوں کے بل بوتے پر ٹال دیا کرتے۔
اس کے علاوہ چونکہ غلام علی کا جادو صرف ان عورتوں پر چلتا جن کی کوئی سماجی حیثیت نہ ہوتی تھی۔ اس لیے بیگم ان کی خوش فعلیوں پر حقارت کا اظہار کرتیں اور خاوند کی ہر ایسی خوش فعلی پر بیگم کی اپنی حیثیت اور بھی بڑھ جاتی۔
البتہ گھر کے ایک معاملے پر گھر میں غلام علی کی حکومت تھی۔ وہ مقوی اور لذیذ غذا کھانے کے عادی تھے چونکہ ان کا خیال تھا کہ ایسے شوق کو پورا کرنے کے لئے غذا بے حد اہم چیز ہے۔ لہٰذا گھر میں کھانے سے متعلقہ کوئی بات ان کی رضامندی اور خواہش کے بغیر عمل میں نہ آسکتی تھی۔ وہ بڑے اہتمام سے خصوصی غذائیں حاصل کرتے خصوصی اہتمام سے انہیں تیار کرواتے اور پھر جب وہ دستر خوان پر بیٹھتے تو اہل خانہ پر ہو کا عالم طاری ہو جاتا سب کی نگاہیں غلام علی کے چہرے پر جم جاتیں دل دھڑکتے ہاتھ کانپتے نہ جانے کیا ہوگا۔
پہلا نوالہ منہ میں رکھنے کے بعد یا تو غلام علی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ جھلکتی۔۔۔۔ اس پر سب کے دل قائم ہو جاتے ہاتھ رواں ہو جاتے اور چہروں پر مسرت بھرا فخر پھیل جاتا۔ اور اگر غلام علی کے چہرے پر مسکراہٹ نہ آتی تو برتن دھم سے دیوار سے ٹکراتے "یہ کیا ہے لے جاؤ" اور پھر گھر میں سناٹا چھا جاتا۔
غلام علی کے شوق کو بیگم روک نہ سکی اس نے پیار محبت سے سمجھایا۔ ٹسوے بہائے دھمکیاں دی گئی ایک عورتیں جنہوں نے غلام علی کے شوق کو پورا کیا تھا انہیں پیٹآ بھی لیکن بات جوں کی توں قائم رہی۔ لہٰذا یہ بات بیگم کو گوارا کرنی ہی پڑی بہرحال بیگم بھی ہٹ کی پوری تھی۔ اور اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ غلام علی عورت کے بغیر خوش نہیں رہ سکتا اور اکثر ایسے مواقعی آتے تھے جب غلام علی کو یاد آتا کہ بیگم بھی عورت ہے اور اس وقت بیگم خاوند سے تنگ بخشی کے ذریعے انتقام لیتی۔ حیوان تڑپتا اور بیگم کو اس کا تڑپنا دیکھ کر لذت حاصل ہوتی وہ دہاڑتا چیختا چلاتا اور پھر باہر نکل جاتا اور دیوانہ وار عورت کو تلاش کرتا۔
ایک مرتبہ جب وہ ان حالات میں باہر نکلے تو پلیٹ فارم پر گاڑی کھڑی تھی۔ اور ڈبے سے ایک ایسی خاتون نکل رہی تھی جو خود کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھی جس سے وہ بہت سارا روپیہ بٹور سکتی ہو۔ وہ فیشن ایبل لباس میں ملبوس تھی ہاتھ میں ہینڈ بیگ اور ماتھے تھے انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے کچھ کہا تو فر فر انگریزی بولنے لگے گی۔ غلام علی بھانپنے میں بڑے تیز تھے فوراً تاڑ گئے کہ حالات سازگار ہیں اگرچہ پہلے کبھی اس نوعیت کی عورت سے سابقہ نہیں پڑا تھا پھر بھی آخر عورت ہی تھی۔
ان کا مقصد تو محض ملاپ تھا۔ لہٰذا وہ اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے اور چلتے چلاتے دونوں ڈائننگ روم میں پہنچ گئے۔
خاتون بڑی ہوشیار تھی اس کا مقصد ملاپ نہ تھا۔ حصول زر کی خواہش بھی وقتی نہ تھی وہ دوام کی قائل تھی چونکہ ضرورت وقتی چیز نہیں۔ لہٰذا اس نے تنک بخشی کو کام میں لا کر غلام علی کی آگ میں تیل ڈال کر اسے بھڑکا دیا۔
بیگم کو جب علم ہوا تو وہ چیخی چلائی لیکن بیگم کو یہ علم نہ ہوا کہ غلام علی کے اس نئے تعلق میں دوام کا خطرہ ہے لہٰذا وہ چیخ چلا کر خاموش ہو گئی۔
ادھر خاتون نے غلام علی کو پورے طور پر ہاتھ میں لے کر اسے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ اس نے یہ تعلق صرف اس لیے گوارا کیا ہے کہ اسے پہلی ہی نظر میں غلام علی سے محبت ہو گئی تھی محبت کا لفظ سن کر غلام علی سکتے میں رہ گئے۔ آج تک کسی عورت نے ان سے محبت کا اظہار نہ کیا تھا۔ اور ان کی بیوی تو بے رحمی کا انسپکٹر تھی۔ لہٰذا وہ خاتون کے سحر میں آگئے۔ اور خاتون کے تحفظ سے متعلقہ تمام شرائط کو تسلیم کر کے انہوں نے خفیہ طور پر اس سے نکاح کر لیا۔ خاتون نے تحفظ کے طور پر بیگم کو طلاق دینے کا مطالبہ بھی کر دیا۔
جب بیگم کو معلوم ہوا تو وہ سناٹے میں آگئی۔ اسے یقین نہ آتا تھا۔ وہ سمجتھی تھی یہ محض دھمکی ہے یا ایک نا خوش کن خواب۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسے معزول کر دیا جئے اور اس عمر میں تخت سے اتار دیا جائے جب کہ وہ چار جوان بچوں کی ماں تھی جن میں دو شادی شدہ تھے لیکن جب طلاق نامہ اس کے ہاتھ میں تھمایا گیا تو اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔
اور اب وہ ہمیشہ کے لئے اپنی بیٹی شہزاد کے پاس آگئی تھی۔
بیگم نے ایلی کو گھورتے ہوئے کہا۔ "یہ یہاں ٹھہرے گا کہاں۔"
شہزاد ہنسنے لگی۔ "آخر اپنے ہی گھر ٹھہرتا ہے نا انسان۔"
بیگم نے حیرت سے شہزاد کی طرف دیکھا۔
ایلی نے محسوس کیا کہ ابھی بیگم اٹھ کر ایلی کے کان پکڑا دے گی۔
بیگم کے اس رویے کے بعد شہزاد نے اپنی تمام تر توجہ ایلی کی طرف مبذول کردی۔ وہ اٹھی میز کو جھاڑا نیا میز پوش نکالا اور پھر خود میز لا کر ایلی کےسامنے رکھا۔
"لو اب چائے لو جانو۔" وہ بولی۔
"میں یہ کام کیے دیتی ہوں۔" بیگم بولی۔ "تم کیوں خوامخواہ تمہاری طبیعت جو اچھی نہیں۔ "
"اس کام کے لیے اچھی ہے۔" شہزاد جان بوجھ کر بیگم کو چڑا رہی تھی۔
"مجھے تو سمجھ میں نہیں آتی تمہاری باتیں۔" بیگم نے بصد تحمل کہا۔
"آجائے گی سمجھ۔" شہزاد بولی۔۔۔ "آؤ نا ایلی اب تو چائے بھی پیئے گا یا نہیں"۔
"ہوں۔۔۔" ایلی بولا اس نے ان دونوں کی باتیں سنی ہی نہ تھیں۔ نہ جانے وہ کہاں کھویا ہوا تھا۔ شہزاد ہنسی "اچھا تو یہ بات ہے اب یہاں پہنچ کر بھی کھوئے ہوئے ہو۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
چند ہی روز میں بیگم اور ایلی ایک دوسرے سے بہت قریب ہو گئے ایلی نے محسوس کیا کہ وہ پر رعب اور طمطراق بھری بیگم دراصل ایک ٹوٹی ہوئی گڑیا ہے۔ اپنے گھر کی باتیں یاد کرتے ہوئے یا غلام علی کا کوئی قصہ سناتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں انہیں روکنے کی کوشش میں ضبط ٹوٹ جاتا ہے پھر بچوں کی طرح بلک بلک کر روتی ہے۔
شہزاد کے گھر میں بیگم کی باتیں سننے والا کوئی نہ تھا۔ شہزاد کی دو بچیاں کھیل کود میں لگی رہتیں تیسری بچی ابھی صرف دو ایک ماہ کی تھی۔ ان کے علاوہ جانو تھی جو ہر وقت گھر کے کام میں لگی رہتی تھی محلے والیوں کے روبرو ایسی باتیں کرنا بیگم کے وقار کے منافی تھا۔
شہزاد کی شادی کے بعد علی پور میں بیگم صرف دو تین مرتبہ آئی تھی۔ محلے پر وہ پھبتیاں اڑایا کرتی۔ ناک بھوں چڑھاتی "یہ تمہارے کیا طریقے ہیں۔ اور یہ یہاں کے لوگ کیسے ہیں" اس کے انداز میں نفرت کی جھلک نمایاں ہوتی۔ "لو بہن تمہارے خاوند کیسے ہیں ہئے میرے گھر میں کیا مجال ہے جو نمک ذرا زیادہ ہو یا کم ہو اگر گوشت زیادہ گل گیا ہے یا ذرا کم گلا ہے تو بھی ہم میں یہ جرأت نہیں ہوتی کہ اس اللہ کے بندے کے سامنے رکھیں۔ بس سمجھ لو زلزلہ آجاتا ہے برتن دھم سے دیوار سے ٹکرا کر ٹکڑے ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی آواز گونجتی ہے شوکت کی ماں یہ کیا ہے لاحول ولا قوۃ۔۔۔ توبہ ہے بہن" خاوند کی بات سناتے ہوئے بیگم پر کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔
بات بات پر اپنے گھر کی بات کرنا گھر میں اشیا کی افراط کا تذکرہ کرنا اور پھر اپنے خاوند کے غصے اور دبدبے کا اظہار کرنا بیگم کی عادت تھی اور صرف یہی نہیں غالباً وہ سمجھتی تھی کہ دوسروں کے لئے حقارت اور تضحیک کا اظہار نہ ہو تو اپنے گھر کی بات سنائی ہی نہیں جا سکتی۔ اب بھلا بیگم کس منہ سے ان محلے والیوں کو اپنی تضحیک کا قصہ سناتی کس طرح بتاتی کہ اس کی حکومت چھن چکی ہے۔ وہ معزول ہو چکی ہے۔ فی الحال یہ بات تو گھر کے چند ایک افراد کے درمیان سربستہ راز تھی اور محلے والیوں کے سامنے بیگم اسی انداز میں بات کرتی تھی جیسے اس کا گھر قائم ہو اور اس کے میاں بدستور اس کے میاں ہوں۔
لہٰذا بیگم کے لئے محلے والیوں سے بات کرنا ممکن نہ تھا۔ شہزاد سے ابت کرتی تو وہ قہقہہ مار کر ہنستی "اماں پھر کیا ہوا۔ اسے بھی مزے کر لینے دو چند ایک سال نئے فیشن کی بیوی ملی ہے ابا کو" وہ ہنستی۔
"ہائے لڑکی۔" بیگم حیرت سے شہزاد کی طرف دیکھتی۔
شہزاد پھر قہقہہ لگاتی "اماں جو ہوا اب چھوڑو یہ قصہ تمہارے بال بچے ہیں۔ اتنے گھر تمہارے اپنے ہیں جس کے پاس جی چاہے رہ لو جو چاہے کھاؤ پیو۔ پھر رونا کس بات کا۔ اور پھر اماں تمہاری عمر اب بھی پینتالیس سال کے قریب ہوگی اس عمر میں خاوند سے جدائی ہو بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے"۔
دو ایک دن میں بیگم نے محسوس کر لیا کہ ایلی وہاں صرف اس لیے موجود تھا کہ سارا دن اس کی باتیں سنے اور اظہار ہمدردی کرے۔ اس میں شک نہیں کہ ایلی کو بیگم سے بے حد ہمدردی تھی لیکن دقت یہ تھی کہ جب بیگم اسے کوئی قصہ سناتی تو سنتے سنتے کسی لفظ یا اشارے کی وجہ سے ایلی کا خیال نہ جانے کہاں جا پہنچتا اور وہ بیگم اور جانو کے پاس بیٹھ کر خالی سر ہلاتا رہتا۔
پھر بیگم کی آپ بیتیوں کے بعد ایک دور اور آیا اور بیگم اور ایلی مل کر عجیب و غریب مصروفیات میں کھو گئے۔ بیگم ایلی کو اشارہ کرتی کہ چلو میں آئی۔ وہ رابعہ کے خالی چوبارے میں جا بیٹھتا کچھ دیر کے بعد بیگم آ جاتی وہ سیارہ روئی سی تھیلے سے نکال کر کہتی۔ "اس نے کہا ہے اس روئی کی ساتھ بتیاں بنا لو۔ کورے برتن میں موم کی پتلی بنا کر رکھ دو پھر اس بتی کو آگ لگا کر اس برتن میں ڈال دو لیکن اس طریق سے ڈالو کہ بتی بجھے نہیں۔ اور جب تک برتن سے دھواں نکلتا رہے ایک ٹانگ پر کھڑی ہو کر "آئی بلا کو ٹال تو" پڑھتی رہو۔
"یہ عامل سمجھدار بھی دکھتا ہے یا نہی" ایلی پوچھتا۔
"بڑا سیانا ہے۔" بیگم جواب دیتی "ہزاروں کے گھر آباد کر دیئے اس نے۔"
"پھر تو بہت اچھا ہے۔" ایلی کہتا۔
"بس ایک ہی مشکل ہے"
"وہ کیا؟"
"میں ایک ٹانگ پر کسیے کھڑی ہو سکوں گی اتنی دیر کے لئے۔"
"لو اس میں کیا ہے ہاتھ سے کرسی کو تھامے رکھنا۔"
"ہاں۔" وہ مسکراتی۔ "یہ تھیک ہے۔"
"کہو تو میں سہارا دیئے رہوں۔" ایلی اس سے ہمدردی جتاتا۔
وہ غصے سے ایلی کی طرف دیکھتی۔ بیگم کو ہر ایسی بات بری لگتی تھی جس سے قرب کا احساس
 

قیصرانی

لائبریرین
ہو یا بے تکلفی کا اظہار ہو۔ اس کی دانست میں بے تکلفی جنسی تعلق کی دلیل تھی۔ اور جنسی تعلق کے لیے بیگم کے دل میں نفرت کے جذبات قائم ہو چکے تھے۔
بیگم عامل کے دیئے ہوئے تعویذ لے آتی اور وہ دونوں بیٹھ کر انہیں پانی میں گھولتے رہتے۔
ان عملیات کے بعد وہ ان کے نتائج کا انتظار کرتے۔ ایلی کو تو خیر ان عملیات پر کوئی اعتبار نہ تھا۔ وہ جادو سحر یا اس قسم کی دوسری چیزوں کے اثر سے قطعی طور پر منکر تھا۔ البتہ بیگم کی تسلی کے لیے وہ کہا کرتا تھا۔ "ہاں ان چیزوں کا اثر ہوتا ہے۔" لیکن شہزاد تو بے باکانہ ان باتوں کا مذاق اڑایا کرتی۔
دوپہر کے وقت دروازہ بجتا تو وہ جانو سے کہتی۔ "جا میرا منہ کیا دیکھ رہی ہے نیچے ڈاکیہ رجسٹری لایا ہے۔"
"رجسٹری۔" جانو حیرت سے پوچھتی۔
"کیا مطلب۔" ایلی دریافت کرتا۔
پھر وہ نہایت سنجیدگی سے جواب دیتی۔ "اماں کا عمل جو ختم ہو گیا ہے اب ابا کی طرف سے اطلاع تو آئے گی ہی کہ وہ قصہ ختم وہ گیا ہے اب گھر آجاو کیوں اماں۔"
یا جب بیگم اور ایلی بتی جلانے میں مصروف ہوتے تو وہ نہایت سنجیدگی سے پوچھتی۔ "اماں یہ موم کی پتلی تم ہو یا ہماری سوتیلی۔" اس طرح وہ اکثر مذاق ہی مذاق میں ماں کے ان عملیات کا مضحکہ اڑایا کرتی۔ اکثر اس کی باتیں ذومعنی ہوتیں اور ایلی انہیں سن کر چونکتا۔
مثلاً پہلے روز ہی اس نے بیگم سے کہا تھا۔ "اماں چھوڑو ان عملیات کو بھلا بتیاں جلانے سے کیا ہوتا ہے، اگر یہ عمل اثر کرتے تو میں تعویز کے زور پر کسی کو اپنا نہ بنا لیتی۔" شہزاد نے ایلی کی طرف د یکھا۔ اس وقت اس کے ماتھے کا تل بے حد شوخ ہو رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں مایوسی اور حسرت بھری تمنا کی تھی۔
پھر ایک روز شہزاد کے سامنے روئی پڑی دیکھ کر بیگم نے پوچھا تھا۔ "روئی کیا کرے گی تو۔" اور اس نے جواب دیا تھا۔ "میں بھی بتیاں بناؤں گی۔" "کیوں تمہیں کیا ہے؟" ماں نے پوچھا تھا اور اس نے جواب دیا تھا۔ "بہت کچھ ہے اوپر سے نہیں دکھتا شاید بتیاں جلانے سے میرا بھی ساتھی واپس آجائے۔" اور ساتھ ہی اس نے بڑی جرات اور بے باکی سے ایلی کی طرف دیکھا تھا۔ "کیوں ایلی۔" اس نے کہا تھا "جانے والے واپس بھی آسکتے ہیں کیا۔" اور پھر یوں ہنسی تھی جیسے آبگینہ کسی ان جانے دباؤ سے چور چور ہو گیا ہو۔
شہزاد کو بیگم کے ان عملیات اور اس کے قصے کہانیوں کے خلاف سخت شکایات تھیں چونکہ ان مصروفیات کی وجہ سے ایلی اس سے دور ہو گیا تھا۔ شہزاد کو ایلی کے قرب میں چنداں دلچسپی نہ تھی بلکہ وہ عام طور پر گھبرا جاتی تھی لیکن اس کے دل کی خواہش تھی کہ ایلی کے دل میں شہزاد کی آرزو کم نہ ہو جائے۔ وہ اسے ملنے کی آرزو رچائے بیٹھا رہے۔ تنہائی کے لمحات کی آرزو کرے عملی طور پر کوشش کرکے تنہائی میں اس سے ملے اس کے لٹکتے بازو کو اسی طرح تھامے جیسے ڈوبتے کے لیے تنکا ہو۔ اس کے پاؤں کو اپنی نگاہوں میں گھیرے رکھے۔ دور بیٹھ کر دیوانہ وار اس کی طر ف دیکھتا رہے۔
۔۔۔ لیکن اب کی بار جب سے ایلی علی پور آیا تھا وہ ان سب باتوں سے یوں بے نیاز ہو چکا تھا جیسے وہ ایلی ہی نہ ہو۔ الٹا وہ چھوٹے سے چھوٹے موقعہ پر بیگم کو ساتھ لے کر رابعہ کے چوبارے میں جا بیٹھتا اور بیگم کی باتوں میں مصروف ہو جاتا۔ یہ دیکھ کر شہزاد بار بار بہانےبہانے سے چوبارے میں آتی ایلی کے قریب تر آ کھڑی ہوتی چوری چوری اس کا منہ سہلاتی۔ چٹکیاں بھرتی اور باتوں ہی باتوں میں بہت کچھ کہہ جاتی۔
فلیگ سٹیشن
ایلی کی بظاہر بے نیازی نے شہزاد کے شوق کو بھڑکا دیا تھا۔ یہ شہزاد کی پرانی عادت تھی۔ اس کے پیچھے پیچھے پھر تو وہ آگے کی سمت بھاگتی تھی اس سے دور ہٹو تو وہ تعاقب کرتی تھی حتٰی کہ دور ہٹنے والا اس کے پیچھے پیچھے چل پڑتا اور پھر وہ دفعتاً بے نیاز ہو جاتی۔
ایک روز جب بیگم کسی عامل کے پاس گئی ہوئی تھی۔ جانو نیچے باورچی خانےمیں مصروف تھی اور ایلی چپ چاپ چوبارے میں بیٹھا ہوا تھا۔ تو شہزاد نے چپکے سے آکر اس کی آنکھیں بند کرلیں اس سے پہلے ایسے حالات میں وہ جھنجھنے کی طرح بجنے لگتا اس کی نس نس میں گویا بھڑوں کا چھتہ بھنبھنانے لگتا تھا اور وہ دیوانہ وار اس کے ہاتھوں کو چومنا شروع کر دیتا تھا لیکن اس روز وہ چپ چاپ بیٹھا رہا۔ اور پھر کہنے لگا۔
"شہزاد ہے۔"
اس پر شہزاد ہنسی ہاتھ اٹھا کر کہنے لگی۔ "چلو آخر ایک نہ ایک دن جانے والے نے جانا ہی تھا۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
"کیا مطلب؟" وہ بولا۔
"میں پہلے ہی جانتی تھی۔" وہ ہنسی۔ اس کی ہنسی میں شکست کی آواز تھی۔
"کیا؟" ایلی نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
"جانتی تھی کہ اپنی حیثیت تو فلیگ سٹیشن کے برابر ہے۔ یہ گاڑی جو رکی ہے چند روز ٹھہرے گی۔"
"تم تو ریلوے بابو کی طرح بات کر رہی ہو۔" ایلی نے کہا۔
"بابو کے گھر والی جو ہائی۔" وہ ہنسی۔
ایلی ہنسنے لگا۔ "تمہیں یاد ہے پچھلی مرتبہ میں کن حالات میں میں یہاں سے رخصت ہوا تھا۔"
"یاد ہے۔" وہ بولی۔ "لیکن یہ بھی معلوم ہے کہ یہ سب اس کی وجہ سے نہیں ہے۔"
"یہ کیا ہے۔"
"جو کچھ بھی ہے۔"
"اس کی وجہ سنو گی۔" ایلی نے شرارت سے اس کی طرف دیکھا۔
"سن لوں گی لیکن۔۔۔"
"لیکن کیا۔"
"لیکن کو چھوڑو تم سناؤ۔"
"تم نوازنا جانتی ہو شہزاد جسے تم نے نوازا سمجھ لو وہ خود سے گیا۔"
"اچھا۔"
"لیکن تمہارا کھیل کر کھلونے کو پھینک دینا بڑا اذیت نام ہے۔"
"مطلب ہے کہ میں نے پھینک دیا ہے۔"
"یہ تو وقتی پھینکنا تھا۔ وقتی پھینکنا اس قدر خوفناک تو۔۔۔"
"اس ڈر کے مارے تم چلے گئے تھے۔"
"اس غصے کے مارے کہ تمہارا ایک حصہ الگ تھلگ رہتا ہے بے پروا بے نیاز۔ اور وہ حصہ کسی وقت بھی تم پر مسلط ہو سکتا ہے۔"
"تو اس ایک حصے کو سزا دے رہے ہو۔" وہ ہنسی۔
"انہوں بے پروا بے نیاز کو کون سزا دے سکتا ہے سزا تو صرف اسے دی جا سکتی ہے جو پروا کرتا ہو جسے لگن ہو لگاؤ ہو۔"
"تو مطلب یہ ہے کہ ایک حصے کے قصور پر دوسرے کو سزا مل رہی ہے۔" وہ ہنسنے لگی۔
"بہرحال۔" وہ بولی "گاڑی فلیگ سٹیشن سے نکل گئی۔" پھر اس نے از خود اپنا بازو اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
"مجھے کوئی شکایت نہیں۔" وہ ہنسنے لگی۔ "ہونی ہو کر رہتی ہے۔ " لیکن وہ بولی۔ "یہ سب باتیں جو تم سنا رہے ہو محض باتیں ہیں۔۔۔" وہ سنجیدہ ہو کر بولی۔ "ایک روز میں نے تمہیں ایک کہانی سنائی تھی معلوم ہوتا ہے وہ کہانی اب ختم ہو رہی ہے"۔ اس نے آہ بھری۔ "اور یہ کہانیاں جو تم مجھے سنا رہے ہو محض قصے ہیں سنانے کے قصے تم ناراض اس لیے ہوتے تھے کہ تم مجھ پر شک کرتے تھے تم سمجھتے تھے کہ میں ہر کسی سے آنکھ لڑاتی پھرتی ہوں۔ اس روز تم اسی لیے چلے گئے۔ لیکن یہ تمہاری آج کی نگاہ نہ تو اس شک کی وجہ سے ہے اور نہ غصے کی وجہ سے۔ یہ تو۔۔۔" وہ رک گئی۔
"یہ تو کیا؟"
"یہ تو گاڑی فلیگ سٹیشن سے نکل گئی اور بس"۔ وہ مسکرائی۔
"کیا مطلب" ایلی نے تڑپ کر شہزاد کی طرف دیکھا۔
شہزاد کے گالوں پر دو آنسو بہہ رہے تھے۔ "اچھا کیا۔" وہ بولی۔ "بہت اچھا ہوا یہاں دھرا ہی کیا تھا۔ جو تمہاری بھینٹ کیا جاتا۔ مجھے اگر معلوم ہوتا کہ زندگی میں تم سے ملنا ہوگا تو میں تمہاری بھینٹ کرنے کے لئے اپنا سب کچھ امانت رکھتی۔"اس نے آنسو پونچجھے اور دفعتاً کہنے لگی۔ "میرا ہاتھ تو تھام لو کم از کم چلو دھوکہ ہی سہی۔ اب میں خود کو دھوکہ دے کر بھی دیکھ رہی ہوں۔ اس میں مدد کرو۔"
شہزاد نے ایک عجیب سی نگاہ ایلی پر ڈالی۔ ایلی نے ایک زبردست دھچکا سا محسوس کیا وہ گر رہا تھا گرا جا رہا تھا۔
ایلی کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ اس پر ہمیشہ شدید خوف غالب رہتا تھا کہ اسے بے وفا نہ سمجھا جائے۔
ہوس یا محبت
علی احمد کے گھر میں پرورش پانے کی وجہ سے چند ایک باتیں اس کے دل میں گھر کر گئی
 

قیصرانی

لائبریرین
تھیں اور اس قدر جڑ پکڑ چکی تھیں کہ انہیں دل سے نکالنا نا ممکن ہو چکا تھا۔ وہ ان باتوں پر اس حد تک یقین رکھتا تھا کہ وہ اس کی شخصیت کا بنیادی جزو بن چکی تھیں۔ یہ باتیں تجربے دلیل عقل یا شعور سے اخذ نہیں کی گئی تھیں۔ بلکہ اس کے دل کے گہرے ترین جذبات ان کا منبع تھے۔
ایلی سمجھتا تھا کہ محبت صرف ایک محبوب سے ہو سکتی ہے اور مقصود شادی نہ ہو تو وہ محبت نہیں ہوتی۔ اس کے ذہن میں کسی سے محبت لگا کر بے وفائی کرنا شدید ترین گناہ تھا اس کا ایمان تھا کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ عورت کو مکمل آزادی ہونی چاہیے اس سے ایسا سلوک روا نہیں رکھنا چاہئے جس میں امتیاز کا عنصر ہو اسے بھیڑ بکری یا غلام نہیں سمجھنا چاہیے۔
یہ سب خیالات اس نے علی احمد حاجرہ اور اپنی زندگی سے اخذ کیے تھے۔
اس نے اپنے باپ کی جنسی بے راہ روی کی وجہ سے بہت دکھ سہا تھا۔ اپنی والدہ کی مظلومیت کی وجہ سے اس کا بچپن تباہ حالی میں گزرا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر وہ اس محبت سے محروم رہا تھا جس کے بغیر بچے کی شخصیت پھل پھول نہیں سکتی۔
وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اسے شہزاد سے محبت ہے تو پھر سادی سے کیا ہے اسے سادی سے تنہائی میں ملنے کے کئی ایک مواقع ملے تھے۔ گھنٹوں وہ اس کے پاس کھڑا رہا تھا لیکن اس نے کبھی کوئی خصوصی خواہش محسوس نہ کی تھی اسے سادی سے مل کر ایک انجانی سی خوشی ہوتی تھی اس کا خط پڑھ کر وہ مسرت کی ایک رو محسوس کرتا تھا۔
اگر اسے سادی سے محبت ہے تو پھر شہزاد سے کیا تھا۔ کیا اس روز جب وہ کہانی سنا رہی تھی۔ اور ایلی نے اس کے ہاتھ تھام لیے تھے اس کا ارادہ ہوس کاری پر مبنی تھا۔ اس وقت اس کی نس نس میں دھنکی سی کیوں بجی تھی جب وہ شہزاد کا ہاتھ پکڑتا تھا تو اس کے جسم میں چیونٹیاں سی کیوں چلنے لگتی تھی کیوں اس کا جی چاہتا تھا کہ اس کے قریب تر ہو جائے اور قریب اور قریب!! کیا یہ ہوس تھی کیا جسمانی قرب کی خواہش ہوس ہوتی ہے۔
لیکن محبت میں آرزو تو ضرور ہوتی ہے۔ قرب کی آرزو نہ ہوتو کیا ہو سکتی ہے۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
یہ درست تھا کہ سادی کے ساتھ اس نے جسمانی قرب کی خواہش محسوس نہ کی تھی۔سادی کی موجودگی میں ایک لطیف سا نشہ اس کی نس نس پر چھا جاتا تھا۔ لیکن شہزاد کے لیے وہ تنہائی کی آرزو کرتا تھا اور تنہائی میسر ہوتی تو اس کا جی چاہتا کہ اس کے قریب تر ہو جائے۔ اگر شہزاد ایسے موقعے پر بے پروا نہ ہو جایا کرتی تو نہ جانے اس قرب کا کیا نتیجہ نکلتا۔ بہرحال وہ نتیجہ اسے قطعی طور پر گوارا نہ تھا۔ جو اس روز بند بیٹھک میں ہوا تھا اس کی ایلی نے آرزو نہ کی تھی بلکہ اس نے وہ قدم صرف اس لیے اٹھایا تھا کہ اس کو یقین تھا کہ اگر عورت سے منہ زبانی محبت کی جائے تو اکتا جاتی ہے۔
بہرحال جہاں تک اس کے اپنے جذبات کا تعلق تھا وہ دل کی گہرائیوں میں سادی کی محبت کو بہتر سمجھتا تھا چونکہ اس میں گناہ کا عنصر شامل نہ تھا سادی کسی کی بیاہتا بیوی نہ تھی اس کے علاوہ اسے شہزاد پر اعتماد نہ تھا نہ جانے کیوں وہ سمجھتا تھا محلے کے تمام نوجوان اس کے عشق میں گرفتار تھے اور شہزاد فطرتاً محبت بھری نگاہوں کے سحر سے خود کو محفوظ کرنے کی خواہشمند نہ تھی۔ چاہے وہ نگاہیں کسی کی بھی ہوں۔
شہزاد کا حسن اس کے دل میں احساس رقابت پیدا کرتا تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ ساری دنیا اس کی رقیب ہے او روہ شہزاد کے نقاب کے ابھرے تاروں کو گنتا رہتا لیکن شاید یہی محبت کا ثبوت ہو۔ بہرحال یہ احساس اس قدر اذیت دہ تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ اس سے نجات حاصل کر لے۔
وہ چوری چوری دعائیں مانگتا تھا کہ سادی کی بات میں مشکلات حائل نہ ہوں سادی اس کی ہو جائے اور اس کی زندگی سے وہ خوف، رقابت اور احساس گناہ خارج ہو جائے جو شہزاد کی محبت سے وابستہ تھا لیکن اس میں اس قدر جرأت نہ تھی اعلانیہ اس آرزو کو اپنا لے کیونکہ وہ ڈرتا تھا کہ اسے یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ وہ شہزاد سے بے وفائی کر رہا ہے اور یہ بات اسے کسی صورت میں گوارا نہ تھی۔
جب سے ایلی لاہور سے آیا تھا اس نے شہزاد کی طرف خصوصی توجہ نہ دی تھی۔ اس نے اس کا لٹکتا ہوا بازو پکڑنے کی کوشش نہ کی تھی۔ اس نے غور نہ کیا تھا کہ اس کے ماتھے کا تل کب سیاہ پڑ گیا اور کب سرخی مائل۔ اس نے شہزاد کے جسم کی خوشبو کو اس شدت سے محسوس نہ کیا تھا۔ اپنی اس تبدیلی، اس بے رخی کا جواز یہ پیدا کیا تھا کہ وہ شہزاد سے ناراض ہے چونکہ پچھلی مرتبہ جب وہ علی پور آیا تھا تو شہزاد نے اس سے بے پروائی کا سلوک کیا تھا۔
بہرحال اندورنی طور پر وہ ایک شدید کشمکش میں مبتلا تھا اس میں اس قدر جرأت نہ تھی کہ
 

قیصرانی

لائبریرین
شعوری طور پر فیصلہ کرتا کہ آیا اسے سادی سے محبت تھی یا شہزاد سے یا بیک وقت دونوں سے۔
دیوتا
اگر شہزاد ایک عام عورت ہوتی تو وہ ایلی کو یوں بے پروا دیکھ کر بے زار ہو جاتی شہزاد کے لیے ایلی بدنامی کے ٹیکے کے سوا اور کیا تھا۔ ایلی کی وجہ سے محلے والیاں اسے طعنے دیا کرتی تھی۔ ہاجرہ اور فرحت سمجھتی تھیں کہ شہزاد نے جادو کے زور پر ایلی کو طوطا بنا کر اپنی انگلی پر بٹھا رکھا ہے۔ حتٰی کہ اس کا خاوند اس سے بدظن ہوا جا رہا تھا۔ اس کی اپنی والدہ شکوک سے بھری ہوئی تھی لیکن مجبور تھی۔ شہزاد کے تیور دیکھ کر خاموش ہو رہتی بذات خود ایلی ہر روز شہزاد سے ایک نیا جھگڑا کھڑا کر لیتا تھا تم نے فلاں کی طرف کیوں دیکھا تھا۔ تم میرےپاس بیٹھنے سے گریز کیوں کرتی ہو۔ سارا دن ایلی کے سامنے چڑھاوے چڑھتے رہتے۔ نئی نئی چیزیں پکا کر اس کے سامنے رکھی جاتیں جیسے گھر میں دیوتا بٹھا رکھا ہو۔
شہزاد کا صرف ایک مطالبہ تھا کہ وہ دیوتا سامنے بیٹھا رہے۔ نہ تو اس کے آگے بھکشا کے لیے ہاتھ پھیلائے اور نہ ہی اٹھ کر کہیں جائے لیکن اس کی پریم مرلیا مدھر گیت بجاتی رہے۔ دراصل شہزاد فطری طور پر "ان لنگی" عورت تھی۔ اسے جسم سے لاگ تھی اسے اپنے گرد محبت کا ہالہ قائم رکھنے کا جنون تھا وہ پنگھٹ کی پیاری تھی لیکن گگری بھرنے سے اسے بیر تھا۔ اور جسمانی قرب کو صرف اسی صورت میں برداشت کرنے کے لیے تیار تھی جب پریم کے دیپ کو جلتا رکھنے کے لیے اس میں تیل ڈالنا از بس ضروری ہو جائے۔
ایلی کی بے پروائی کو محسوس کرکے شہزاد یوں تڑپنے لگی جیسے مچھلی جل بنا تڑپتی ہے۔ پریت کا دیپ بجھتا جا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں، ہاتھوں، ہونٹوں، اور انگ انگ سے تیل کی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔ دیوتا کو منانے کے لیے ناری اپنی بھینٹ لیے کھڑی تھی۔
ایلی کو ابھی تک یہ علم نہ تھا کہ عشق میں ازلی طور پر خودکشی کا عنصر ہوتا ہے۔ عشق بذات خود عاشق کو محبوب کے وصال سے محروم کر دیتا ہے۔ اسے علم نہ تھا کہ محبت محبوب کا حصہ ہے عاشق کا نہیں اور اگر کسی کی محبت حاصل کرنا مقصود ہے تو اسے محبوب بننے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ عاشق۔ اور بے نیازی محبوب کی بنیادی خصوصیت ہے۔ اسے یہ احساس نہ تھا کہ سادی کے خیال میں کھو کر وہ شہزاد کا محبوب بن گیا ہے اور ناری کی تمام قوتیں اس بات پر تل گئی تھیں کہ ایلی کی محبت کا دیب جلا کر اسے وہی پرانی حیثیت بخش دی جائے اور پھر شہزاد شہزاد بن کر وہی پرانا بے نیازی کا روپ دھار لے اور پھولدار دوپٹہ لے کر تتلی سی ادھر ادھر اڑتی پھرے۔
یہ محض اتفاق کی بات تھی بیگم اسی وقت علی پور آئی تھی جب شہزاد اور ایلی نے اپنے رول بدل لیے تھے۔ اور ایلی کی حیثیت محبوب کی بن چکی تھی۔
اگر وہ پہلے آٹی تو وہ سمجھتی کہ ایلی شہزاد کی طرف ہاتھ بڑھا رہا ہے اور شہزاد اسے دھتکارتی نہیں لیکن وہ دیکھ رہی تھی کہ شہزاد ہاتھ پھیلا رہی ہے اور ایلی دیوتا سامنے بےنیاز بیٹھا ہے۔ لہٰذا اس نے محسوس کیا کہ شہزاد غلام علی ہے اور ایلی ایک نیچ عورت جو خریدی جا سکتی ہو نتیجہ یہ ہوا کہ بیگم کے دل میں شہزاد کے لیے وہی جذبات پیدا ہو گئے جو غلام علی سے وابستہ تھے۔ نفرت اور حقارت کا یہ طوفان چونکہ چل نہ سکتا تھا لہٰذا اس کے دل کی تاریک گہرائیوں میں اکٹھا ہوا گیا۔ اور اس کے اکٹھا ہونے کی وجہ سے شہزاد اور ایلی کا مستقبل تاریک ہوتا گیا۔
سب سے پہلے بیگم نے اس کا اظہار جانو کے سامنے کیا۔
جانو نے اپنی تمام تر زندگی تیاگ کے تحت بسر کی تھی۔ وہ جوانی میں خوش شکل تھی اور جوانی ہی میں اس کا خاوند مر چکا تھا اور اس نے اپنی تمام تر زندگی لوگوں کے کام کاج کرنے اور اپنی عصمت کے تحفظ میں بسر کی تھی۔ بیگم کی بات سن کر وہ آتش فشاں پھٹ گیا۔
"اے ہے۔" جانو بولی "بیگم یہاں تو آئے دن یہی ہوتا ہے اب رانی سے کون کہے کہ اپنا آپ سنبھال۔"
"آخر بیٹی کس کی ہے۔" بیگم کے دل میں غلام علی بسا ہوا تھا۔
"بیٹی تو تمہاری ہی ہے۔" جانو بولی۔
"ہائے میری ہوتی تو یہ چلن نہ ہوتے۔"
"اور وہ شریف میاں بدھو۔" جانو بولی۔ "وہ سب کچھ دیکھ کر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا ویسے نام کو خاوند ہے۔"
"ہوں خاوند۔" بیگم نے کہا "اس محلے کے خاوند تو نہ جانے کس مٹی سے بنے ہوئے ہیں خاوندوں والی بات ہی نہیں۔" بیگم کے نزدیک خاوند تو صرف ایک ایسا خاوند تھا جو خاوند کہلانے کا مستحق تھا۔ اس نے بیگم کو گھر سے نکال کر ازلی محبوب کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔
بیگم اور جانو کی یہ دبی دبی باتیں ابھریں اور پھر اس پراسرار اصول کے ماتحت باہر نکل گئیں
 
Top